کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ باتیں آپ کسی سے براہ راست صاف صاف کہنا مناسب نہیں سمجھتے ایسے میں بہتر یہ ہوتا ہے کہ کسی الگ انداز میں اپنی بات اُس تک پہنچا دی جائے ـ مثلا آپ کےپاس ایک شخص آتا ہے اور آپ قرائن سے اندازہ لگالیتے ہیں کہ یہ شخص آپ سے قرض مانگنے آیا ہے، آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ شخص نادہند ہے،اس نے کبھی قرض واپس نہیں کیا، ایسے میں ایک شکل تو یہ ہے کہ اُس سے صاف صاف یہ کہہ کر انکار کردیا جائے کہ تم نادہند ہو ہم تم کو کچھ نہیں دیں گے ـ دوسری شکل یہ ہے کہ اُس کے آتے ہی آپ اپنی مالی پریشانیاں اور ضرورتوں کا بیان کرنے لگیں یہاں تک کہ اُس کو یقین ہوجائے کہ آپ اس وقت قرض دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ،ایسے میں وہ شخص بغیر قرض مانگے ہوئے بس آپ کی خیریت معلوم کرکے واپس چلاجائے گا ـ اس طرح آپ صاف انکار سے بچ جائیں گے اور اُس آدمی کو برا بھی نہیں لگے گا ـ
اب اسی پس منظر میں ہم رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر عبدالکریم العیسیٰ کے حالیہ ہندوستانی دورے کو دیکھتے ہیں ـ ویسے شیخ عیسی اپنے بعض افکاروخیالات کی وجہ سے عالم اسلام میں متنازعہ شخصیت سمجھے جاتے ہیں، ہندوستانی میڈیا کے مطابق حکومت ہند اُن کو یونیفارم سول کوڈ کی تائید کرانے اور حجاب وغیرہ کی مخالفت کے لئے ہندوستان بلوا رہی ہے ـ
اب ایک طریقہ تو یہ تھا کہ ڈاکٹر العیسیٰ سے صاف صاف یہ کہہ دیا جاتا کہ کہ آپ یونیفارم سول کوڈ کی حمایت بالکل نہ کیجئے گا، حکومت آپ کا استعمال ہندوستانی مسلمانوں کو اُن کے جمہوری ودستوری حق سے محروم کرنےکے لئے کرنا چاہتی ہے ـ ایک دوسرا طریقہ جس کا استعمال مولانا ارشد مدنی صاحب اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے کیا کہ اُنھوں نے اخبار میں اشتہار دے کر پہلے تو مہمان کا استقبال کیا اور پھر میڈیا کے اس تاثر کا ذکر کیا کہ ڈاکٹر عیسیٰ کو یونیفارم سول کوڈ کی حمایت کے لئے بلوایا گیا ہے، اس کے بعد اسی اشتہار میں یہ صراحت کردی گئی کہ شریعت کی بنیاد قران وحدیث پر ہے، اوقاف کا معاملہ ہویا حجاب اور یونیفارم سول کوڈ کا،کوئی بھی شریعت کا جانکار قران وحدیث سے ہٹ کر اپنی رائے نہیں دے سکتا، ڈاکٹر عبدالکریم عیسیٰ بھی عالم آدمی ہیں اُن سے بھی یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ان معاملات میں شریعت سے ہٹ کر کوئی بات کہیں گے ـ
الحمدللہ اس اشتہار کا اثر نظر آیا، ڈاکٹر عیسیٰ تک یہ اشتہار ضرور پہنچا ہوگا، ملت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے انڈیا اسلامک سنٹر دہلی میں سیکورٹی ایڈوائزر مسٹر اجیت ڈوبھال کے سامنے جو تقریر کی اُس میں ایک بار بھی یونیفارم سول کوڈ کا ذکر نہیں کیا بلکہ انھوں نے بار بار ہندوستان کی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے یہاں اختلاف رائے کے احترام، مذہب رنگ ونسل کے اختلاف کے باوجود آپسی بھائی چارہ کا ذکر کیا اور اس کو قائم رکھنے کی امید جتائی ـ
اس دوران ہمارے کئی تجزیہ نگار حضرات نے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور مولانا ارشد مدنی کے اشتہار پر تنقید کرتے ہوئے بعض نامناسب باتیں بھی لکھیں ـ یہ ناچیز ہمیشہ صحت مند تنقید کا حامی اور شخصیت پرستی کا مخالف رہا ہے تاہم تنقید میں اتنی عجلت یہ اشارہ کرتی ہے کہ نقاد کے مزاج میں حدت ہے جس کی وجہ سے اس کی فہم وفراست متاثر ہوگئی ہے ـ
ویسے بالفرض ڈاکٹر عبدالکریم عیسیٰ یونیفارم سول کوڈ کی حمایت کر بھی دیتے ہیں تو کیا فرق پڑے گا؟ ہندوستانی مسلمان ایسی ہر بات کو محض بکواس سمجھیں گے ـ
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)