تعارف و تبصرہ : شکیل رشید
مزاحمت کا کیا مطلب ہوتا ہے ؟ اقتدار پر متمکن شاہوں کی طرف سے کسی طرح کی ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانے ، جِسے ناانصافی سمجھا جا رہا ہے ، اُس پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے ، سیاسی تصور اور حکومت وقت سے متصادم اقدامات کرنے ، اور اس سلسلے میں تحریر و تقریر کا سہارا لینے وغیرہ کو مزاحمت کہا جا سکتا ہے ؛ لیکن یہ مزاحمت کا ایک محدود تصور ہے ۔ مزاحمت کے وسیع تصور میں اقتدار یعنی حکومت کی ناانصافیوں کے خلاف اقدامات تو شامل ہیں ہی ، لیکن اشعر نجمی ، مدیر ’ اثبات ‘ کے لفظوں میں : ’’ غلط فہمی عام ہے کہ مزاحمت صرف اقتدار کے خلاف ہی ہوتی ہے ، یہ تصور بھی بالکل غلط ہے …. میں مزاحمت کے باب میں اس لفظ ’ اقتدار ‘ کو وسیع معنوں میں دیکھتا ہوں ۔ میں اس سے صرف برسرِ اقتدار حکومت مراد نہیں لیتا بلکہ ہر وہ معاشرتی نظریہ ، رجحان ، بیانیہ وغیرہ سبھی کو اس لفظ ’ اقتدار ‘ میں شامل سمجھتا ہوں جو لوگوں پر تھوپی جائے ، پھر چاہے وہ حجاب ہو یا لو جہاد ، وہ برسر اقتدار حکومت ہو یا کھاپ پنچایت ، مختصر یہ کہ ہر بالا دست ادارہ ، طبقہ ، گروہ ، نظریہ ، رجحان سب کے خلاف مزاحمت کی جا سکتی ہے اور ہوتی بھی رہی ہے ۔‘‘
مذکورہ سطریں ’ اثبات ‘ کے خاص شمارے ’ مزاحمت کا نیا پیش لفظ ‘ کے اداریے ’ سب ٹھیک ٹھاک ہے !‘ کی ہیں ۔ دو جلدوں میں شائع ہونے والا یہ شمارہ ہے تو خاص لیکن اسے ’ ایک شمارہ سب کے لیے ‘ کا ٹیگ لائن دیا گیا ہے ، شاید اس لیے کہ مزاحمت پر کسی ایک مخصوص گروہ یا شخص یا اشخاص کا نہیں ، سب کا حق ہے ۔ یہ شمارہ مجھے حیران کر گیا ، کیونکہ یہ اعلان کے کوئی دو مہینے بعد منظر عام پر آ گیا تھا ! مجھے یہ تو پتا ہے کہ اشعر نجمی جو بھی کام کرتے ہیں جم کر کرتے ہیں ؛ دن رات ! لہذا شمارے کا اعلان کے مطابق وقت پر آجانا میرے لیے حیرت کا باعث نہیں تھا ، حیرت اس بات پر تھی کہ مزاحمت جیسے موضوع پر ، جس کی مختلف جہتیں اور الگ الگ پہلو ہیں ، ایک وقیع اور یادگار خاص شمارہ کیسے مختصر مدت میں ترتیب دیا جا سکتا ہے ! مجھے اس سوال کا جواب اداریہ میں ملا تو ہے ، لیکن میری حیرت برقرار ہے ۔ اس شمارے کی مجموعی ضخامت 888 ہے ( اشعر نجمی 786 سے آگے نکل گیے ہیں ) ظاہر ہے کہ اس قدر ضخیم شمارہ مکمل پڑھنے میں کئی مہینے لگیں گے ، لہذا اس تعارف ( یہ تبصرہ نہیں ہے ) میں تمام مشمولات پر گفتگو ممکن نہیں ہے ، بس مشمولات میں سے چند ایک کا ذکر ممکن ہے ۔ چلیں پہلے اداریہ پر بات کرلیں ۔
اداریے کی سُرخی ’ سب ٹھیک ٹھاک ہے ! ‘ ہم سب کے رویوں پر ، ہماری لاپروائی ، غفلت اور حالات سے آنکھیں موندنے کی عادت پر ایک طنز ہے ۔ اشعر نجمی مختصر سے عرصے میں ضخیم شمارے کو مرتب کرنے کا کریڈٹ لفظ ’ مزاحمت ‘ کو دیتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ میرے احباب اور اثبات کے قارئین میرے بارے میں خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ’ مزاحمت ‘ سے میرا رشتہ پرانا ہے ۔‘‘ وہ ’ جشنِ ریختہ ‘ ، ساہتیہ اکیڈمی ، چندر بھان خیال ، خلیل مامون اور عین تابش کے حوالے دے کر لکھتے ہیں : ’’ ادب پناہ گاہ نہیں ہے بلکہ رزم گاہ ہے جہاں گارسیا لورکا کے سینوں میں گولیاں اتار دی جاتی ہیں اور اس کی لاش غائب کر دی جاتی ہے ، تو دوسری طرف سارتر ہے جو نوبل انعام کو آلو کی بوری کہہ کر اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے ۔ ہمارے ہاں تو یہ حال ہے کہ ریاستی اکیڈمیوں اور معمولی سے معمولی ایوارڈ کو حاصل کرنے کے لیے اتنے جوڑ توڑ کیے جاتے ہیں ، کمر اتنے خم کیے جاتے ہیں اور عزتِ نفس کا اتنا خون بہایا جاتا ہے کہ آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ شاید یہ لوگ اسی لیے ادیب بنے ہیں کیوں کہ ان کے پاس سماج میں عزت کمانے یا اپنی شناخت قائم کرنے کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ۔‘‘ اداریے میں صرف اردو ادیبوں ہی کا نہیں معاشرے کے رویے کا بھی ذکر ہے : ’’ مزاحمت کا سہولتی رویہ ہمارے یہاں عام ہے ، پھر چاہے وہ مذہبی معاشرہ ہو ، ادبی یا فکری ۔‘‘ وہ لکھتے ہیں : ’’ اکثریت کو اقلیت کے خلاف اسی طرح مشتعل کیا جا رہا ہے جیسا کہ ماضی میں ہم کئی بار دیکھ چکے ہیں ۔ اس لیے اپنی تحفظ گاہ کے قبر بننے سے پہلے آپ کو ’ سب ٹھیک ٹھاک ہے ‘ کہنا چھوڑنا ہوگا اور حکمت عملی سے کام لینا ہوگا ۔ مزاحمت کرنا آپ کا حق ہے لیکن اس کے اصول و مبادیات کو بھی جاننا ضروری ہے ۔ اسے آپ اکیلے نہیں لڑ سکتے ، برادرانِ وطن کی ایک کثیر جماعت آپ کے ساتھ ہے ، لیکن کیا آپ مشترکہ مسائل میں ان کے ساتھ ہیں ؟ چونکہ صرف اپنی بقا اور شناخت کے لیے آپ کسی جمہوری معاشرے میں مزاحمت نہیں کر پائیں گے ، اس کے لیے آپ کو ایک ایسے نقطۂ اشتراک کی ضرورت ہے جس میں سب کے ساتھ آپ ہوں اور سب آپ کے ساتھ ۔ فاشزم اور تانا شاہی اسی اتحاد سے ڈرتی ہے اور اتحاد مشترکہ بنیادوں پر ہی قائم ہوتا ہے ۔‘‘ آخر میں وہ لکھتے ہیں : ’’ میں نے بطور ادیب ، شہری اور انسان فرض کفایہ ادا کر دیا ہے ، اب آپ کی باری ہے کہ اس کا کیا اثر قبول کرتے ہیں ، اسے پڑھتے بھی ہیں یا نہیں ، یا پھر حسبِ سابق یہ کہہ کر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں کہ ’ چلو یار ہمیں کیا ، میرے ساتھ سب ٹھیک ٹھاک ہے ۔‘‘ اداریہ کا پیغام بہت واضح ہے ؛ مزاحمت تنہا نہیں مل کر کریں ، ان کا ساتھ لیں جو آپ کا ساتھ دیتے رہے ہیں ، اور ان کی مزاحمت میں بھی شریک ہو جائیں ۔
یہ شمارہ دو جلدوں میں ہے ، پہلی جلد میں ’ ادبی مزاحمت ‘ اور ’ فکری مزاحمت ‘ پر مضامین ، نظمیں اور فکشن شامل ہیں ۔ ’ ادبی مزاحمت ‘ کا باب ’ شب خون کے نام ‘ ہے ، ’ کہ جس نے ادب میں مزاحمت کے تصور کی توسیع کی اور ایک مخصوص ادبی کینن کی آمریت کے خلاف مزاحمت کر کے پورے اردو ادب کی کایا پلٹ دی ۔‘ اس باب میں ’ مزاحمت کا نیا پیش لفظ ‘ کے عنوان سے ایک مذاکرہ شامل ہے ، جس کے شرکا اشعر نجمی ، خالد جاوید ، ادین واجپئی ، ناصر عباس نیّر ، پنکج سبیر ، محمد حمید شاہد اور رضوان الحق ہیں ۔ مضامین لکھنے والوں میں تقریباً سب بڑے ، یعنی اہم نام ہیں ۔ ادب ، مزاحمت ، پوسٹ کالونیل تناظر ، سیاست ، نو مزاحمتی رجحان ، آمریت اور نائن الیون یہ سب مضامین کا موضوع بنے ہیں ۔ نظموں کے حصہ میں کملا داس ( مترجم مدیر ) افضال احمد سیّد ، عذرا عباس ، نزار قبانی ( مترجم انور سن رائے ) ، جینت پرمار اور نرالا ( مترجم ارشد عبدالحمید ) اور فکشن کے حصے میں زکریا تامر ، صدیق عالم ، دیوی پرساد مشر ، امبر پانڈے ، خورشید اکرم اور عتیق اللہ ( ڈرامہ ) کی تخلیقات شامل ہیں ۔ ’ فکری مزاحمت ‘ کے باب میں فسطائیت ، ہجومی تشدد ، مطلق العنانیت ، پاپولزم ، بے حسی ، انارکی ، استحصالی نظام ، نیشنلزم ، فلاحی اور چھچھوری ریاست کے موضوعات پر مضامین شامل ہیں ، ان میں اروندھتی رائے کا ایک مضمون ’ دوسروں کے لیے بولنا اور بھی ضروری ہے ‘ بھی شامل ہے ۔ اس باب میں ’ فکری مزاحمت ‘ کے موضوع پر نظموں اور فکشن کا انتخاب کیا گیا ہے ۔
جلد دوم کو ’ ثقافتی مزاحمت ‘ ، ’ نسائی مزاحمت ‘ ، ’ صحافتی مزاحمت ‘ ، ’ ہل من مزید ‘ اور ’ سب یاد رکھا جائے گا ‘ کے عناوین سے تقسیم کیا گیا ہے ، اور اسی تقسیم کے لحاظ سے نظموں اور فکشن کا انتخاب ہے ۔ آخری باب ’ سب یاد رکھا جائے گا ‘ میں نیوز پورٹل ’ دی وائر اردو ‘ سے لی گئیں عمر خالد ، اپوروانند ، مارکنڈے کاٹجو ، جہانوی سین ، میناکشی تیواری اور سدھارتھ بھاٹیہ کی سات اہم تحریریں ہیں ، ایسی تحریریں جو اقتدار کے مکرہ چہرے کو مکمل طور پر عریاں کر دیتی ہیں ۔ مزید یہ کہ ہر حصہ کسی نہ کسی ایسی شخصیت کے نام معنون ہے جس کا مزاحمت سے کوئی تعلق رہا ہے ، اور ساتھ ہی مزاحمت پر ایسے کارٹون شامل ہیں جو چند لکیروں کے ذریعے وہ سب کہہ جاتے ہیں جنہیں کہنے کے لیے شاید ضخیم کتاب بھی ناکافی ہو ۔ سرورق لاجواب ہے ، اور اس پر دشینت کمار کا یہ شعر
کیسے آکاش میں سوراخ نہیں ہو سکتا
ایک پتھر تو طبیعت سے اچھالو یارو!
شمارے کے موضوع کو درشاتا ہے ۔ آخری صفحہ پر معروف فکشن نگار خالد جاوید کی نظم ڈراکیولا مزاحمت کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لاتی ہے ۔ بس ! یقین ہے کہ یہ تعارف لوگوں کو اثبات کا مزاحمت نمبر حاصل کرنے ، اور اس طرح مزاحمت میں خود کو شریک کرنے کی تحریک دے گا ۔ اشعر نجمی کا یہ ایک یادگار کام ہے ، انہیں بہت بہت مبارک ۔ مزاحمت نمبر حاصل کرنے کے لیے موبائل نمبر 9910482906 اور 9372247833 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔