مصنف : پروفیسر عبدالرحیم قدوائی
مرتب : رفیق احمد رئیس سلفی
صفحات : ٢٩٤
قیمت : ۵۰۰؍روپے
ناشر : ادارۂ تحقیق و تصنیفِ اسلامی، علی گڑھ
ملنے کا پتہ : مکتبۂ تحقیق، ادارۂ تحقیق و تصنیفِ اسلامی، علی گڑھ
استشراق ہمارے علمی حلقوں میں معروف اصطلاح ہے، اس کی تاریخ پرانی ہے، گو کہ اس کی جڑیں گہری ہیں،لیکن ہم اس کو صلیبی جنگوں کے امتداد کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ استشراق کی تحریک عہدِ جدید میں ایک مہم بن گئی، میدانِ کارزار میں شکست کے بعد مغرب نے یہ طے کیا کہ وہ مشرق کے دین و عقائد اور تہذیب و ثقافت کا مطالعہ کرے گا اور اس راہ سے وہ مشرق پر غلبہ حاصل کرے گا۔ اسے بد قسمتی کہیے کہ مغرب کا معلمِ اول اور فاتح غفلت کا شکار ہو گیا، بجائے اس کے کہ میدان میں فتح کے بعد وہ ’’استغراب‘‘ کی مہم چھیڑتا اور مغرب کی تاریخ، خونیں داستانیں، بد تہذیبی اور دوہرے معیار کی تصویر واضح کرتا وہ استشراق کی فکری یلغاروں کے نشانے پر آ گیا، اس فکری یلغار نے مشرق کو فکری، تہذیبی، ثقافتی اور تمدنی سطح پر شکست دی، جو مغرب کی سیاسی اور عسکری بالا دستی کا مقدمہ ثابت ہوئی، خود مشرق میں اس کے علمبردار اس کی حمایت میں سر اٹھانے لگے، ان لوگوں نے مشرک کو کھوکھلا کرنےاور مغرب کو مسلط کرنے میں بڑا کردار ادا کیا، یہ فکری یلغار مغرب کے عسکری حملوں اور مغربی استعمار کے مختلف خطرناک چہروں سے کچھ کم خطرناک نہ تھی، اس کے حملوں سے متاثر ہوئے بغیر کوئی ملک بچا نہ طبقہ نہ ادارہ، اس نے مشرق کو احساسِ شکست میں مبتلا کر دیا، وہاں تشکیک کی مہم چلانے والے ہرکارے پیدا کر دیے، مشرق کو ترقی کے منصوبے بنانے کے بجائے مدافعت پر مجبور کر دیا۔
مستشرقین ہمہ وقت علمی رویّہ اور تاریخی تسلسل کی دہائی دیتے ہیں، بے بنیاد ہفوات و خرافات اور بے سر پیر کے اعتراضات کو علمی رنگ میں پیش کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں ان کی تحقیقات سے بہت سے اہل علم متاثر ہو جاتے ہیں، حالانکہ سچائی یہ ہے کہ ان کی بیشتر علمی تحقیقات کی بنیاد عداوت و عناد پر ہوتی ہے، وہ اختلاف طرق، اختلاف روایات، اختلاف معانی، اختلاف زمانی و مکانی پر اپنی تحقیقی و تشکیکی عمارت کھڑی کرتے ہیں، شبہات پیدا کرتے ہیں، ظاہری معنیٰ و مفہوم اور مقصود اصلی کے خلاف معنیٰ نکالتے ہیں اور اس طرح اسلامی شخصیات و مصادر کو مشکوک و داغ دار کرنے کی کوشش کرتے ہیں، نامعقول اور خلاف اصل بات کو اگر علمی رنگ میں پیش کر دیا جائے تو بھی وہ نا معقول اور خلافِ اصل ہی رہے گی، جو اس بات کو سمجھتا ہے وہ کبھی بھی مستشرقین کی تحقیقات پر سر نہیں دھنتا اور جو اس حقیقت کو مستحضر نہیں رکھتا وہ ان کی زرق برق تحقیقات پر اوندھے منہ گر پڑتا ہے، استشراق کے علمی رویّہ کے کھوکھلے پن اور دوہرے معیار کو اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی اسلام کی کوئی خوبی دیکھتے ہیں تو اسے روم و یونان کا چربہ بتا دیتے ہیں، یہودیت و نصرانیت سے مستفاد کہہ دیتے ہیں، یہیں سے یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ استشراق کی بنیاد علم و تحقیق پر نہیں عناد و تشکیک پر ہے، مجھے ان لوگوں پر سخت حیرت ہوتی ہے جو استشراق کے علمی رویّہ کے سامنے مبہوت نظر آتے ہیں اور اگر کوئی نقد و استدراک کرتے ہوئے، اپنی غیرت کا ثبوت دیتے ہیں تو اس پر جملے کستے ہیں کہ علمی رویّہ کے جواب میں علمی رنگ ہی ہونا چاہیے! افسوس اس پر ہوتا ہے کہ انھیں مستشرقین کی علمی بد دیانتی، معاندت اور یہودیت و نصرانیت کی بالا دستی کی دانستہ کوششیں استشراق کا مطالعہ کرتے وقت کبھی نظر نہیں آتیں، وہ مستشرقین کےبالمقابل مسلمانوں کی تحقیقات اور علمی فتوحات پر فخر نہیں کرتے، اسلام کی بالا دستی پر گفتگو کرتے ہوئے شرماتے ہیں، مستشرقین کی حقائق مسخ کرنے کی عادت کو علمی اپروچ (Scientific Approach)کہتے ہیں۔ایسے وقت میں قرآن مجید کے جوابات و تبصروں اور اسلوب پر ضرور نظر ڈالنا چاہیے، قرآن و رسالت کے سلسلے میں مستشرقین کے اعتراضات وہی ہیں جو قدیم زمانے سے معاندینِ اسلام کرتے آئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہےکہ قرآن کس اعتراض کا جواب دیتا ہے، کس کو نظر انداز کر دیتا ہے، کس پر تبصرہ کر کے چھوڑ دیتا ہے، زمانہ بدلا ہے، لوگ بدلے ہیں، طور و طرز بدلا ہے، لیکن بنیادیں وہی ہیں، اعتراضات وہی ہیں، ہمیں ان کی علمی اپروچ سے کیا سروکار ہو سکتا ہے، وہ قرآن پر گفتگو کے لیے تاریخی تسلسل اور تاریخی شواہد کو بنیاد بنائیں گے، ہم وحی کی حقیقت کو موضوع بنا کر گفتگو کریں گے اور وہ وحی کو تسلیم نہیں کریں گے۔ وہ موسیٰؑ و عیسیٰؑ کو نبی مانیں گے لیکن محمد علیہ الصلاۃ و السلام کی رسالت کو تسلیم نہیں کریں گے، اب ایسی صورت میں ہمارا رویّہ کیا ہونا چاہیے؟ یہ سوال اہم ہے، ظاہر ہے کہ ہم علمی رنگ میں پیش کی گئی جہالت کے دفاع میں اپنی توانائی نہیں خرچ کر سکتے، و اعرض عن الجاھلین [الاعراف: ۱۹۹] ہاں ہمیں اقدام کرنا چاہیے، اقدامی پوزیشن اپنانا چاہیے، اقدام کے ذریعہ ہی ہم اس فتنۂ استشراق کا مقابلہ کر سکتے ہیں، جن اہلِ قلم نے یہ نکتہ سمجھ لیا اور اس فکری کشمکش کی تہہ تک پہنچ گئے، انھوں نے اسلام کے محاسن، تاریخ اسلامی کے تمدنی جلوؤں، مسلم عہد کی ترقیات و تحقیقات اور قرآن و پیغمبر اسلام کے اعجاز کو موضوع بنایا، یہی درست اپروچ تھی۔
جس طرح مغربی تہذیب پُر فریب نعروں کے ذریعہ انسانی معاشرے میں جگہ بناتی ہے، لیکن پسِ پردہ مذہبی جنگ، نظریاتی بالا دستی، استعمار و نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کا یہ ہدف رکھتی ہے، اسی طرح بلکہ بس یہی حال استشراق کا ہے کہ وہ علم و تحقیق کو عنوان بناتا ہے، لیکن اس کا بنیادی ہدف یہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید کو مشکوک قرار دے، احادیث سے اعتماد اٹھا دے، پیغمبر اسلام اور تاریخ اسلام کی قابلِ تقلید شخصیات کو داغ دار کرے اور اسلام کی صورت کو مسخ کرے، مسلمانوں کے درمیان شکوک و شبہات پیدا کرے اور غیروں کو اسلام کی وحشت ناک تصویر دکھا کر اس سے متنفر کر دے، استشراق کی کل کائنات یہی ہے، سوائے اس کے کہ بعض مستشرقین نے محض اپنے علمی جذبہ اور علمی پیاس کو بجھانے کے لیے ہماری میراث کو زندہ کرنے اور محفوظ کرنے کے لیے کچھ مفید کام کیے، بہت سی قدیم کتب ایڈٹ کر کے شائع کی گئیں، ادب و لغت اور فہارس و معاجم جیسے گراں قدر کام سامنے آئے، لیکن مستشرقین کا یہ المیہ رہا کہ انھوں نے اسلامی عقیدہ و تہذیب پر جب بھی قلم اٹھایا تو ٹھوکریں کھائیں یا تیشہ زنی کی۔
علامہ شبلیؒ نے مستشرقین کو تین کیٹگری میں تقسیم کیا ہے:
’’(۱) جو عربی زبان اور اصل ماخذوں سے واقف نہیں، ان لوگوں کا سرمایۂ معلومات اوروں کی تصانیف اور تراجم ہیں، ان کا کام صرف یہ ہے کہ مشتبہ اور نا مکمل مواد کو قیاس اور میلانِ طبع کے قالب میں ڈھال کر دکھائیں۔
(۲) بعض مستشرقین عربی زبان، علم و ادب، تاریخ اور فلسفۂ اسلام کے بہت بڑے ماہر ہیں، لیکن مذہبی لٹریچر اور سیرت کے فن سے نا آشنا ہیں، وہ سیرت یا مذہب اسلام پر کوئی مستقل کتاب نہیں لکھتے، لیکن ضمنی طور پر عربی دانی کے زعم میں اسلام یا شارع اسلام ﷺ کے متعلق نہایت دلیری سے جو کچھ چاہتے ہیں، لکھ جاتے ہیں۔ مثلاً: جرمنی کے مشہور فاضل ساخو نے طبقات ابن سعد شائع کی تو اس کی وسعت معلومات اور عربی دانی سے کون انکار کر سکتا ہے، لیکن جب وہ اسلامی امور کے متعلق باتیں لکھتا ہے تو پڑھ کر بھول جانا پڑتا ہے کہ یہ وہی محترم شخص ہے یا کوئی اور۔ نولدیکی نے قرآن مجید کا خاص مطالعہ کیا، لیکن انسائیکلوپیڈیا میں قرآن پر جو اس کا آرٹیکل ہے، جا بہ جا نہ صرف اس کے تعصب، بلکہ اس کی جہالت کے راز پنہاں کی بھی پردہ دری کرتا ہے۔
(۳) وہ مستشرقین جنھوں نے خاص اسلامی اور مذہبی لٹریچر کا کافی مطالعہ کیا ہے، مثلاً پامریا مارگولیتھ سے ہم کچھ امید کر سکتے تھے، لیکن باوجود عربی دانی، کثرت مطالعہ اور تفحص کتب کے ان کا یہ حال ہے کہ : دیکھتا سب کچھ ہوں، لیکن سوجھتا کچھ بھی نہیں۔‘‘ (اسلام اور مستشرقین،ج:۱،ص :۱۲)
ہم اس سے آگے بڑھ کر یہ کہتے ہیں کہ ہمارے درمیان استشراق سے فائدہ اٹھانے والوں کی بھی تین کیٹگری ہیں، ایک وہ لوگ ہیں جو استشراق سے متاثر ہوتے ہیں، مرعوبیت کے ساتھ اس کا ذکر کرتے ہیں، بسا اوقات وہ مستشرقین کے زاویہ نگاہ سے ہی دیکھتے ہیں، ان میں دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں، وہ بھی جن کی علمی گرفت بہت مضبوط ہوتی ہے، زبان و ادب اور علومِ شریعت پر جن کو مکمل دسترس ہوتی ہے اور وہ بھی جن کا علم بھی سطحی ہوتا ہے اور زبان پر بھی گرفت مضبوط نہیں ہوتی، دینی حمیت و غیرت اور فکر اسلامی سے دونوں کو تقریباً واسطہ نہیں ہوتا، اول الذکر اپنے تاثر کا اظہار ذرا سلیقے اور علمی انداز میں کرتے ہیں،لیکن ثانی الذکر تو مستشرقین کی دو چار کتابیں پڑھ کر ان کی تحقیقات کو اپنی تازہ علمی فتوحات کے رنگ میں پیش کرتے ہیں اور پھر خام فکر کے لوگ پہلی دفعہ جاہلانہ اعتراضات فلسفیانہ روپ میں دیکھ کر جھوم اٹھتے ہیں اور استشراق سے تیار کیے ہوئے اس ملغوبہ پر دادِ تحقیق دیتے ہیں۔ دوسرا طبقہ استشراق سے فائدہ اٹھانے والوں کا ہوتا ہے، جو فائدہ بھی اٹھاتا ہے اور ضرورتاً مثبت انداز میں نقد و استدراک بھی کرتا ہے، لیکن اس کا انحصار زیادہ تر تراجم پر ہوتا ہے، براہِ راست ان کی کتب کا کم ہی مطالعہ ہوتا ہے۔ پہلے طبقہ کو مرعوبین اور دوسرے کو معترفین کا نام دیا جا سکتا ہے۔تیسرا طبقہ وہ ہے جو مستشرقین سے لوہا لیتا ہے، براہِ راست ان کی تصانیف کو پڑھتا ہے، استدراک کرتا ہے اور انھیں ان ہی کی زبان میں جواب دیتا ہے، ان کی علمی فتوحات و تحقیقات سے ذرہ برابر مرعوبیت کے بغیر بین السطور پڑھ کر ان کے ناپاک عزائم کا پردہ چاک کرتا ہے، ان کی علمی خیانت اور بد نیتی کو واضح کرتا ہے، گرامی قدر پروفیسر عبد الرحیم قدوائی اسی تیسرے طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں، انگریزی زبان و ادب جن کا میدان اختصاص ہے۔ قرآنیات و اقبالیات سے جنھیں شغف ہے اور یہی شغف علمی دنیا میں ان کی شہرت کا سبب ہے، نقد استشراق میں ان کے لوحِ قلب پر ’’تفسیرِ ماجدی‘‘ کے انگریزی ایڈیشن کا نقشِ اول ہے، ان کی اس زیرِ نظر کتاب کے تعارف میں اقبال کا یہ شعر پیش کر دینا کافی ہوگا :
خیرہ نہ کر سکا مجھے دانشِ جلوۂ فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
ہمارے اس دعوے کی دلیل اس کتاب کا سرنامہ ہے، جو نہ صرف کتاب کا رخ متعین کرتا ہے، بلکہ مصنف کی پختہ فکر اور سلامت روی کو صاد کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ۔ [البقرۃ: ۱۱۸]
(اسی طرح ایسی ہی بات ان کے اگلوں نے بھی کہی تھی اور ان کے دل یکساں ہو گئے۔ ہم نے تو یقین والوں کے لیے نشانیاں کھول کھول کر بیان کر دی ہیں۔)
اسلام، قرآن مجید اور سیرتِ طیبہ پر ہر دور کے مغربی مصنفین کے اعتراضات کم و بیش وہی ہیں جو نزولِ قرآن مجید کے دوران جاہلیت میں گرفتار کفار مکہ اور بغض و عناد کے زیرِ اثر اس دور کے یہودیوں اور عیسائیوں نے عائد کیے تھے۔ دونوں کے ہاں قدر مشترک قرآن مجید کے بے مثل اعجاز، سیرتِ طیبہ کی صداقت اور اسلام کی حقانیت کا انکار ہے۔ یہ تصنیف مذکورہ بالا قرآنی قول کی تشریح اور توضیح ہے کہ منکرین حق کا رویّہ ہر دور میں یکساں رہا ہے۔ بظاہر علم و تحقیق میں ترقی کے با وصف مغربی فضلاء کا ذہنی سانچہ بعینہٖ ایسا ہی ہے جیسا ساتویں صدی کے منکرینِ اسلام کا تھا۔‘‘ (ص ٤)
یہ کتاب بیک وقت مغرب اور استشراق کے متعدد منصوبوں اور فتنوں سے واقف کراتی ہے، پیغمبر اسلام، قرآن اور اسلامی تاریخ کے متعلق مستشرقین کی ’’گل افشانیوں‘‘ سے متعارف کراتی ہے، ان کے بے تکے سوالات و اعتراضات کا جواب دیتی ہے، اردو لکھنے پڑھنے والے علماء کو مغرب کے عزائم اور اس کی فکری یلغار اور اس کے حملے کی مختلف صورتوں اور نوعیتوں سے واقف کراتی ہے، اسلامی عقائد، قرآن مجید، سیرت نبویﷺ اور اسلامی طرزِ معاشرت پر مستشرقین کی ہرزہ سرائیوں اور ان کی تصویر مسخ کرنے کی کوششوں سے پردہ اٹھاتی ہے، اس کتاب میں یہ سب کچھ ہے، لیکن علمی منہج، قوتِ استدلال اور معروضیت سے کہیں پر بھی مصالحت نہیں کی گئی ہے، مصنف نے اس بحر کی غواصی میں شہرت حاصل کی ہے، انگریزی تراجم قرآن پر ان کے سوسے زائد تجزیاتی و تحقیقی مقالات مختلف عالمی مجلات و جرائد میں چھپ چکے ہیں، اس کے باوجود وہ انصاف و معروضیت کا دامن نہیں چھوڑتے، اگر انھوں نے نقد و استدراک اور انکشاف و تردید کا حق ادا کیا ہے تو ساتھ ہی ان مستشرقین کا بھی ذکر کیا ہے، جنھوں نے اپنے ہی لوگوں کی بد نیتی کو واضح کیا ہے اور بد دیانتی کی پُر زور تردید کی ہے۔
مصنف محترم نے اپنے پیشِ لفظ کے آخر میں لکھا ہے:
’’دیگر مذاہب کے پیروؤں کا ہمارے بارے میں کیا تاثر ہے، ان کی اسلام فہمی کی سطح کیا ہے، ان کے اہداف کیا ہیں، ان کے مطالبات کے اغراض و مقاصد اور اثرات کیا ہیں، یہ خود احتسابی کے لیے ایک آئینہ ہے۔ نوجوان مسلم طلباء اور محققین کو اس ضمن میں ریاضت کی ضرورت ہے اور ایسے علمی منصوبوں میں شرکت لازم ہے، جو بین المذہبی اور بین الثقافتی افہام اور تفہیم میں ممد ہوں اور جو بنی نوعِ انسانی میں باہمی یگانگت اور احترام کو فروغ دیں، اس طرح ایک پُر مسرت دنیا میں امن و آشتی کے ساتھ ہم سب زندگی بسر کریں گے۔ قرآن مجید مذہبی رواداری اور دیگر مذاہب کے اکرام کو تسلیم کرتا ہے، اس کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے تعصبات، مزعومات اور تحفظات کو ترک کریں اور ایک بہتر دنیا کی تعمیر میں مشغول ہوں‘‘۔ (ص: ۱۰- ۱۱)
ہمیں مصنف کی ان باتوں سے اتفاق ہے، لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ یہ ’’باہمی یگانگت اور احترام‘‘ مغلوب قوم کے پیدا کرنے سے ہوگا یا غالب قوم کے؟ غالب قوم تو پوری ڈھٹائی اور بے حیائی کے ساتھ ہمیں باہمی احترام کا درس دیتی ہے اور خود یکے بعد دیگرے ہمارے ملکوں کے ملک تاراج کرتی ہے؟ استشراق کی اس فکری یلغار، گھٹیا قسم کی بد دیانتی؟ مصنوعی الزامات اور مزعومہ اعتراضات کی مہم جوئی کے بعد ’’پُر مسرت دنیا‘‘ کیسے وجود میں آ سکتی ہے؟ قرآن مجید مذہبی رواداری اور دیگر مذاہب کے اکرام کی تعلیم دیتا ہے، مگر کس حد تک؟ قرآنی بنیادوں پر نقد و استدراک بھی ہوگا اور دعوت و تبلیغ بھی، کمزور مذہبی مزعومات پر تبصرہ بھی ہوگا اور کفر و شرک کی دیومالائی روایات پر تنقید بھی اور یہ سب کچھ نزولِ قرآن کے مقاصد کے پیشِ نظر ہوگا، براہیمی براءت قرآنی تلقین ہے، اسے تعصبات و مزعومات کے زمرے میں نہیں لایا جا سکتا، اس میں کوئی شک نہیں کہ جو مزعومات و تعصبات ہیں، ان سے ہمارا قطعاً کوئی رشتہ نہیں، لیکن جو قرآنی تعلیمات و حقائق ہیں انھیں تو ببانگِ دہل پیش کیا جائے گا۔ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ مغرب رواداری کے نعرے لگاتا ہے، لیکن خود تعصب کی حدیں پار کر جاتا ہے، باہمی احترام کی مالا جپتا ہے، لیکن کبھی دوسروں کا احترام نہیں کرتا، نسل پرستانہ سوچ مغربی تعصبات کی اہم بنیاد ہے، اس لیے ان تراکیب کو اگر اسلامی نقطۂ نظر سے استعمال کیا جائے تو فبھا،لیکن اگر اس کی مراد وہ ہے جو مغرب لیتا ہے تو پھر ہمیں ان سے اختلاف ہوگا، کسی قاری کو مغالطہ نہ ہو، اس لیے ہم نے یہ وضاحت ضروری سمجھی، ورنہ مصنفِ گرامی کو مغرب کے اس طرزِ فکر کا بھرپور ادراک ہے، وہ اسی کتاب کے ایک مضمون میں اپنی تمام تر معروضیت کے باوجود غیرتِ قلم کی داد دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’شومئ قسمت سے ابتدا ہی سے اہلِ مغرب نے اسلام، قرآن مجید اور سیرتِ طیبہ کے خلاف بغض اور عناد سے مملو جو رویّہ اختیار کیا، اس میں اصلاح آج تک نہیں ہوئی۔ عقلیت پرستی، معروضیت اور باہمی احترام اور رواداری کے بلند و بانگ دعوؤں اور نعروں کے با وصف اسلام پر ایمان لانے کی توقع کسی غیر مسلم سے ایک فعلِ عبث ہے، البتہ کلیسا کے بظاہر متدین اور متقی اربابِ حل و عقد اور جامعات کے علماء اور فضلاء سے یہ توقع ضرور ہوتی ہے کہ اختلاف کا اظہار اصولی بنیادوں پر ہو، اعتراضات دلائل پر منحصر ہوں اور حقائق کی تردید منطقی اور معقول ہو۔ سیرتِ طیبہ کے مطالعے میں مغربی اہلِ قلم اکثر ان بنیادی اور بدیہی شرائط تک کو پورا نہیں کرتے۔ مخالفت کے بجائے دشمنی، دلیل کی جگہ سوقیانہ حملے اور تردید کے نام پر کرادر کشی اور بہتان طرازی:
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے‘‘۔ (ص: ۱۷۸)
اس حقیقت سے انھوں نے جا بجا پردہ اٹھایا اور استشراق کے اسلام سے بغض و عناد کو واضح کیا ہے، ایک مضمون میں لکھتے ہیں:
’’اسلام/مسلم دشمنی سے داغ دار مغربی تصانیف بے شمار ہیں۔ آٹھویں صدی سے آج اکیسویں صدی تک محیط استشراق(Orientalism) کی تاریخ اسلام/مسلمانوں کے خلاف تعصبات، بغض و عناد، بے بنیاد الزامات اور دیدہ اور دانستہ غلط بیانی، حقائق کو مسخ کرنے اور قارئین کو اسلام، قرآن مجید، سیرتِ طیبہ، احادیث، شریعت، فقہ، مسلمانوں کے افعال، اقوال اور کردار سے منغض کرنے کی ایک منظم جارحانہ مہم کا سا منظر پیش کرتی ہے۔ مغربی تصانیف کے اس کلیے سے مستثنیٰ صرف چند ہی تصانیف ہیں۔ بحیثیت مجموعی اسلام کے بارے میں کلمۂ خیر رقم کرنے کی سعادت خال خال مغربی اہلِ قلم کو حاصل رہی ہے‘‘۔ (ص: ۱۸۷)
زیرِ تبصرہ کتاب بنیادی طور پر تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ *’’قرآن مجید پر مغربی فضلاء کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ‘‘* ہے۔ دوسرا حصہ *’’سیرتِ طیبہ پر مغربی فضلاء کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ‘‘* ہے۔ تیسرے حصے میں *’’انگریزی ادب پر مغربی فضلاء کی تصانیف کا تنقیدی جائزہ‘‘* ہے۔ پہلے حصے میں ۱۱؍مقالات شامل ہیں، ظاہر ہے کہ یہاں ہر مقالے پر تبصرہ ممکن ہے نہ مطلوب، اس حصے میں قرآنیات سے متعلق مستشرقین کی کوششوں، تصانیف اور ان کی علمی محاذ آرائی کا محاکمہ کیا گیا ہے، معروضی انداز میں علمی تعاقب کیا گیا ہے، ان کے مواقف و تراجم اور تفسیری رجحانات کی گمراہیوں کو پختہ دلائل سے واضح کیا گیا ہے، ان کے منصوبوں، حالیہ فتوحات اور آئندہ کے عزائم سے پردہ اٹھایا گیا ہے، ’’کورپس قرآنیکیم‘‘ جیسے خطرناک منصوبہ سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور اس کے مطبوعہ نتائج پر زبردست استدراک کیا گیا ہے۔ دو مقالات میں مستشرقین کی تین مثبت کوششوں سے متعارف کرایا گیا ہے اور ایک مختصر مضمون میں جنوبی افریقہ کے جج جان مرفی کے قبولِ اسلام کے واقعہ کو اعجازِ قرآن کے پسِ منظر میں پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے حصے میں پانچ مقالات شامل ہیں، اس میں بھی سیرتِ طیبہ سے متعلق مستشرقین کی چیرہ دستیوں کو دکھانے کے ساتھ ساتھ ان کی خوش گوار و خوش آئند کوششوں کو سراہا گیا ہے۔ تیسرا حصہ بھی پانچ مقالات پر مشتمل ہے۔ یہ مقالات پروفیسر قدوائی کی انگریزی تصنیف کی تلخیص ہیں۔ یہ تلخٰص نہایت عمدہ طریقے سے زریاب فلاحی صاحب نے تیار کی ہے، اس حصے کے تین مضامین ’’انگریزی ادب میں رسول اللہ کی تصویر کشی‘‘، ’’قوموں کا عروج و زوال: چند مغربی مفکرین کی آراء‘‘ اور ’’استعماری فکر کی روایت انگریزی ادب کے تناظر میں‘‘ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔
کسی بھی مصنف یا کتاب سے مکمل اتفاق ہو، یا اختلاف ہی نہ ہو، یہ مطلوب ہے نہ درست علمی رویّہ ، چنانچہ اس کتاب کے بھی بعض مندرجات سے، بعض الفاظ کے ترجمے سے، یا بعض تعبیرات سے قاری کو اختلاف کا حق ہے، لیکن پوری کتاب میں جو روح کارفرما ہے اور یہ کتاب جس فکر کا نتیجہ ہے، وہ بہر حال لائقِ تحسین اور قابلِ تقلید ہے۔ یقین جانیے قاری کتاب پڑھتا جائے گا اور مصنف سے ھل من مزید کا مطالبہ کرتا جائے گا اور اس مطالبہ کی تکمیل کے لیے مصنف کے حق میں درازیٔ عمر اور صحت و عافیت کی دعا کرتا جائے گا۔
بنیادی طور پر یہ کتاب قرآن و سنت اور سیرت سے متعلق مغربی فضلاء کے افکار و آراء سے بحث کرتی ہے، نصف سے زائد کتاب قرآنی مباحث پر مشتمل ہے، اس کتاب میں قاری کو فکری صلابت، سلامت روی، وسعت مطالعہ، مغربی لٹریچر پر مصنف کی گہری نظر اور علومِ قرآن کا وسیع مطالعہ بیک وقت نظر آئے گا۔ معروضیت کے ساتھ ساتھ غیرت و حمیت کا سبق بھی ملے گا۔ پوری کتاب میں کہیں بھی مرعوبیت نہیں نظر آئے گی، اسلام اور اس کے محاسن و تعلیمات پر مکمل اعتماد نظر آئے گا، مغرب کے طرزِ فکر، بے بنیاد علمی منہج کے کھوکھلے نعرے، دلیل کے نام پر الزام تراشی اور استشراق کے مقاصد و اہداف سے جس طرح مصنف گرامی نے پردہ اٹھایا ہے وہ ان ہی کا حق ہے۔ ہماری جامعات میں عام طور پر علومِ شرقیہ کے شعبوں یا انگریزی کے شعبہ میں موجود مسلمانوں میں استشراق سے مرعوبیت کوئی نئی روایت نہیں، بالخصوص جو لوگ نئے نئے انگریزی سیکھتے ہیں اور براہِ راست مستشرقین کی دو چار کتابیں پڑھتے ہیں، ان کی مرعوبیت دیدنی ہوتی ہے۔ پروفیسر قدوائی نے ایسے تمام لوگوں کے لیے ایک معیار اور ایک نمونہ پیش کر دیا ہے، بلکہ یوں کہیے کہ ایک آئینہ سامنے رکھ دیا ہے، وہ بحرِ استشراق کے غواص و شناور ہیں، وہ انگریزی زبان و ادب کے رمز شناس ہیں، انھوں نے علی گڑھ کے بعد لیسٹر سے بھی پی ایچ ڈی کی ہے، وہ علی گڑھ کے مستقل استاد اور لیسٹر کے استاد زائر ہیں، ان کی علمی فتوحات کا زمانہ قائل ہے، لیکن ان کی شخصیت اس شعر کا مصداق ہے :
سبھی اندازِ حسن پیارے ہیں
ہم مگر سادگی کے مارے ہیں
عام طور پر شکوہ کیا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں مغربی فضلاء کی تحقیقات سے غفلت برتی جاتی ہے، انھوں نے جو مہم چھیڑ رکھی ہے، اس سے لوگ واقف ہی نہیں ہیں، لوگوں کو انگریزی نہیں آتی، سیکھنے کی بھی کوشش نہیں کرتے، بات صحیح ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ انگریزی سیکھنے والے کیا کرتے ہیں؟ جو سیکھ کر بر سرِ روزگار ہو جاتے ہیں ان میں کتنے پروفیسر قدوائی جیسے بنتے ہیں یا ان کی جیسی راہ اپناتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں کام نہ کرنے اور تن آسانی کے ساتھ زندگی گزارنے کا مزاج عام ہے، عربوں نے اگر استشراق کا سلبی اثر قبول کیا تو دوسری طرف ان میں وہ لوگ بھی سامنے آئے جنھوں نے استشراق کے ایک ایک اعتراض کے جواب میں اعلیٰ معیار کی تحقیقات کے دفتر تیار کر دیے، مگر ہمارے یہاں عربی جاننے والوں کو کہاں اس کی فرصت کہ وہ یہ علمی خدمت انجام دیں، صرف اگر عربی میں موجود استشراق کے نقد و استدراک پر مشتمل کتب کو اردو میں منتقل کر دیا جائے تو اردو خواں طبقے کو پڑھنے سے فرصت نہ ملے۔ ازہر سے ایک سلسلہ شائع ہوا۔ قطر کے ادارہ شؤونِ اسلامیہ نے ایک سلسلہ شائع کیا، اس کا ایک حصہ تھا ’’شبھات المستشرقین حول الصحابۃ من خلال دائرۃ المعارف الاسلامیۃ‘‘ کئی سال قبل ہم نے اس کا ترجمہ شروع کیا تھا۔ تقریباً ۷۵؍صفحات ہو گئے تھے، کچھ ایسا ہوا کہ ابتدائی ۶۰؍صفحات ضائع ہو گئے، پھر وہ سلسلہ رک گیا۔ دوسرے بہت سے کاموں کی توفیق ملتی رہی، لیکن وہ کام نا مکمل ہی رہ گیا۔
پروفیسر قدوائی کی یہ کتاب اردو ادبیات میں واقعی گراں قدر اضافہ ہے، اس میں مستشرقین کے جدید ترین اعتراضات و رجحانات اور معلومات کا خزانہ ہے، مستشرقین کی حالیہ علمی پیش رفت سے متعلق بیش قیمتی معلومات ہیں۔ ایک عرصہ بعد اردو میں اس موضوع پر ایسی گراں قدر، معروضی اور جذبۂ اسلامی کی عکاس تحقیقی کتاب منظر عام پر آئی ہے، جو نقد استشراق کی مہم کو پھر سے زندہ کرنے کا نقطۂ آغاز بن سکتی ہے، اس کتاب کو مرتب کرنے کی سعادت مولانا رفیق احمد رئیس سلفی کے حصہ میں آئی، انھوں نے اپنے ’’عرضِ مرتب‘‘ میں بالکل درست لکھا ہے:
’’مصنف عالی وقار پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کا ملتِ اسلامیہ پر یہ عظیم احسان ہے کہ انھوں نے وقت کے فتنوں سے آگاہ کرنے کا عزم مصمم کر رکھا ہے اور گذشتہ کئی دہائیوں سے وہ انگریزی اور اردو میں مغربی فضلاء کی علمی خیانتوں اور بد نیتی کو آشکارا کر رہے ہیں۔ قرآن مجید، سیرت طیبہ اور اسلامی شعائر سے محبت انھیں ورثے میں ملی ہے کہ وہ مولانا عبدا لماجد دریابادیؒ کے نواسے ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم سے وہ انگریزی ادبیات میں دو جامعات سے دکتوریت کی اعلیٰ ترین سند رکھتے ہیں۔ قرآن مجید کا انگریزی زبان میں ترجمہ کر چکے ہیں اور تقریباً ایک سو انگریزی تراجمِ قرآن کا مطالعہ کر کے ان کا محاکمہ بھی۔ اپنے تعلیمی پسِ منظر اور ذوقِ خاص کی وجہ سے وہ دانشورانِ فرنگ کی نفسیات سے بہ خوبی واقف ہیں‘‘۔ (ص:۸)