ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
استاذ:جامعہ نعمانیہ، ویکوٹہ، آندھرا پردیش
نیک صالح اولاد اللہ تعالی کی طرف سے ایک نعمت ہے، رحمت وبرکت ہے، والدین کے لئے حصول جنت کا ذریعہ ہے۔سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نیک وصالح اولاد کی دعا مانگی تھی:رب هب لى من الصالحين، فبشرناه بغلام حليم۔ میرے پروردگار! مجھے ایک ایسا بیٹا دیدے جو نیک لوگوں میں سے ہو، چنانچہ ہم نے انہیں ایک بردبار لڑکے کی خوشخبری دی۔ معلوم ہوا کہ نیک صالح اولاد کے حصول کی دعا کرنا سنت انبیا ہے۔
اولاد میں بھی بیٹی بیش بہا عطیہ خدا وندی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:يهب لمن يشاء اناثاويهب لمن يشاء الذكور ۔وہ جس کو چاہتا ہے، لڑکیاں دیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے۔
بعض مفسرین نے آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ بچوں پر بچیوں کا مقدم کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ بچیوں کی قدر ومنزلت زیادہ ہے، اسی طرح اسی آیت کے اشارے سے حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس عورت کے بطن سے پہلے لڑکی پیدا ہو وہ مبارک ہوتی ہے۔ (معارف القرآن)
ہر مسلمان اپنی اولاد کی ولادت پر خوش ہوتا ہے، لیکن لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی پیدائش پر زیادہ خوش ہونا چاہیے، احادیث مبارکہ میں بچیوں کی پرورش، دیکھ ریکھ کے بارے میں بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں، ترمذی شریف کی روایت ہے:
عن انس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من عال جاريتين دخلت أنا وهو الجنة كهاتين وأشار بأصبعيه۔ (سنن الترمذي:1913)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے دو لڑکیوں کی پرورش کی میں اور وہ دونوں جنت میں اس طرح داخل ہوں گے (یہ فرماتے ہوئے آپ ﷺ نے اپنی دونوں انگلیوں یعنی انگشت شہادت اور اس سے متصل انگلی کو ملا کر اشارہ فرمایا)
اسی طرح سنن ابن ماجہ کی روایت ہے:عن ابن عباس قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:ما من رجل تدرك له ابنتان فيحسن إليهما، ماصحبتاه أو صحبهما إلاأدخلتاه الجنة۔ (سنن ابن ماجة:3670)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس شخص کے پاس دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے جب تک کہ وہ دونوں اس کے ساتھ رہیں، یا وہ ان دونوں کے ساتھ رہے تو وہ دونوں لڑکیاں اسے جنت میں پہنچائیں گی۔
اتنی بڑی خوشخبری لڑکوں کے لئے نہیں بلکہ صرف لڑکیوں کی عمدہ تعلیم وتربیت کے لئے آئی ہے، صالح تربیت پر والدین کو جنت جیسی لازوال نعمت کا مژده عطا فرمایا۔
اب ہمیں دیکھنا ہے کہ ہمارے موجودہ معاشرہ میں بچیوں کی صحیح تربیت ہورہی ہے یا نہیں، کیونکہ یہی کونپلیں کل امت کی مائیں ہوں گی، آج اگر ان کی صحیح تربیت ہوگی تو کل ان کی گود میں پلنے والے اسلام کے ہیرو ہوں گے، یہ سچ ہے کہ بچے بچیوں کی تعمیر و ترقی کا سرچشمہ ماں کی گود ہی ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی تربیت گاہ ہوتی ہے، یہیں سے ان کی تعلیم وتربیت کا آغاز ہوتا ہے، اس درسگاہ میں جو کچھ ان کے ذہن و دماغ پر مرتسم ہوتے ہیں وہ زندگی بھر باقی رہتے ہیں:
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا میں رود دیوار کج
معمار جب پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھتا ہے تو اخیر تک دیوار ٹیڑھی ہی رہتی ہے۔
موجودہ دور میں بچیوں کی تعلیم وتربیت میں بڑی غفلت برتی جارہی ہے،ہم اپنی بچیوں کی عمر کے بنیادی اور ابتدائی کچھ سال ( پانچ ،چھ سال کی عمر) یوں ہی ضائع کردیتے ہیں حالانکہ یہی عمر بچیوں کا سنورنے کا ہوتا ہے ، اس عمر میں ان کا ذہن و دماغ خالی ہوتا ہے جو کچھ اس میں ڈالا جائے گا وہ پتھر کی لکیر کی سی ہوجائےگی، انہیں سب سے پہلے اللہ و رسول کا نام ،کلمہ شہادتیں، سورہ اخلاص، سونے،اٹھنے،کھانے پینے وغیرہ کی دعائیں یاد کرائی جائیں، توحید و رسالت کی حقیقت ان کے دل و دماغ پر بیٹھایا جائے، سلام وکلام اور اسلامی آداب سکھلائے جائیں،نماز کی دعائیں یاد کرائیں، گھر کی مستورات جب نماز ادا کریں تو انہیں بھی اپنے قریب لاکر بیٹھائیں،جب سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں نماز کا حکم دیں حدیث نبوی ﷺ ہے:
مروا اولادكم بالصلاة وهم ابناء سبع سنين،واضربوهم وهم ابناء عشر سنين،وفرقوابينهم فى المضاجع (سنن ابى داؤد:495)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہارے بچے سات سال کے ہوجائیں تو انہیں نماز کا حکم دو، اور جب دس سال کے ہوجائیں تو نماز میں کوتاہی کرنے پر ان کو سزا دو، اور ان کے بستر الگ الگ کردو۔
حدیث شریف میں سب سے پہلے سب سے مہتم بالشان عبادت نماز کی پابندی کرانے کا حکم ہے، حالانکہ اس عمر میں ان پر نماز فرض نہیں ہے لیکن شوق و رغبت دلانے کے لئے دس سال کی عمر میں تادیب کے طور پر ہلکی پٹائی کی بھی اجازت ہے تاکہ رفتہ رفتہ ان کی نماز کی عادت ہوجائے اور پھر عادت عبادت بن جائے، اس عمر میں نماز کا حکم سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ انہیں تمام دیگر نیکیوں کے کام میں لگانا چاہیے۔
اسی طرح اس عمر کی بچیوں کو عموماًلباس وپوشاک میں کوئی خاص خیال نہیں کیا جاتا ہے، بلکہ اس عمر میں بچیوں کالباس خود والدین شوق سے الگ الگ ڈیزائن کے لاتے اور پہناتے ہیں، اس پر بچیوں کو داد و تحسین سے بھی نوازتے ہیں، ہمارے معاشرہ میں اکثر و بیشتر آٹھ ،دس سال تک کی بچیوں کو جنس و ٹی شرٹس، اور لیگی پہنایا جا رہا ہے، بعض ایسے ملبوسات ہوتے ہیں جس میں آدھے پیر کہنیاں عریاں ہوتی ہیں، بعض اتنا باریک و تنگ ہوتے ہیں کہ جس کی وجہ سے جسم کی بناوٹ نمایاں ہوتی ہیں،ایسے ہی ملبوسات کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ونساء كاسيات عاريات(صحيح مسلم:2128) اور عورتیں جو کپڑے پہننے کے باوجود ننگی ہیں۔
بعض والدین سے جب کہا جاتا ہے کہ ایسے کپڑے نہ پہنائیں تو خود والدین کہتے ہیں کہ ابھی تو یہ بچیاں ہیں،جب بڑی ہوں گی تو نہیں پہنیں گی، جب کہ ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے، معلوم ہونا چاہیے کہ ہر لباس اپنا اثر رکھتا ہے:حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں لباس کا معاملہ اتنا سادہ اور اتنا آسان نہیں ہے کہ آدمی جو چاہے لباس پہنتا رہے اس لباس کی وجہ سے اس کے دین پر اس کے اخلاق پر اس کی زندگی پر اس کے طرز عمل پر کوئی اثر واقع نہ ہو۔
یہ ایک مسلم حقیقت ہے اس کو شریعت نے تو ہمیشہ بیان فرمایا، اور اب نفسیات اور سائنس کے ماہرین بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ انسان کے لباس کا اس کی زندگی پر اس کے اخلاق پر اس کے کردار پر بڑا اثر واقع ہوتا ہے، لباس محض ایک کپڑا نہیں ہے جو انسان نے اٹھا کر پہن لیا بلکہ یہ لباس انسان کے طرز فکر پر اس کی سوچ پر اس کی ذہنیت پر اثر انداز ہوتا ہے۔(لباس کے شرعی اصول:4)
اس لئے چھوٹی چھوٹی بچیوں کو بھی ایسے ہی کپڑے پہنائیں جو شرعی لباس ہوں، تاکہ آگے چل کر ان کو ذہن و دماغ میں شرعی لباسوں کی اہمیت اور اس کی قدروقیمت باقی رہے، پھر انہی کی گود میں اہل اللہ اور بڑے بڑے اسلام کے جیالے تیار ہوں گے۔