Home نقدوتبصرہ عبدالرزاق گرناہ، میلان کنڈیرا ،کافکا اور اثبات-شکیل رشید

عبدالرزاق گرناہ، میلان کنڈیرا ،کافکا اور اثبات-شکیل رشید

by قندیل

ایک ایسے دور میں ، جب ادبی پرچوں کے خاص شمارے بھی ، عام شماروں ہی جیسے لگنے لگے ہیں ، چند پرچے ہیں جن کے عام شمارے بھی ، خاص شماروں جیسے ہوتے ہیں ، ان میں سے ایک پرچہ ممبئی سے اشعر نجمی کی ادارت میں شائع ہونے والا ’’ اثبات ‘‘ ہے ۔ ’’ اثبات ‘‘ کا شمارہ نمبر ۳۳ چونکہ نہ کسی ادبی شخصیت پر ہے ، نہ ہی کسی مخصوص ادبی موضوع یا کسی مخصوص ادبی صنف پر ، اس لیے اسے روایتی طور پر عام شمارہ ہی کہا جائے گا ۔ لیکن اس شمارےکی چند تحریریں ، اسے ایک عام شمارے سے اٹھا کر ، خاص شماروں کی صف میں لا کر کھڑا کر دیتی ہیں ۔ پہلی تحریر ادب کے نوبل انعام یافتہ ، تنزانیہ کے علاقے زنزی بار ( زنجبار ) کےادیب عبدالرزاق گرناہ کے ناول Memory of Departure کا اردو ترجمہ ’’ یادِ مفارقت ‘‘ ہے ۔ ترجمہ سعید نقوی نے کیا ہے ۔ واٹس ایپ پر ’’ اثبات ‘‘ کے اس شمارے کے آنے کی اطلاع دیتے ہوئے میں نے لکھا تھا ’’ عبدالزاق گرناہ کا ناول ایک آتش فشاں ہے ، ہوش و حواس اڑا دیتا ہے ۔‘‘ یہ مختصر سا ناول ہے ، بس ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل ، لیکن ان ڈیڑھ سو صفحات میں سارے افریقہ کی کہانی سما گئی ہے ۔ یہ صرف غربت ، کرپشن ، بے روزگاری ، غلامی سے آزادی تک کے سفر ، خوابوں کےٹوٹنے اور بکھرنے کےکرب ، حکمرانوں کی عیاری اور حالات کو بدلنے کے عزم کی ہی داستان نہیں ہے ، یہ ایک محبت کی بھی کہانی ہے ۔ اگر ہم یہ نہ جانتے کہ یہ ایک افریقی ناول نگار کا لکھا ہوا ناول ہے ، تو اسے برصغیر کے کسی ناول نگار کا لکھا ہوا ناول سمجھتے ۔ یہ اور بات ہے کہ برصغیر کے ناول نگار اگر یہ ناول لکھتے بھی تو عبدالرزاق گرناہ کی طرح نہیں لکھتے ۔ گرناہ کے اس ناول میں ، ہمارے ناول نگاروں کی طرح نہ جذبات کا ابال ہے ، نہ ہی لفاظی اورنہ ہی کہانی کو بلا وجہ کھینچنے کا عمل اور نہ ہی پند و نصائح کی قئے ۔ گرناہ سادگی کے ساتھ لکھتے چلے جاتے ہیں ، کسی جانبداری کے بغیر ، یوں جیسے وہ کرداروں اور واقعات کو کہیں باہر سے دیکھ اور بیان کر رہے ہوں ۔ ناول لکھنے کا یہ عمل بڑا مشکل ہے لیکن ہےبہت اثر انگیز ۔ برصغیر کا ذکر اس لیے نکل آیا کہ ناول کے کردار نہ ہماری دنیا سے الگ نظر آتے ہیں نہ ہی ہمارے سماج اور معاشرے سے ۔ یہ ناول ہمیں جس دنیا ، سماج اور معاشرےکی شکل دکھاتا ہے وہ اسی قدر بے رحم ہے جس قدر کہ یہ دنیا اور ہمارا یہ سماج اور یہ معاشرہ ۔ یہ ، شمالی افریقہ کے ساحلی علاقہ میں رہنے والےپندرہ برس کےحسن عمر اور اس کے خاندان کی کہانی ہے ۔ ناول کا تعارف مترجم سعید نقوی یوں کراتے ہیں ،’’ اس ( حسن عمر ) کے اطراف محض غربت ، مایوسی ، کرپشن اور ہر قسم کی بے راہ روی مروج ہے ۔ یہ ایسے گھرانے کی کہانی ہے جس کا ہر فرد اس ماحول کا شکار ہوا ہے لیکن ہر ایک اپنے انفرادی انداز میں اس کا اثر قبول کرتا ہے ؛ اس کا باپ اپنی ناکامیاں شراب میں ڈبو کر اور اپنی اولاد پر تشدد کرکے ۔ وہ اپنے گھرانے کا ایک جابر ، ناکام ، غصہ ور حکمراں نظر آتا ہے ۔ اس کی بہن غیر مردوں کی بانہوں میں فرار کی راہ تلاش کرتی ہے ۔ اس کی ماں ایک روایتی شکست خوردہ مظلوم عورت ، اپنے گھر کا بنیادی ڈھانچہ قائم رکھنے کی کوشش میں خاموشی سے سب سہے جا رہی ہے ۔ شوہر کے ہاتھوں جسمانی تشدد اور بے عزتی کے ساتھ وہ کیسے اپنی اولادوں کے سامنے اپنا وقار برقرار رکھنے کی کوشش میں ہراساں نظر آتی ہے ۔ اس خاندان کے تمام افراد ایک دوسرے سے شرمندہ ہیں لیکن کسی نہ کسی سطح پر ان کی امیدیں نوجوان حسن کی امنگوں سے وابستہ ہیں ۔ حسن کے خیالات بلند اور مقصد واضح ہیں لیکن وہ اکیلا اس منزل تک نہیں پہنچنا چاہتا بلکہ اپنے اطراف اور اپنے ماحول کو بھی مایوسی کی دلدل سے نکالنا چاہتا ہے ۔ یہ ماحول پوسٹ کالونیل معاشروں کا ’ نارمل ‘ ماحول ہے ، اتنا نارمل کہ ہمیں آئینے کا شبہ ہوتا ہے ۔ یہی آفاقیت ایک اچھے ناول نگار کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے ۔ ہر اہم ناول کی طرح یہ بھی ایک محبت کی داستان ہے ۔ مختصر سے ناول میں گرناہ نے امیدوں ، جذبوں اور نئی غیرآلودہ نسل کے دامن سے بہت سی امیدیں باندھ لی ہیں ۔ ‘‘ میرے خیال میں نئی نسل سے گرناہ کی امیدیں اور جذبے ، اس ناول کو ، برصغیر ہند و پاک کے اکثر ناولوں کے مقابلے ، ایک بڑا ناول بنا دیتے ہیں ۔
سعید نقوی کا ترجمہ خوبصورت ہے ۔ بلکہ بہت ہی خوبصورت ۔ جہاں عبارت گنجلک اور مبہم ہو سکتی تھی وہاں بھی انہوں نے روانی کو برقرار رکھا ہے ۔ ایک چھوٹا سا اقتباس ملاحظہ کریں ؛ ’’ اس مہینے ایک نیا قانون نافذ ہو گیا ۔ ایک جاری عمل کو یوں قانونی تحفظ حاصل ہو گیا ۔ آبادی کے نسلی تناسب کے اعتبار سے اسکولوں میں داخلوں اور نوکریوں کا کوٹہ مقرر ہو گیا ۔ اس کے نفاذ کے لیے عوام سے اپنی نسلی شناخت کی اندراج کی ہدایت کی گئی ۔ انہیں نئے شناختی کارڈ جاری کیے جائیں گے جن میں نام ، عمر ، پتہ اور نسل کا اندراج ہوگا ۔ طلب کیے جانے پر کارڈ کی غیر موجودگی فوری گرفتاری کا باعث ہوگی ۔ جن لوگوں کے لیے نسلی امتیاز کسی شناختی رنگ و روپ کے بجائے محض ایک فکری اساس تھی ، ان میں مایوسی پھیل گئی ۔ نسل کے بارے میں جواب دہی سے انکار برطانوی تسلط کے خلاف احتجاج کا ایک طریقہ تھا ، اتحاد اور قومی یکجہتی کی علامت ۔ اب اس سوال کا جواب نہ دینا جرم بن گیا تھا ۔‘‘ کیا مذکورہ اقتباس ہمیں آج کے ہندوستان کی تصویر نہیں دکھاتا !
اس شمارہ کی دوسری خاص بات چیک فکشن نگار میلان کنڈیرا کی سات کہانیوں کا ترجمہ ’’ مضحکہ خیز محبتیں ‘‘ ہے ۔ یہ کہانیاں بہت پہلے Laughable Lovesکےنام سے ایک مجموعے کی شکل میں شائع ہوئی تھیں ۔ ان کہانیوں کو بھی سعید نقوی نے ہی اردو روپ دیا ہے ۔ کنڈیرا کا ترجمہ آسان نہیں ہے ۔ اردو زبان میں تو بالکل آسان نہیں ہے کیونکہ کنڈیرا کی لفظیات اور تراکیب توپیچیدہ ہوتی ہی ہیں تحریروں میں مزاح اور طنز کی ایک ہلکی سی کاٹ بھی ہوتی ہے ، اس کاٹ کو اول تو سمجھنا ہی دشوار ہے اور اگر سمجھ میں آ جائے تو اسے اردو کا روپ دینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ، لیکن سعید نقوی نے یہ کام کیا ہے اور اس خوبصورتی سے کیا ہے کہ پڑھنے والا عش عش کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ کہنے کو تو یہ مضحکہ خیز محبتوں کی کہانیاں ہیں ، لیکن یہ سنجیدگی کے ساتھ ، انسان کے عیاں اور پوشیدہ جذبوں ، خواہشات اور آرزوکی عکاسی کرتی ہیں ۔ یہ محبت کے علاوہ شہوت انگیز کھیل کی بھی کہانیاں ہیں ۔ ان کہانیوں کا ہر کردار ، کیا عورت اور کیا مرد ، اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے واقعات پر قابو رکھتا ہے ، لیکن سچ یہی ہے کہ کسی کو نہ اپنےساتھ پیش آنےوا لے واقعات پر قابو ہے اور نہ ہی خود پر جو بیت رہی یا بیتنے والی ہے اس پرقابو ہے ۔ ان کہانیوں میں زیریں سطح پر سوشلسٹ نظام حکومت کے جبر اور بیجا پابندیوں پر طنز بھی ہے ، وہ پابندیاں جو ان کرداروں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا ایک بڑا سبب بھی ہیں ۔ میلان کنڈیرا کی یہ کہانیاں آج کی نہیں ہیں ، یہ ۱۹۶۸ء میں چھپی تھیں لیکن یہ آج بھی تر و تازہ ہیں ۔ ان کہانیوں کے ترجمہ کے لیے سعید نقوی کا شکریہ واجب ہے ، ساتھ ہی مدیر ’’ اثبات ‘‘ کا شکریہ بھی ضروری ہے کہ سمندر پار سے انہوں نے یہ کہانیاں منگوا کر اپنے پرچے میں شائع کیں تاکہ ہم سب پڑھ سکیں ۔
اس شمارے کی تیسری خاص بات فرانز کافکا کی وہ دس تمثیلات ہیں جن کا راست جرمن زبان سے مقبول ملک نے اردو میں ترجمہ کیا ہے ۔ ان کہانیوں سے پہلے بزرگ نقاد گوپی چند نارنگ کا ایک وقیع مضمون ’’ نیا افسانہ:علامت ، تمثیل اور کہانی کا جوہر ‘‘ کے عنوان سے ہے ، اس میں مرحوم نقاد وارث علوی کے اس بیان کو رد کیا گیا ہے کہ ’’ تمثیلی کہانی ، افسانہ نگاری کا اسفل طریقہ ہے اور اس کو رد ہونا چاہیے ۔‘‘ وارث صاحب کا کہنا تھا کہ ’’ فن کار جب حقیقت نگاری اور علامت نگاری دونوں پر قادر نہیں ہوتا تو تمثیل ، داستان ، کتھا ، حکایت اور پریوں کی کہانی کا آسان راستہ تلاش کرتا ہے ۔‘‘ نارنگ نے اپنے مضمون میں وارث صاحب کے مذکورہ بیان کو رد کیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ’’ علامتی کہانی اور داستانوی کہانی ( تمثیل بھی اس میں شامل ہے ) دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی تخلیقی رویے کے دو اسلوبیاتی مظہر ہیں گویا فرق اسلوب بیان کا ہے ، ذہنی تخلیقی رویے کا نہیں ۔‘‘ کافکا کی تمثیلات پیش کر کے مدیر ’’ اثبات ‘‘ نے نارنگ صاحب کے مقدمے کی توثیق کی ہے ۔ خیر ، یہ ایک دلچسپ بحث ہے اور اس تعلق سے مختلف نقادوں کے خیالات سامنے لانے کی ضرورت ہے ، مثلاً شمس الرحمٰن فاروقی ، شمیم حنفی اور فضیل جعفری وغیرہ ۔ بات کافکا کی تمثیلیات سے شروع ہوئی تھی ، یہ شاندارہیں ۔ میں نے انہیں کہانی سمجھ کر پڑھا ہے اور ان سے سرور حاصل کیا ہے ، انہیں پڑھنے کے ساتھ ہی ایک سوال بھی سامنے آیا ہے ، کیا واقعی کافکا کی یہ تحریریں تمثیل ہی ہیں ، کہانی نہیں ہیں؟ مقبول ملک کا ترجمہ زبردست ہے ۔ کافکا کا ترجمہ کھیل نہیں ہے ، یہ مشقت بھرا کام ہے ۔ انہیں بہت بہت مبارک پیش ہے ۔ سعید نقوی کا ذکر پھر کرنا پڑے گا ، وہ اس شمارے میں چھائے ہوئے ہیں کہ ان کی اپنی خود کی تحریر کردہ دو کہانیاں بھی اس میں شامل ہیں ’’ درخت ‘‘ اور ’’ سحر ہونے تک ‘‘ ۔ دونوں ہی لاجواب کہانیاں ہیں ۔ میں نے انہیں پہلے نہیں پڑھا تھا ، اب پڑھا تو مزید پڑھنے کی چاہ پیدا ہو گئی ہے ۔
اس شمارہ میں عتیق اللہ کی غزلوں نے ایک عجب سی سرشاری پیدا کی ، کیا خوب غزلیں ہیں ! ایک شعر پیش ہے:
یہ کم نہیں ہے کھلا ہوا ہے در عدالت در سماعت ہمارے منصف نے کچھ سنا ہے مگر بہت کچھ نہیں سنا بھی
قمر رضا شہزاد ، احمد جہانگیر ، عزیز نبیل ، عمار اقبال اور عمر فرحت کی غزلیں بہترین ہیں ۔ احمد جہانگیر تو چونکا دیتے ہیں ۔ ایک شعر ملاحظہ ہو:
اس تعفن گاہ سا اک اور سیارہ بھی ہو پیڑ مرتے ہوں جہاں تالاب میں پانی سڑے
اس بار نظموں کا حصہ بھی زبردست ہے ۔ احمد نصیب خان کی سات نظمیں ، جو ’’ رات خواب میں دیکھا ‘‘ مصرعہ سے شروع ہوتی ہیں پڑھ کر زبیر رضوی مرحوم کی سلسلہ وار نظموں ’’ پرانی بات ہے لیکن‘‘ کی یاد آ گئی ، حالانکہ یہ دونوں سلسے اپنی بنت اور اپنے موضوع کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں ۔ عتیق اللہ نے احمد نصیب خان کے تعلق سے بالکل سچ کہا ہے کہ یہ ’’ متفرق مگر بہ باطن ایک دوسرے سے مربوط نظموں پر مشتمل ہے ۔ نظم ایک سست رو آہنگ کے تحت کہیں دھند ، کہیں ایک ہلکی سی چمک ، کہیں دھندلی روشنیوں کے کئی جھرمٹ خلق کرتی ہوئی اپنی فطری رفتار میں آگے بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ ‘‘ خورشید اکرم کی نظم ’’ سوچتا ہوں کیا کیا ‘‘ بہت متاثر کن ہے ، شاندار ۔ علی زیوف اپنی نظموں سے ایک نیا وژن پیش کرتے ہیں ، جو حال اور مستقبل پر محیط ہے ۔ مضامین پر مختصر گفتگو کروں گا کہ تبصرہ طویل ہوگیا ہے ۔ کُل چار مضامین ہیں ، طارق محمود ہاشمی کا ’’ اردو زبان : روایات اور استعماریت ‘‘ ۔ اس مضمون میں وہ بتاتے ہیں کہ ’’ اردو زبان محکوم اقوام کی زبانوں میں سے ہے اور اس کے لسانی ڈھانچے پر ملوکیت کے ماحول اور نوآبادئاتی آقاؤں کے استعماری تصورات کی پرچھائیاں واضح ہیں ۔‘‘ یہ مضمون سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔ نجیبہ عارف کا مضمون ’’ تنقید اور تخلیق کی کتھا‘‘، ماریو برگس یوسا کی معرکتہ الآرا کتاب ’’ نوجوان ناول نگار کے نام خطوط ‘‘ پر مفصل تنقیدی تبصرہ ہے ۔ بڑی محنت سے اسے لکھا گیا ہے ۔ شافع قدوائی کا مضمون ’’ کہانی پن کی واپسی : متھ یا حقیقت ‘‘ ان کی کتاب ’’ فکشن مطالعات ‘‘ سے لیا گیا ہے ، یہ آج کے فکشن کو سمجھنے اور سمجھانے کی ایک کامیاب کوشش ہے ۔ سفیر حیدر کا مضمون ’’ کافکائیت کا تعبیری تنوع اور عالمی فکشن ‘‘ اپنی نوعیت میں اکاڈمک ہے ، لیکن خود کو پڑھواتا بھی ہے اور کافکا کے فکشن پر نئے انداز سے روشنی بھی ڈالتا ہے ۔ دو انٹرویو ہیں ، روسی ادیب ولادیمیر نوباکوف اور جاپانی ادیب ہاروکی مورا کامی کے ۔ یہ انٹرویو ادب کے دو الگ الگ رجحانت سامنے لاتے ہیں ۔ نجم الدین احمد نے موراکامی کے انٹرویو کا بہترین ترجمہ کیا ہے ۔ سجاد بلوچ کا نوباکوف کا ترجمہ بھی اچھا ہے ۔
اس شمارے کی ایک خاص چیز معروف فکشن نگار خالد جاوید کی نظمیں ہیں ۔ اشعر نجمی کا کہنا ہے کہ ’’ ان کی نظموں میں شعری پیکر جب بلندیوں کی طرف پرواز کرتا ہوا مختلف النوع اشیا میں پنہاں باہمی ارتباط کی تلاش شدت تاثر سے بھرے جذبات کے ذریعے کرتا ہے ، تو وہ دراصل حقیقت کا انکشاف کرتا ہے اور اسے ہمارے لیے قابلِ قبول بنا دیتا ہے ۔‘‘ میں اس میں اتنی بات کا اضافہ کروں گا کہ ان نظموں کو خالد جاوید کے فکشنی رویے کے تناظر میں اگر پڑھا جائے تومعنی کے کئی در کھلتے چلے جاتے ہیں ۔ آخر میں اداریہ ’’ نادیدہ قاری کے نام دوسرا خط‘‘ ،کا ذکر کرنا چاہوں گا ۔ یہ ایک اچھا سلسلہ ہے اور فکشن کے تعلق سے نظری مباحث سامنے لاتا ہے ۔ اور یہ سوالات بھی کھڑے کرتا ہے ۔ مثلاً اشعر نجمی لکھتے ہیں کہ عالمِ شہادت اور عالمِ غیب کی کوئی حقیقت نہیں ہے اصل چیزخود انسان ہے ۔ اور ایک جگہ لکھتے ہیں کہ تخلیق کار کو قارئین سے زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہیے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا قارئین ، انسان سے ہٹ کر ہیں ؟ اور اگر تخلیق کار ، قارئین سے توقع نہ رکھے تو کس سے رکھے؟ یہ اداریہ ، اور اس سے پہلے کا بھی ، بحث کے دروازے کھولتے ہیں ۔ اور ادب میں جمود کے خاتمے کے لیے بحث ضروری ہے ۔ اس شمارہ کو موبائل نمبر 8169002417 سے حاصل کیا جاسکتاہے۔

You may also like

Leave a Comment