Home قومی خبریں تملناڈو کے شہر پلاپٹی میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا ۳۲واں سمینار منعقد ،ملک بھر سے تقریباً تین سو علما وارباب افتا کی شرکت

تملناڈو کے شہر پلاپٹی میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا ۳۲واں سمینار منعقد ،ملک بھر سے تقریباً تین سو علما وارباب افتا کی شرکت

by قندیل

پلاپٹی:جنوبی ایشیا کے موقر اور معروف علمی، تحقیقی اور فقہی ادارہ ’’اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ‘‘ نے اپنی روایت کے مطابق بتیسواں فقہی سمینار ۱۸۔۲۰؍نومبر ۲۰۲۳ء ’’جامعۃ الاسوۃ الحسنۃ‘‘ کرور ، تامل ناڈو میں منعقد کیا۔
افتتاحی اجلاس کی صدارت اکیڈمی کے جنرل سکریٹری اور صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے کی، آپ نے اپنے فکر انگیز خطاب میں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کو اپنے وجود میں جذب کرنے کے لیے کوشاں ہیں، ان کو اسلام سے دور کرنے اور فتنہ ارتداد پھیلانے کے لیے بہت ہی منصوبہ بند سازشیں کی جارہی ہیں، نیز اس کے لیے سیاسی قوت کے علاوہ خاص طور پر میڈیا اور تعلیم کو استعمال کیاجارہا ہے، اس لیے اس وقت تمام ملی اور مذہبی تنظیموں اور اداروں کو اس پہلو پر توجہ دینے کی بڑی ضرورت ہے، آپ نے اپنے خطبہ میں یہ بات بھی واضح کی کہ سمینار کا ایک موضوع دوسری قوموں سے تشبہ اسی پس منظر میں رکھا گیا ہے؛ کیوں کہ جو قومیں اپنی تہذیب اور کلچر کو کھو دیتی ہیں اور دوسرے کا رنگ اختیار کرلیتی ہیں تو پھر وہ بتدریج اپنا مذہبی وجود بھی کھودیتی ہیں۔
سمینار کی پانچ نشستیں منعقد ہوئیں، مولانا عتیق احمد بستوی، مولانا عبید اللہ اسعدی اور مفتی احمد دیولوی نے مختلف نشستوں کی صدارت کی، اختتامی نشست کی صدارت اکیڈمی کے نائب صدر حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی مہتمم دار العلوم وقف دیوبند نے فرمائی، مولانا قاسمی نے اپنے خطاب میں علماء کو توجہ دلائی کہ ہمارے لیے اپنے عہد کے حالات سے واقف ہونا بہت ضروری ہے، اس کے بغیر اسلام کی ترجمانی اور اس کے دفاع کا فریضہ انجام نہیں دیا جاسکتا۔
سمینار میں تین اہم موضوعات پر ملک بھر سے آئے ہوئے علماء نے بحث کی اور فیصلے کیے، شریعت کی روشنی میں سرمایہ کاری کے طریقے اور اس کی عملی شکلیں، دوسرے اگر موروثی طور پر کسی کو ایسا مال ملا ہو جو حرام طریقہ پر حاصل ہوا ہو تو اس کے ساتھ بعد میں آنے والوں کا کیا رویہ ہوگا؟ تیسرے عقیدہ، عبادت اور معاشرت وغیرہ میں غیر اسلامی طریقوں کے اختیار کرنے کا حکم، سمینار نے مسلمانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے مذہبی وقومی تشخص کی حفاظت پر پوری توجہ دیں، ہندوستان کے ماحول میں سرمایہ کاری کے جو اسلامی طریقے اختیار کیے جاسکتے ہیں جن کی بنیاد سود کے بجائے نفع ونقصان میں شرکت کے ساتھ کاروبار ہے، کو عمل میں لائیں اور حرام سے بچیں اور اگر ان کی دولت میں وراثت کے ذریعہ کوئی حرام مال آگیا تو غریبوں پر صدقہ کرکے اپنی دولت کو پاک صاف رکھنے کا اہتمام کریں؛ کیونکہ مال حرام ایک گندگی ہے اور ہر مسلمان کے لئے اس سے بچنا واجب ہے۔
سمینار میں شرکاء نے فلسطین کے مظلوموں سے ہم آہنگی کا اظہار کیا، ان کی کوششوں کو اپنی زمین آزاد کرانے کی کوشش قرار دیا، اسرائیل کے رویہ کو ظلم وبربریت قرار دیتے ہوئے اس بات کو سراہا کہ ہندوستان نے گاندھی جی سے لے کر آج تک ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت کی ہے اور اب بھی مرکزی حکومت اور اپوزیشن پارٹیاں اسی موقف پر قائم ہیں۔
سمینار میں دار العلوم دیوبند، ندوۃ العلماء لکھنؤ، مظاہر العلوم سہارنپور، جماعت اسلامی ہند، دار السلام عمرآباد، امارت شرعیہ بہار، جامعہ باقیات الصالحات ویلور اور شمالی ہند اور جنوبی ہند کے اہم اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی، اکیڈمی کے ذمہ داروں کے علاوہ مولانا فضل الرحیم مجددی جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ، اور معروف عالم دین مولانا رحمت اللہ کشمیری وغیرہ نے بھی شرکت کی۔

You may also like