Home سفرنامہ قسطنطنیہ:مذہبی اہمیت اور تاریخی قدر و قیمت -افروز عالم ساحل

قسطنطنیہ:مذہبی اہمیت اور تاریخی قدر و قیمت -افروز عالم ساحل

by قندیل

میزبان رسول اللہ ﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ قسطنطنیہ کو فتح کرنے کا خواب لے کر یہاں پہنچے اور شہید ہوگئے۔ اس وقت کس کو معلوم تھا کہ 800 سال بعد کوئی سلطان فاتح اٹھے گا جو نہ صرف اس شہر کو فتح کرے گا، بلکہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی یاد میں ایک عظیم الشان مسجد بھی بنائے گا۔ آج میں اسی مسجد میں کھڑا ہوں اور میری آنکھوں کے سامنے اسلامی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ پیش ہے ترکی کے سفر کی ایک روداد۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا، ’سب سے پہلا لشکر میری امت کا جو قیصر (رومیوں کے بادشاہ) کے شہر (قسطنطنیہ) پر چڑھائی کرے گا، اس کی مغفرت ہوگی۔‘ (حدیث 2924:صحیح بخاری)

تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر معاویہؓ کے دور میں اسلام کو دنیا کے ہر کونے تک پھیلانے کی پوری کوشش کی جارہی تھی۔ اسی بات کے پیش نظر پچاس ہجری میں اسلام کا ایک عظیم لشکر یزید بن معاویہ کی قیادت میں نکلا، مقصد قسطنطنیہ کو فتح کرنا تھا۔ اس لشکر میں ایک بزرگ بھی شامل تھے جنہوں نے روم کے لشکروں کو دھول چٹادی، رومی لوگ پریشان تھے آخر یہ بزرگ ہیں کون؟ یہ بزرگ کوئی اور نہیں بلکہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ تھے۔

کہا جاتا ہے کہ اس جلیل القدر صحابی کی تجویز پر ہی دشمن پر پے در پے حملے کیے گئے، یہاں تک کہ قسطنطنیہ کی دیواروں تک پہنچنے میں کامیابی ملی۔ لیکن حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو شہید کردیا گیا۔ چونکہ اپنی شہادت سے قبل انہوں نے وصیت فرمائی تھی، ’اے یزید! لشکر اسلام کو میرا سلام کہنا اور مجاہدین سے کہنا کہ ابو ایوب کی تمہیں وصیت ہے کہ دشمن کی سرزمین میں پیش قدمی کرتے ہوئے آخری حد تک پہنچنا اور میری لاش کو لے جا کر قسطنطنیہ کی دیوار کے نزدیک دفن کرنا۔۔۔‘ چنانچہ ان کے اس وصیت کے مطابق دیوار قسطنطنیہ کے سائے میں ان کے لیے قبر کھودی گئی اور بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ استنبول میں موجود ان کے مقبرے پر ان کی شہادت کا سال سن 669ء لکھا ہوا ہے۔

 

 

 

تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب 1453ء میں سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کیا تو اس دور میں سب سے پہلے سلطان فاتح نےآپؓ کی قبر کی تلاش کا عمل شروع کیا۔ اس وقت کے جید روحانی بزرگ اور سلطان فاتح کے استاد الشمس الدین نے ایک جگہ کی نشاندہی کی۔ تاریخی روایات میں ہے کہ آپ نےاس جگہ نور دیکھا۔ دو ہاتھ گہری زمین کھو دی گئی تو وہاں ایک پتھر برآمد ہوا، جس پر عبرانی زبان میں حضرت ابو ایوب انصاری کا نام لکھا تھا۔ بس اسی مقام پر ان کا مزار قائم کیا گیا اور آپؓ کی قبر کے پاس بطور یادگار ایک مسجد قائم کی گئی جو ترکی کی قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مسجد عین اس جگہ پر تعمیر کی گئی جہاں حضرت ابو ایوب انصاریؓ زخمی ہونے کے بعد شہید ہو گئے تھے۔

حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی یاد میں 1458ء میں بنی یہ مسجد ترکی میں ’سلطان ایوپ جامی‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ترکی زبان میں ’ب‘ کو ’پ‘ لکھا اور پڑھا جاتا ہے اور مسجد کو ’جامی‘ کہا جاتا ہے، وہیں ترک لوگ عقیدت ومحبت سے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو ’سلطان ایوپ‘ کہتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ 1766ء کے زلزلے میں اس مسجد کو شدید نقصان پہنچا تھا، تب وزیر درویش محمد پاشا نے اس کی مرمت کی تھی، لیکن یہ عمارت کو بچانے کے لیے کافی نہیں تھا۔ اس لیے 19 مئی 1798ء کو اس مسجد کے کچھ حصوں کو مسمار کرکے اس کی دوبارہ تعمیر کی گئی۔ یہ کام 7 جولائی 1800ء کو مکمل ہوا، اور نئی مسجد کا 25 اکتوبر 1800ء کو باقاعدہ افتتاح کیا گیا۔

یہ مسجد استنبول کے یوروپی حصے ’سلطان ایوپ‘ میں ہے۔ تاریخی لحاظ سے یہ استنبول کا ایک اہم اور تاریخی علاقہ ہے۔ بازنطینی دور میں اس علاقے کو ’کوسمیئن‘ کہا جاتا تھا۔ لیکن فتح قسطنطنیہ کے بعد اس علاقے کا نام سلطان ایوپ رکھا گیا جو بعد میں استنبول کا ایک اہم ضلع بنا۔

اس تاریخی مسجد میں آج سے قبل بھی کئی بار آچکا ہوں۔ سال 2018ء میں جب پہلی بار استنبول آیا تھا تو اس مسجد میں بڑے بھائیوں کے ساتھ فجر کی نماز بھی ادا کی ہے اور پھر ان کے ساتھ سیلیپ اور آئس کریم کا لطف لینے کی یادیں شاید زندگی میں کبھی نہیں بھول سکوں گا۔ لیکن میری خواہش یہاں جمعہ کی نماز ادا کرنے کی تھی چنانچہ میں ٹیکسی لے کر نماز کے وقت پر یہاں پہنچ چکا تھا، لوگ مسجد کے باہر سڑکوں پر جائے نماز بچھائے بیٹھے تھے۔ نمازیوں کی تعداد کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ مسجد کے اندر جگہ کا ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، پھر بھی میں اپنا جوتا باہر ہی اتار کر ننگے پاؤں مسجد کی طرف چل پڑا، میرے سامنے مسجد میں داخل ہونے کا صدر دروازہ ہے، جس پر لکھا ہے، ’إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ‘ اللہ کی مسجدوں کے آباد کار (مجاور و خادم) تو وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اللہ اور روز آخر کو مانیں اور نماز قائم کریں۔ مسجد کے اندرونی کیمپس کا نظارہ تو نہایت شاندار تھا۔ یہاں لوگ کوویڈ کے فزیکل ڈسٹنسنگ کی گائیڈلائنس کو پوری طرح بھول چکے تھے، ہاں البتہ ہر چہرے پر ماسک ضرور تھا۔

میں کسی طرح ایک کونے میں کھڑا ہوگیا، لیکن بار بار میرے دل میں خیال آرہا تھا کہ شاید میں غلط کررہا ہوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں جگہ نہ ملے اور مجھے باہر ہی جانا پڑے، اور پھر میرے پاس جائے نماز بھی نہیں ہے۔ کھلی سڑک پر ہی نماز پڑھنی پڑے گی۔ لیکن تبھی مسجد کے دروازے پر موجود گارڈ نے مجھے اشارے سے بلایا اور اندر کی طرف اشارہ کرکے بھیج دیا۔ اندر پہنچتے ہی دل کو ایسا سکون ملا جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ میں خود کو خوش قسمت سمجھ رہا تھا کہ مسجد کے اندر نماز پڑھنے کی جگہ مل گئی۔ مجھے یاد ہے کہ سال 2018ء میں مَیں نے فجر کی نماز بھی مسجد کے باہری کیمپس میں ہی پڑھی تھی کیونکہ اندر جگہ نہیں مل سکی تھی۔

نماز ختم ہوچکی تھی۔ لیکن میں اپنی جگہ پر ہی بیٹھا رہا۔ دل چاہتا تھا کہ بس یوں ہی بیٹھا رہوں۔ سنت نمازوں کے بعد مسجد کا تقریباً نصف حصہ خالی ہوچکا تھا۔ لیکن اب جب قرآن کی قرأت شروع ہوئی تو اس روح پرور آواز نے مجھے مزید بیٹھنے پر مجبور کردیا۔ قرأت ختم ہوچکی تھی۔ زیادہ تر لوگ مسجد سے باہر جا چکے تھے اور باہر انتظار کررہے سیاح مسجد میں داخل ہونے لگے تھے۔ مسجد میں تصویریں لینے کا دور شروع ہو چکا تھا۔ اب میرے اندر کا صحافی جاگ اٹھا اور امام صاحب سے ملنے کی ضد کرنے لگا۔ وہ ابھی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے اپنی ٹوٹی پھوٹی ترکی میں اپنا تعارف کرایا۔ شروع میں کافی خوش نظر آئے، لیکن اب ایسا لگ رہا تھا کہ وہ جلدی میں تھے۔ شاید انہیں کہیں جانا تھا۔ انہوں نے پیار سے مجھے سامنے لگے قطعہ کو دکھایا اور اسے پڑھ کر سنایا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں اسے پڑھ سکتا ہوں۔ اس پر لکھا تھا، ’یتشمزمی بو شہرک خلقنہ بو نعمت باری، حبیب اکرمک یا ریے ابا ایوب الانصاری‘ ۔ یہ سننے کے بعد وہ مسکرائے اور چلنے کی تیاری کرنے لگے۔ میں سمجھ گیا تھا کہ انہیں اب کہیں جانا ہے۔

ترکی کی باقی مسجدوں کی طرح اس مسجد کی خوبصورتی بھی دیکھنے کے لائق ہے۔ لیکن اس مسجد میں جو روحانیت اور سکون ہے، وہ شاید ہی ترکی کی کسی اور مسجد میں ملتا ہو۔ مسجد سے باہر نکلنے پر صدر دروازے پر ایک طرف حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی ’ھذہ کنیتہ‘ ہے، جو 1957 میں لیبیا کے بادشاہ نے ایوپ سلطان کے مقبرے کے انتظامیہ کو تحفے میں دیا تھا۔

اب ہم مسجد کے باہر اس کے اندرونی صحن میں تھے۔ مسجد کا اندرونی صحن استنبول کی دیگر عام بڑی مساجد سے مختلف ہے۔ یہاں اس کیمپس میں ایک بڑا سا درخت ہے۔ یہ درخت بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس درخت کو سلطان محمد فاتح نے خود اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا۔ اسی درخت کے ٹھیک سامنے سنہری نفیس جالیوں کی دیوار بنی ہوئی ہے جہاں ہر وقت خواتین کا ہجوم رہتا ہے۔ دراصل اس جالی کے ٹھیک سامنے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی قبر ہے، جس کے سامنے کھڑے ہوکر یہ لوگ دعا کرتے ہیں۔ حالانکہ اس قبر یا مزار پر جانے کے لیے مین گیٹ باہر کی طرف سے ہے۔

اس دروازے سے اندر جانے کے لیے لوگ قطار میں کھڑے ہیں، کسی کو کوئی جلدی نہیں ہے، سب بڑے سکون کے ساتھ اندر داخل ہورہے ہیں۔ اندر موجود گارڈس قبر تک کسی کو جانے نہیں دیتے اور نہ ہی لوگوں کو زیادہ دیر تک رکنے دیتے ہیں پھر بھی لوگوں کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی ہیں۔ کنارے پر کچھ لوگ بیٹھ کر قرآن پڑھ رہے ہیں۔ استنبول میں قبروں یا مزاروں پر ایسی کوئی حرکت نہیں ہوتی جو ہمارے وطن میں مزاروں پر عام طور پر ہوتی ہے۔

لوگوں کا ہجوم ہونے کے باوجود یہاں بے انتہا خاموشی ہے۔ ہر کوئی اس جگہ کو اپنے کیمرے میں قید کرلینا چاہتا ہے۔ اور قید بھی کیوں نہ کرے، آنکھوں کے سامنے ہمارے نبی ﷺ کے قدموں کے نشان رکھے ہوئے ہیں۔ یہیں سامنے ایک بے حد خوبصورت سی الماری، جو شیشے میں بند ہے، میں درخت کا وہ پتّا جو حضرت محمد ﷺ نے اپنی زندگی میں لگایا تھا، رکھا ہوا ہے۔ ساتھ ہی ایک کالا پتھر جو آپ ﷺ کی قبر سے نکالا گیا تھا، موجود ہے۔ اسی کے بغل میں داڑھی مبارک کے دو گچھے، جو حضور ﷺ کے ہیں، شیشے کے ڈھکن والے ایک باکس میں رکھے ہوئے ہیں۔ یہیں پر سبز چادر میں لپٹا ہوا وہ عَلم بھی موجود ہے جو حضورﷺ نے ابو ایوب انصاریؓ کو کسی غزوہ میں دیا تھا اور وہ تاریخی عَلم حضرت ابو ایوب انصاریؓ غزوات اور جنگوں میں اٹھایا کرتے تھے۔ اسی نسبت سے حضرت ایوبؓ کو حضورﷺ کے میزبان کے علاوہ حضورﷺ کا علم بردار بھی کہتے ہیں۔ آپؓ ان منتخب بزرگان مدینہ میں سے ہیں، جنہوں نے عقبہ کی گھاٹی میں جاکر پیغمبر اسلام ﷺ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی تھی۔

ترکوں کے لیے اس مقام کی کیا اہمیت ہے؟ اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ یہ مسجد عثمانی سلاطین کی تاجپوشی کی تقریب کا روایتی مقام تھا۔ یہیں نئے سلطان کو سلطنت عثمانیہ کے بانی سلطان عثمان کی تلوار سونپی جاتی تھی۔ اسی مقام پر سلطان محمد فاتح کی کمر پر بھی شیخ الاسلام شمس الدین نے سب سے پہلے یہ تلوار باندھی تھی۔

 

 

 

کہا جاتا ہے کہ ترکی کا ہر صدر اپنے دور حکومت میں یہاں اپنی حاضری ضرور دیتا ہے۔ گزشتہ دنوں اگست 2020ء میں ترک قوم کو گیس کے بڑے ذخائر کی دریافت کی خوشخبری سنانے سے قبل صدر ایردوان نے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضری دی تھی۔ اس سے قبل بھی ایردوان نماز ادا کرنے کے لیے سلطان ایوپ جامی میں آتے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہونچے تھے، تب ہر مسلمان کی ایک ہی خواہش تھی کہ پیغمبر ﷺ کی میزبانی کا شرف اسے حاصل ہو۔ ایسے میں رسول ﷺ کے لیے بھی مشکل تھا وہ میزبانی کا یہ حق کسے دیں۔ آپ ﷺ کسی کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا اور کہا کہ میری اونٹنی جس کے گھر کے سامنے بیٹھے گی، میرا قیام اسی کے گھر پر ہوگا۔ اس طرح نبی کریم ﷺ کی میزبانی کا شرف حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو حاصل ہوا۔ آپ ﷺ کا ان کے گھر قریب سات مہینے کا قیام رہا۔

دراصل ان کا اصل نام خالد بن زیدؓ تھا، جو حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپؓ ہمیشہ غازی بن کر رہے۔ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک سے امیر معاویہؓ کے عہد حکومت تک جتنی بھی اسلامی جنگیں لڑی گئیں آپ سبھی میں شریک رہے۔ جب حضرت علیؓ نے کوفہ کو دارالخلافہ قرار دیا تو مدینہ میں حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو اپنا جانشین چھوڑ گئے اور اس عہد میں آپ امیر مدینہ رہے۔

حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مقبرے کے آس پاس کئی اہم شخصیات کی قبریں ہیں۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد زیادہ تر ترکوں کی شدید خواہش تھی کہ وہ بھی اس مقدس ہستی کے نزدیک دفن ہوں، لہٰذا بہت سے مسلم امراء کی قبریں بھی یہیں ہے۔ یہیں بہت سے عثمانی حکام بھی مدفون ہیں، جو تاریخی اعتبار سے ترکی میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ یہاں کافی وسیع وعریض قبرستان موجود ہے، اور ان قبروں پر پتھروں کے اونچے اونچے کتبے لگے ہوئے نظر آتے ہیں۔

مسجد کے باہر کا نظارہ بھی دیکھنے کے لائق ہوتا ہے۔ یہاں کھانے پینے کی طرح طرح کی چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔ وہیں کئی ساری یادگار چیزیں بھی ہیں۔ لیکن مجھے آج کسی سے ملنا تھا، اس لیے میں یہاں سے جلدی نکل گیا۔ باہر نکلتے ہی سڑک پر ایک کار کا ملبہ ہے، جسے شیشے کے اندر فریم کردیا گیا ہے، ساتھ ہی اس کی تاریخ بھی یہاں لکھ دی گئی ہے۔ ’اس گاڑی کو 15 جولائی 2016 کی بغاوت کی کوشش کی رات کو برلک پل کے نیچے بغاوت کی سازش کرنے والوں کے زیر استعمال ٹینک نے کچل دیا تھا۔‘

اس کار کی کہانی ہمیں سوچنے پر مجبور کر دینے والی ہے۔ دراصل 15 جولائی 2016ء کو ترکی میں موجودہ ایردوان حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ گاڑی ایک 44 سالہ جمہوریت نواز ترک شخص کی ہے، جس کا نام فوات بلیر ہے۔ اور جب فوج سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی تھی تو فوات نے اپنی گاڑی سے ٹینک کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ ٹینک نہ رکنے کی وجہ سے فوات زخمی ہو گیا تھا۔

یاد رہے کہ ترکی میں 15 جولائی کو ہونے والی بغاوت خونی بغاوت تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ 200 سے زائد افراد اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس کے باوجود ایردوان کے خلاف یہ بغاوت پوری طرح ناکام رہی، اس کی اہم وجہ ترکی کے عوام کی صدر طیب ایردوان کے تئیں حمایت تھی۔ خوش قسمتی سے ترکی میں جمہوریت کا غلبہ ہوا اور اس کے بہادر لوگوں نے فوجی آمریت کو روک دیا۔

یہ کچلا ہوا اوڈی آر 8 ترک عوام کی جمہوریت کے لیے جدوجہد کی نہ صرف علامت ہے بلکہ آنے والے سیاحوں کے لیے بھی دل چسپی وعبرت کا سامان ہے۔ اور ایسی علامتیں ترکی میں ہر جگہ نظر آتی ہیں۔ ترک عوام اس دن کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں اور اس دن پورے ترکی میں سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ اس قومی تعطیل کا اعلان صدر ایردوان نے گزشتہ سال ایک عوامی تقریب میں کیا تھا۔ استنبول کے مشہور باسفورس پل پر ہزاروں کی تعداد پر جمع ہونے والے افراد سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا تھا کہ ’میں اس قوم کا شکر گزار ہوں جس نے اس ملک کی حفاظت کی۔ 250 افرد نے اپنی جانیں گنوائیں لیکن ملک کا مستقبل فتح کر لیا۔‘

 

You may also like

Leave a Comment