کیا عشرت جہاں انکاؤنٹر کتاب پر بھی بی بی سی ڈاکومینٹری کی طرح پابندی لگے گی؟ – شکیل رشید

ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز
عشرت جہاں کون تھی ؟ اس سوال کا جواب مجھے ۱۸ ، جون ۲۰۰۴ ء کو ہی مل گیا تھا ۔ اس روز ممبرا کے قبرستان میں عشرت جہاں کی تدفین میں مَیں بھی شریک تھا ۔ وہ منظر شاید میں کبھی نہ بھول سکوں گا ! ایک ہجوم تھا جو مٹّی دینے کے لیے امڈا چلا ا ٓرہا تھا ۔ عشرت جہاں کی تدفین میں جتنے لوگ شریک تھے ، شاید اتنے لوگ ، بعد میں کسی تدفین میں ممبرا کے اس قبرستان میں نہ آئےہوں گے ۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا ہجوم منجانب اللہ ، عشرت جہاں کی بے بےگناہی کا اشارہ تھا ۔ بعد میں عشرت جہاں کی بےگناہی پر مجسٹریٹ ، ایس آئی ٹی اور سی بی آئی نے بھی مہر لگائی ، لیکن اس ملک کا دستور نرالا ہے کہ یہاں جو بےقصور ہوتے ہیں اکثروہی مجرم بنا دیے جاتے ہیں ۔ عشرت جہاں کو آج بھی ، ’ دہشت گرد ‘ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتاہے ، اور پوری کوشش کی جاتی بلکہ کی جا رہی ہے کہ عشرت جہاں پر لگے داغ دھبوں کو دھونے کی ہر کوشش کو روکا جائے ۔ اس کی مثال منگل ۲۴، جنوری ۲۰۲۳ء کے روز ، پونے کی پولیس کے ذریعے ’ عشرت جہاں انکاؤنٹر ‘ نام کی کتاب کے اجراء کی تقریب کو روکنا ہے ۔ تقریب ، جس میں ممبئی ہائی کورٹ کے سابق جج بی جی کولسے پاٹل ، سابق آئی جی ، مہاراشٹر ایس ایم مشرف ، سابق آئی جی ، سی آئی ڈی ، مہاراشٹر سریش کھوپڑے اور کئی بڑے ایڈوکیٹ شریک ہونے والے تھے ، کیوں اور کس لیےروکی گئی ؟ اس سوال کا کوئی جواب پولیس نے دینے کی ضرورت نہیں محسوس کی ! ممبرا کی طالبہ عشرت جہاں کو تین دیگر افراد کے ساتھ ، گجرات کے شہر احمدآباد میں ، ۱۵ ، جون ۲۰۰۴ء کو شب میں چار ساڑھے چار بجے کے درمیان ، ایک ’ انکاؤنٹر ‘ میں ، جسے ’ فرضی ‘ مانا جا رہا ہے ، ہلاک کر دیا گیا تھا ۔ انکاؤنٹر کو ’ فرضی ‘ کیوں سمجھا گیا ، کیوں اب تک عشرت جہاں کو انصاف نہیں مل سکا اور کیوں وہ پولیس والے جو عشرت جہاں کے انکاؤنٹر میں ملوث تھے محفوظ رہے ؟ یہ اہم سوال ہیں ، اور کتاب ’ عشرت جہاں انکاؤنٹر ‘ میں ان سوالوں کے جواب ، پوری ایمانداری سے دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ کتاب کے مصنف عبدالواحد شیخ ہیں ، وہی عبدالواحد شیخ جو ۱۱، جولائی ۲۰۰۶ء کے ٹرین بم بلاسٹ معاملہ میں ، دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں سلاخوں کے پیچھے کر دیے گیے تھے ۔ انہوں نے جیل میں اپنی ، اور اپنے ساتھی قیدیوں کی داستانِ الم ’ بے گناہ قیدی ‘ کے نام سے تحریر کی ہے ، جس کے انگریزی ، ہندی ترجمے بھی منظرعام پر آ چکے ہیں ۔ ان دنوں عبدالواحد شیخ ایک اسکول میں پڑھانے کے ساتھ ’ انوسینٹ نیٹ ورک ، انڈیا ‘ نامی ایک این جی او سے وابستہ ہیں ، اور چونکہ جیل کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے وکالت کی ڈگری بھی حاصل کر لی تھی ، اس لیے قانونی مسائل پر ’ اکوئٹ انڈر ٹرائل ‘ کے نام سے ایک یوٹیوب چینل چلاتے ہیں ۔ ان کی زندگی پر ’ ہیمولف ‘ کے نام سے ایک فلم بھی بن چکی ہے ۔
کیوں لکھی گئی ہے یہ کتاب ؟ اس سوال کا جواب عبدالواحد شیخ کتاب کے ’ حرفِ آغاز ‘ میں یوں دیتے ہیں ، ’’ اس کتاب کے لکھنے کے دو سبب ہیں ۔ پہلا سبب جو اوپر ہم نے بیان کیا ہے کہ ۱۱/۷بم بلاسٹ کیس میں جھوٹا انکاؤنٹر کر کے مجھے اور میرے ساتھیوں کو پھنسایا گیا ، اور دوسرا سبب عشرت جہاں انکاؤنٹر کیس میں فرضی ثابت ہونے کے باوجود یکے بعد دیگرے پولیس افسران کو ضمانت دی گئی اور پھر کیس سے بری کرکے گلوخلاصی کی گئی ۔ ایسے وقت میں ضرورت تھی کہ عشرت جہاں کیس میں ان سارے پہلوؤں کو ایک جگہ جمع کر کے اس کو ایک دستاویز کی شکل دی جائے اور اس کیس میں پیش آنے والی کامیابیوں اور ناکامیوں کو بیان کیا جائے ، اس کیس کو اجاگر کیا جائے اور ایک بار پھر یہ مطالبہ کیا جائے کہ عشرت جہاں انکاؤنٹر میں ملوث ہر اس فرد کو جو خاکی وردی میں ہے ، جو کھادی میں ہے اور جو غیر کھادی میں ہے ، جو آئی بی میں ہے یا کسی اور تحقیقاتی ایجنسی میں ، جو اعلیٰ سطح پر ہے یا ادنیٰ سطح پر ، جو براہِ راست یا بالواسطہ ، جو دانستہ یا نادانستہ ، جو محسوس یا غیر محسوس انداز میں اس سازش میں کسی طرح بھی شامل رہا ہے ، ان سب کو نہ صرف گرفتار کیا جائے ، ان کی ضمانتیں رد کی جائیں ، ان کی برأت کو کالعدم قرار دیا جائے بلکہ ٹرائل چلا کر ان سب کو سخت سے سخت سزائیں ، پھانسی یا عمر قید دی جائے ۔ یہی انصاف کا تقاضا ہے ، نیز یہی عشرت کے فرضی انکاؤنٹر کا منطقی انجام اور اس کتاب کے ذریعے سے مطالبہ ہے ۔‘‘
کتاب کو سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ، اور ہر باب میں ، متن کو الگ الگ ضمنی عنوانات کے ساتھ تقسیم کر کے ، عشرت جہاں انکاؤنٹر کے حقائق سامنے لائے گیے ہیں ۔ پہلا باب ’ عشرت جہاں کی پیدائش اور خاندان ‘ کے عنوان سے ہے ، اس باب میں ۲۲ ضمنی عنوانات ہیں ، جن میں عشرت جہاں اور اس کے گھر والوں کے شب و روز ، انکاؤنٹر ، جنازے کا منظر ، پولیس کی کہانی ، حلف نامے ، مجسٹریٹ تمنگ کی چشم کشا رپورٹ ، ایس آئی ٹی رپورٹ ، سی بی آئی رپورٹ اور گواہوں کے بیانات پیش کیے گیے ہیں ۔ اس باب کا خلاصہ ہے : عشرت جہاں کا خاندان کوئی پچیس سال قبل ، بہار کی راجدھانی پٹنہ سےممبئی آکر ممبرا میں آباد ہوگیا تھا ۔ عشرت جہاں کی پیدائش پٹنہ کی ہی تھی ، وہیں اس نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی ۔ والدمحمد شمیم رضا ایک چھوٹے موٹے بلڈر تھے لیکن اس دھندے میں انہیں زبردست نقصان ہوا اور وہ ۲۰۰۲ء میں برین ٹیومر کے سبب انتقال کر گیے ۔ یہ سمجھ لیں کہ کاروبار میں نقصان نے اس خاندان کی خوشیا ں چھین لیں ، بچی کھچی خوشیاں والد کے انتقال نے چھین لیں ۔ شدید غربت کی وجہ سے عشرت جہاں کو ، جو پڑھنے میں تیز تھی ، گھر والوں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا ، اور اسی سبب اس کی ملاقات جاوید شیخ عرف پرنیش کمار پلیٔ ولد گوپی ناتھ پلیٔ سے ہوئی ،جو مرحوم محمد شمیم رضا کا واقف کار تھا ۔ عشرت جہاں کی جاوید شیخ سے ملاقات ۲۰، اپریل کو ہوئی تھی ، وہ اس کی سکریٹری اور اکاؤنٹنٹ کے طور پر ماہانہ تین ہزار روپیے پر ملازمت کرتی تھی ، اور ملازمت ہی کے سلسلے میں اسے جاوید کے ساتھ بیرون ممبئی بھی جانا پڑتا تھا ۔ ملاقات کے کوئی ۵۵ دن بعد ۱۵ ، جون ۲۰۰۴ ء کو دونوں – عشرت جہاں اور جاوید شیخ – اور ان کے ساتھ مزید دو نوجوان ذیشان جوہر اور امجد علی اکبر علی رانا بھی مارے گیے ، پولیس نے اِن دونوں کو پاکستانی قرار دیا اور عشرت جہاں اور جاوید شیخ کو ’ لشکرِ طیبہ ‘ کے کارکن ۔ ان چاروں کے احمدآباد آنے کا مقصد ، اُس وقت کے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو ، جو آج وزیراعظم ہیں ، قتل کرنا بتایا ۔ ابتدا ہی سے عشرت جہاں کی والدہ ، اس کے اہلِ خانہ اور عشرت جہاں کو جاننے والے ممبرا اور ممبئی کے لوگ ، اس انکاؤنٹر کو ’ فرضی ‘ اور عشرت جہاں پر لگے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے رہے ۔ کتاب میں اس تعلق سے لوگوں کے ، جن میں اعلیٰ پولیس افسران جیسے کہ آر بی سری کمار شامل ہیں ، بیانات دیے گئے ہیں ۔ پولیس کی پوری کہانی دی گئی ہے اور اس پر اٹھنے والے سوالات سامنے لائے گیے ہیں ، جیسے کہ جاوید خون میں لت پت تھا مگر اس کے بازو میں بیٹھی عشرت نہیں تھی ، یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کا مطلب یہ کہ عشرت کو کار میں نہیں مارا گیا ، کہیں اور مارا گیا اور لاش لا کر کار میں ڈال دی گئی ۔ سوال یہ بھی اٹھا ہے کہ جنہیں دہشت گرد بتایا گیا ہے ، ان کے پاس سے جو ہتھیار ملے ، بندوق ، پستول اور اے کے- 56 وغیرہ اس کی گولیاں کہاں چلی گئیں ؟ کرمنل کیس چلانے کے لیےاس معاملے کی مجسٹریٹ ایس پی تمنگ نے جانچ کی ، اور اپنی رپورٹ ۷، ستمبر ۲۰۰۹ ء کو پیش کردی ۔ یہ رپورٹ ہنگامہ خیز تھی ، مجسٹریٹ نے پولیس کے سارے کیس کو جھوٹ کا پلندہ ثابت کردیا اور عشرت جہاں انکاؤنٹر کو ’ فرضی ‘ قرار دیا ۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں صاف صاف لکھا کہ ، ’’ پولیس نے بڑی سفاکی ، بے رحمی اور بے دردی سے عشرت کا قتل کیا ۔ اور اس کی موت کا سبب گولی لگنے کے زخم کی تاب نہ لانا تھا ۔ اپنی انکوائری میں مَیں نے پایا چاروں کی موت کا سبب اسی طرح سے پولیس نے کیا ، اور میں اپنی یہ رپورٹ پیش کرتا ہوں ۔‘‘ پہلے باب میں ایس آئی ٹی اور سی بی آئی کی رپورٹ بھی پیش کی گئی ہے ، یہ دونوں رپورٹیں بھی عشرت جہاں انکاؤنٹر کو ’ فرضی ‘ بتاتی ہیں ۔ ان پولیس والوں کے ، جو اس انکاونٹر میں شامل تھے ، دوسرے ’ مشتبہ ‘ انکاؤنٹروں کی تفصیل بھی دی گئی ہے ۔ یہ پولیس افسران ہیں ڈی جی ونجارا ، ترون باروٹ ، جی ایل سنگھل ، پی پی پانڈے ، جے جی پرمار ، این کے امین اور دیگر ۔ اس میں آئی بی کے افسران کا بھی نام شامل ہے ،جیسے کہ راجندر کمار اور راجیو وانکھیڑے ۔ اور مرکزی حکومت کی طرف سے دیے جانے والے دو حلف ناموں کی تفصیل بھی ہے ، جن میں سے پہلے حلف نامہ میں پوری کوشش عشرت جہاں کو لشکر طیبہ کا دہشت گرد ثابت کرنے کی کی گئی ہے ۔ اور مجسٹریٹ تمنگ کی رپورٹ کے بعد دوسرے حلف نامہ میں پہلے حلف نامے کی غلطی کو سدھارنے کی ناکام کوشش کی گئی ہے ۔ اس وقت کانگریس کی حکومت تھی ، لیکن اس نے اُن آئی بی افسران پر ، جن کا ذکر سی بی آئی کی رپورٹ میں ہے ، نہ گرفتار کرنے کی اجازت دی نہ مقدمہ چلانے کی ، اور جب مودی مرکز میں آئے تو گرفتاری کا خطرہ رہا ہی نہیں ۔
کتاب کا دوسرا باب ’ سفید داڑھی ، کالی داڑھی ‘ ہے ، اور جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے یہ مودی اور ان کے دست راست امیت شاہ کی طرف اشارہ ہے ۔ جو بیانات سامنے آئے ہیں ان میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس انکاؤنٹر کا مقصد مودی کو ’ سیاسی گرداب ‘ سے نکال کر ’ ہندو ہردیہ سمراٹ ‘ کے منصب پر بٹھانا تھا ۔ یہ بھی دعویٰ ہے کہ دونوں کو پتہ تھا کہ یہ انکاؤنٹر ہونے والا ہے ۔ سنگھل کا بیان ہے کہ ونجارا نے عشرت کے انکاؤنٹر کے لیے باقاعدہ ’ سفید داڑھی ، کالی داڑھی ‘ سے اجازت لی تھی ۔ کتاب کے آگے کے ابواب میں عشرت جہاں انکاؤنٹر میں آئی بی کے رول ، سی بی آئی کے دوہرے رویے ، ہیڈلی معاملہ اور لشکر طیبہ کے ترجمان ’ غزوہ ‘ کے حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے ، اُن ٹیپ ریکارڈوں کا ذکر کیا گیا ہے جو تفتیشی افسروں کی سازش سامنے لاتے ہیں ۔ ایک باب ان پولیس افسروں کے بارے میں ہے جنہوں نے عشرت جہاں کیس کی تفتیش کرتے ہوئے اسے ’ فرضی ‘ انکاؤنٹر ثابت کیا تھا ، اور اُن پولیس والوں کا ، جو اس ’ فرضی ‘ انکاؤنٹر میں شامل تھے ’ گناہ ‘ اجاگر کیا تھا ۔ ستیش ورما ، سندیپ تمگڈے ، رجنیش رائے وہ تفتیشی افسران ہیں جو آج تک ستائے جا رہے ہیں ، جبکہ وہ پولیس والے جنہیں ’ فرضی ‘ انکاؤنٹر کے قصور میں سلاخوں کے پیچھے ہونا تھا ، ترقی پا گیے ہیں ، انہیں ضمانت ملی ، ملازمت میں وہ بحال ہوئے ، ترقی دی گئی اور پھر جنہیں ریٹائر ہونا تھا ، وہ ’ باعزت ‘ ریٹائر ہوئے ۔ کتاب کے ساتویں باب میں عشرت جہاں کے نام پر شروع کی گئی ’ ایمبولنس سروس ‘ کے بند کرائے جانے کا ذکر ہے ، مہاراشٹر کے سابق وزیراعلیٰ اور آج کے نائب وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس نے یہ بیان دیا تھا کہ ،’’ عشرت جہاں لشکر طیبہ کی کارکن تھی اس کے نام پر ایمبولنس چلانا ایک نامناسب اقدام ہے ۔‘‘ حالانکہ سچ یہ ہے کہ فڈنویس کا یہ بیان نامناسب ہے کیونکہ کسی کورٹ نے عشرت جہاں کو دہشت گرد قرار نہیں دیا ہے ۔ اس باب میں عشرت جہاں کے خاندان کو ہراساں کرنے ، دھمکانے اور پریشان کرنے کی تفصیل بھی دی گئی ہے ۔ عبدالواحد شیخ نے کتاب کے آخر میں ’ آخری بات ‘ کے عنوان سے ہم سے ، آپ سے اور قوم و قوم کے لیڈروں سے کئی چبھتے ہوئے سوال کیے اور خاموشی اور بےحسی پر انگلی اٹھائی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ، ’’ آج عشرت جہاں کی ماں اپنی مقتول بیٹی کا کیس چھوڑ چکی ہیں ۔ ہم انھیں باور نہیں کراسکے کہ لڑتے رہیے شاید کسی دن کچھ انصاف مل جائے یا لڑتے رہیے آخری وقت تک ۔ ہم عشرت کو انصاف دلانے میں ناکام ہو گیے ۔‘‘ لیکن ’ عشرت جہاں کی روح ‘ جس کے نام اس کتاب کا انتساب ہے ، وہ قصورواروں کو چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی ہے ، اسی لیے کتاب ’ عشرت جہاں انکاؤنٹر ‘ پر غیرسرکاری طور پر سہی ، مگر ’ پابندی ‘ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہے تو بتایا جائے کہ کیوں اس کتاب کے اجرا کی تقریب روکی گئی ؟ سچ یہ ہے کہ عشرت جہاں کے ’مجرم ‘ نہیں چاہتے کہ ’ سچ ‘ سامنے آئے ، اسی لیے وہ جس طرح بی بی سی کی ڈاکومینٹری ’ دی مودی کوئشچن ‘ روکی گئی ، یہ کتاب بھی سامنے آنے سے روکنا چاہتے ہیں ۔ یہ ’ بے گناہ قیدی ‘ عبدالواحد شیخ کے قلم سے ’ عشرت جہاں انکاؤنٹر ‘ کا وہ سچ ہے ، جس پر پردہ ڈالنے کی پوری کوشش ہے ،لیکن سچ کہاں چھپ سکتا ہے ! عبدالواحد شیخ مبارکد باد کے مستحق ہیں ، ان کے ساتھ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے ادارے ’ فاروس میڈیا‘ (www.pharosmedia.com) سے یہ کتاب بغیر کسی ڈر اورخوف کے شائع کی ۔کتاب 320 صفحات پر مشتمل ہے ،اور قیمت 375 روپیہ ہے ۔