Home قومی خبریں اسلامی فکر کی وجہ سے حفیظ میرٹھی نظر انداز کئے گئے:شہاب ظفر اعظمی

اسلامی فکر کی وجہ سے حفیظ میرٹھی نظر انداز کئے گئے:شہاب ظفر اعظمی

by قندیل

کاروانِ ادب حاجی پور کے زیر اہتمام ’حفیظ میرٹھی کی شاعری‘ کے موضوع پر سمینار کا انعقاد

پٹنہ یکم دسمبر(محمد عظیم الدین)
اردو تنقید کی صحت مند روایت الطاف حسین حالی نے قائم کی ۔ حفیظ میرٹھی کی شاعری اسی فکر اور روایت کی علمبردار تھی۔ ان خیالات کا اظہار آج معروف ادیب اور ناقد ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی (شعبہ اردو پٹنہ یونیورسیٹی) نے ’’حفیظ میرٹھی کی شاعری ‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس کا اہتمام ویشالی کے صدر دفتر حاجی پور میں ادبی اور لسانی تنظیم کاروان ادب نے کیا تھا ۔ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے اپنی صدارتی تقریر میں اچھی شاعری کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اچھی شاعری سامعین اور قارئین کے ذہن میں ارتعاش پیدا کرتی ہے اور اس میں معنی کی دنیا آباد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حفیظ میرٹھی کی شاعری شعور کو زندگی بخشتی ہے اور لوگوں کو بیدار کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ ادب کے مین اسٹریم سے تین حفیظوں ، حفیظ جالندھری ، حفیظ میرٹھی اور حفیظ بنارسی کے نام کو صرف اس لیے غائب کر دیا گیا کہ یہ تینوں اسلامی فکر کے شاعر ہیں۔انہوں نے کہا کہ اردو تنقید کی روایت جہاں سے شروع ہوتی ہے وہیں سے صالح فکر پروان چڑھی۔ ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی نے حفیظ میرٹھی کی شاعری پر کاروان ادب کے اس سیمینار کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ اس میں جو مقالات پڑھے گئے یا خیالا ت کا اظہار کیا گیا ان میں حفیظ میرٹھی کی شاعری کے پہلوئوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس موقع پرکاروانِ ادب کے صدر ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے اپنے ابتدائی کلمات اور اپنے مقالہ ’’حفیظ میرٹھی: انسانی قدروں کا مغنی اور مبلغ‘‘ میں کہا کہ حفیظ میرٹھی اپنی شاعری کے حوالہ سے پوری ادبی دنیا میں آج بھی جانے پیچانے جاتے ہیں۔ان کی شاعری میں ان کے عہد کا عکس نظر آتا ہے۔انہوں نے کہا کہ حفیظ میرٹھی کی شاعری میں مادیت کا انکار بھی ہے وہ گفتار کے غازی نہیں کردار کے غازی بھی ہیں۔کاروان ادب کے جنرل سکریٹری انوار الحسن وسطوی نے’’ حفیظ میرٹھی کی نعت گوئی‘‘ کے موضوع پر اپنے مقالہ میں کہا کہ حفیظ میرٹھی کی نعتوں میں تغزل اور ترنم کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے اور ان کی شاعری میں ملت کا بے پناہ درد جھلکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ حفیظ میرٹھی کی کلیات میں 14 نعتیں ہیں جن سے ان کے عشقِ رسولؐ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سینیر صحافی ڈاکٹر ریحان غنی نے کہا کہ حفیظ میرٹھی نے صالح فکر کو فروغ دے کر اردو شاعری کو گمرہی سے بچایا ۔ انہوں نے کہا کہ ترقی پسندی اور جدیدیت کے دور میں اس گروہ سے الگ ہٹ کر جو چند شاعر خاموشی لیکن مضبوطی کے ساتھ شعرو شاعری کے افق پر ابھرے ان میں ایک حفیظ میرٹھی بھی تھے۔انہوں نے اردو شاعری کو جرات اظہار اور جرات گفتار عطا کی۔ ان کی شاعری کا خاص نشانہ بدی اور باطل پرستی ہے۔ ڈاکٹر ریحان غنی نے کہا کہ حفیظ میرٹھی کی شاعری نرم و نازک باتوں سے بھی سماج میں انقلاب برپا کرنےکا پیغام دیتی ہے۔اس موقع پر سید مصباح الدین احمد نے ’’حفیظ میرٹھی کی شخصیت، ان کی شاعری کے حوالے سے‘‘، ڈاکٹر تابش عبید اللہ نے ’’حفیظ :ایک انقلابی شاعر‘‘، ڈاکٹر ہمایوں اختر نے ’’حفیظ میرٹھی:بحیثیت انقلابی شاعر‘‘، ڈاکٹر ذاکر حسین نے ’’حفیظ کی شخصیت ان کے اشعار کی روشنی میں‘‘ اور ڈاکٹر مشتاق احمد مشتاق نے ’’حفیظ میرٹھی ادیبوں کی نظر میں‘‘ کے عنوان سے اپنے مقالے پیش کئے۔ اس موقع پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے سید امتیاز کریم نے کہا کہ حفیظ میرٹھی کی شاعری پر سمینار کا انعقاد کاروانِ ادب کی قابل تقلید کوشش ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر ممتاز احمد خان نے معروف ناقد اور ادیب ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کا ایک پیغام بھی پڑھ کر سنایا۔سمینار کا اختتام ڈاکٹر ممتاز احمد خاں کے اظہار تشکر پر ہوا۔سمینار کا آغاز مدینہ مسجد حاجی پور کے امام مولانا محمد وسیم کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس موقع پر پروفیسر احمد رضی قیصر، نسیم الدین صدیقی، اسد احمد خان، سید محبوب حسن، پروفیسر اظہار الحق، ڈاکٹر عبدالوہاب، محمد عظیم الدین انصاری، اشتیاق احمد خان، ڈاکٹر محمد ناصر الدین، عبدالرحیم انصاری ایڈوکیٹ، ڈاکٹر عارف حسن وسطوی، عبدالقادر، محمدفدا الہدیٰ اور حزیر احمد خاں سمیت کافی تعداد میں اہل ذوق حضرات موجود تھے۔

You may also like

Leave a Comment