Home خواتین واطفال اسلام کے عروج میں عورتوں کا حصہ

اسلام کے عروج میں عورتوں کا حصہ

by قندیل

انصاری طوبیٰ ارم،مالیگاؤں
اگر ہم اسلام کے عروج کی تاریخ دیکھیں،تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ عورتوں کے عروج کی بھی تاریخ ہے۔ عورت نے جہاں سلام سے جلا حاصل کی ہے، وہیں شمع اسلام کو تابناک بنانے میں بھی انگنت عورتوں کا ہاتھ ہے۔اسلام کی تاریخ کبھی بھی انہیں فراموش نہیں کر سکے گی۔ ہم تاریخ اسلام پر اگر سرسری نظر بھی دوڑائیں،تو ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک اور آج کے اس نئے دور تک ان ادوار میں ہزاروں عورتوں کی ناقابل فراموش داستانیں ملتی ہیں،جنہوں نے اسلام کو ایک اعلی اور بہترین مذہب بن جانے میں مدد کی۔ یہی عورتیں کہیں حضرت سارہ رضی اللہ تعالی عنہاکے روپ میں تو کبھی حضرت آسیہ رضی اللہ تعالی عنہا کے روپ میں تو کبھی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کے روپ میں، کبھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے روپ میں اورکبھی ام عمارہ رضی اللہ تعالی عنہا جیسی دلیر عورت کے روپ میں قصر اسلام کو اپنے نازک ہاتھوں سے فلک بوس بنانے میں مشغو ل رہیں۔
ہم اپنے خیالات کو ان وادیوں میں لے جائیں،جہاں تحریک اسلامی کے اصول و نظریات ہی نہیں ان کے ساتھ شرعی قوانین بھی مکمل ہو رہے تھے،یعنی اللہ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت جیسے عہدہ پر فائز کرتا ہے، تو حضرت خدیجہ جیسی بااثر دانشور ایثار و قربانی کرنے والی بیوی عنایت ہوتی ہے۔ پھر جب محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا سے واپس گھر تشریف لاتے ہیں،تو فرماتے ہیں چادر اڑھا دو! بیوی حال پوچھتی ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اب تک جو شوہر تھے،وہ نبی جیسے جلیل القدر عہدہ سے سرفراز ہوئے ہیں۔اسوقت اس بیباک خاتون نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ بے شک آپ کے اندر یہ ساری خوبیاں ہیں،آپ بے شک نبی ہیں۔ اس وقت آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دے کر آپ کی ہمنوا بن کر تحریک اسلامی کوپھلنے پھولنے کا جوموقع دیا ہے،اسکی وجہ سے تاریخ اسلام آپ پر ناز کرتی ہے۔اگر یہی خاتون آپ کے ستائے جانے پر آپ کے دل پر اپنی حمایت یافتہ گفتگو سے مرہم نہ رکھتی،تو تحریک اسلامی کی ابتدائی تاریخ کا یہ باب اتنا درخشاں نہ ہوتا۔اس کا ثبوت حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیاری پیاری باتیں ہیں، جو اکثر حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے”خدا نے مجھے حضرت خدیجہ جیسی اعلی مرتبت بیوی عطا فرمائی“۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جو اسلامی خدمات انجام دیں، ان سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو جس طر ح آگے بڑھایا، قرآن کی بہت ساری آیتیں اس کی گواہ ہیں۔ علم و حکمت اور قوانین شرع سے بھرپور سورتیں جیسے سورہ نور، سورہ مریم وغیرہ۔عورتوں کے متعلق قرآنی احکام، عورتوں کے متعلق کھلے اورچھپے بھیدوں پر شریعت کی حدود اور مسائل اس فصاحت کے ساتھ امت کو ہرگز نہ مل سکتے،جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی ذہانت کی بدولت بیان ہوئے۔ اپنی سوکنوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کیاجائے، سوتیلی اولاد سے کس طرح پیش آیاجائے، شوہر کی فرمانبرداری کس حد تک کی جائے، پھرجب عورت بیوہ ہوجائے،تو دو روٹیوں کے لئے فکر کرے یا شوہر کے مشن کو ترقی دینے میں لگ جائے؟ ان سارے سوالوں کے جوابات ہمیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اور دوسری صحابیات کے ذریعے ملتے ہیں۔
ان باتوں سے ہٹ کر میدان جنگ کی طرف بھی اگرہم دیکھیں،تو وہاں بھی انگنت ایسی بہادر عورتیں ہمیں نظر آئیں گی، جو بہت ساری جنگوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ کر خونخوار سورماؤں سے نبردآزما ہوئیں۔ جن ہاتھوں کو آج کمزور چوڑیوں کاقیدی سمجھ لیا گیا ہے،کل جب ان ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں اور وہ ہاتھ حرکت میں آئے تو آہنی اور فولاد میں ڈوبے ہوئے لشکر اور تلوار و ڈھال بھی انکا مقابلہ نہ کرسکی۔کیا زمانہ ام عمارہ رضی اللہ عنہا کو بھلا سکے گا، جنھوں نے احد کے میدان میں اپنے شوہر اور اپنے لخت جگر کو بھی راہِ خدا میں قربان کر دیا اور جن کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہے بنا نہ رہ سکے کہ ”اے ام عمارہ! آج جو طاقت تمہارے اندر ہے، وہ کسی دوسرے میں کہاں،آج ہر بہادر نے شجاعت کے جوہر دکھائے، مگر ام عمارہ کا کارنامہ تو سب پر بھاری پڑ گیا“۔
اگرچہ عورت کمزور ہے اور کمزور سمجھی جاتی ہے، مگر اس عورت نے اپنی تربیت سے ایسیمایہ ناز ہستیوں کو سنوارا ہے، جن کے دم سے آج اسلام ہمارے سامنے صحیح روپ میں جلوہ گر ہے۔

You may also like

Leave a Comment