Home نقدوتبصرہ اثبات 44 : ایک دھنک رنگ شمارہ ! – شکیل رشید

اثبات 44 : ایک دھنک رنگ شمارہ ! – شکیل رشید

by قندیل

اشعر نجمی کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی مجلے ’ اثبات ‘ کے بارے میں مَیں نے کبھی لکھا تھا کہ ’ اس کا عام شمارہ بھی خاص شمارہ ہوتا ہے ‘، اگر میری اس بات کو آزمانا ہے تو اس کا نیا شمارہ ( نمبر44) دیکھ لیں ، جو ہے تو عام شمارہ ، مگر اپنے کروفر میں کسی خاص شمارے جیسا ہی ہے ۔ اپنے متنوع مواد کے سبب اس شمارے کو دھنک سے تشبیہ دی جا سکتی ہے ، جس کا ہر رنگ خوشنما ہوتا ہے ۔ یوں تو اس شمارے کے ہر حصے یا باب پر بات کرنا ممکن ہے ، لیکن مَیں بس چند ہی حصوں پر بات کروں گا ، تاکہ اُن کا بھرپور تعارف ہو سکے ۔

اشعر نجمی کا ’ اداریہ ‘ ہر شمارے کی جان ہوتا ہے ، کیونکہ اُس میں ادب پر ، اور کبھی کبھی ادب سے باہر کے کسی موضوع پر ، جم کر خامہ فرسائی کی جاتی ہے ، بعض اوقات کچھ لوگوں پر شدید تنقید بھی کی جاتی ہے ۔ اس بار اشعر نجمی نے یہ دونوں کام ایک ساتھ کیے ہیں ۔ ان کے ’ اداریے ‘ کا عنوان ہے ’ فی الحال رسید حاضر ہے ‘، اور موضوع ہے ادبی رسالوں میں شائع ہونے والے خطوط ۔ اس ’ اداریہ ‘ میں اشعر نجمی نے آج کے اکثر ادبی رسالوں کے مدیران کرام کی دُکھتی رگ پر انگلی رکھی ہے ، کیسے؟ ملاحظہ کریں : ’’ اُس وقت ( ماضی میں ) سستے سے سستے رسالے میں قارئین کے خطوط چھپتے تھے جس میں صرف مدیر محترم کی مدح سرائی ہی نہیں ہوتی تھی بلکہ کچھ مشمولات پر ہلکی پھلکی تنقید بھی اُن میں شامل ہوتی تھی ۔ بعد میں اِن تبصرہ نما خطوط کی سب سے بہترین شکل مجھے ’ شب خون ‘ میں نظر آئی جس میں قارئین کھل کر مشمولات پر اپنی رائے دیتے تھے اور بوقت ضرورت مدیر / مرتب بھی بعض خطوط کے تعلق سے اپنا موقف واضح کردیا کرتا تھا ۔ یہ ایک اچھا سلسلہ تھا جو قاری ، مدیر اور قلمکار کو ایک ہی لڑی میں پرو دیتا تھا ۔ اگرچہ اب بھی بعض رسائل میں خطوط چھپتے ہیں لیکن ان میں سے 99 فیصد ایسے ہوتے ہیں جو صرف مدیر محترم کے نفس کو مزید موٹا کرنے کے لیے لکھے جاتے ہیں تاکہ خطوط نویسوں تک اعزازی کاپیاں پہنچتی رہیں اور اپنی تخلیقات کی اشاعت کے لیے راہ ہموار کی جاتی رہے ۔‘‘ آگے وہ لکھتے ہیں : ’’ مراسلوں کی جگہ اب سوشل میڈیا نے لے لی ہے ، بطور خاص فیس بک نے لے لی ہے ۔‘‘ اور پھر اشعر نجمی نے رشید ودود پر سخت تنقید کی ہے ۔ ہوا یہ تھا کہ رشید ودود نے اس شمارے کی اشاعت سے قبل ، فیس بک پر اس کی فہرست کے ایک عنوان ’ اردو روز بروز مزید اسلامی ہوتی جا رہی ہے ‘ کو بنیاد بناکر ، انجمن ترقی اردو ( ہند ) کے جنرل سیکرٹری ، اطہر فاروقی پر شدید نکتہ چینی کی تھی ۔ مَیں نے فیس بک پر ساری روداد اور جھڑپ دیکھی اور لطف بھی اٹھایا ، اور مجھے لگتا ہے کہ اس طرح کی جھڑپیں یا معرکے ادبی دنیا پر طاری جمود کو توڑنے کے لیے ضروری ہیں ، فریقین کو چاہیے کہ ایسی بحثوں کو آن بان اور شان کا مسئلہ نہ بنائیں ۔ چونکہ ’ اداریہ ‘ کی بنیاد میں ، اطہر فاروقی کے انٹرویو کا ایک جملہ ، اور اس پر کیا جانے والا اعتراض ، گارے کی حیثیت رکھتا ہے ، اس لیے ’ گوشۂ اطہر فاروقی ‘ پر بات کرنا ضروری ہو گیا ہے ، حالانکہ میں چاہتا تھا کہ پہلے اشعر نجمی کے ، اس شمارے میں شامل ، تین ’ خاکوں ‘ کا ذکر کر لوں ۔ اطہر فاروقی کی تحریریں مجھے پسند آتی ہیں ، اس کی ایک بڑی وجہ اُردو زبان کے تئیں ان کی حقیقت پسندانہ سوچ ہے ۔ اس گوشہ میں شامل انٹرویو کی بنیاد پر مَیں بلا تردد کہہ سکتا ہوں کہ اطہر فاروقی کا اُردو زبان کے احیاء کا جو نظریہ ہے ، اگر اس پر عمل کیا جانے لگے تو اِس زبان کو صحت مند ہونے سے روکا نہیں جا سکتا ۔ انٹرویو اور اسی شمارے میں شامل ان کی یادوں یا خودنوشت ’ لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم ‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے یہ شدید احساس ہوا کہ اطہر فاروقی جو سچ اور حق سمجھتے ہیں اُسے چھپاتے نہیں ، بول دیتے ہیں ، لیکن اکثر اُن کے لہجے اور قلم میں سختی یا کہہ لیں کہ تلخی آجاتی ہے ، کچھ لوگ اسے اسے درشتی بھی کہہ سکتے ہیں ۔ انٹرویو کے چند سوالوں کے جواب سے کچھ سطریں ملاحظہ کریں : ’’ ایک تحریک ( اُردو کے لیے ) تو یہ ہو سکتی ہے کہ اُردو والے اپنے بچوں کو اُردو اس لیے پڑھائیں تاکہ وہ بچہ اُردو کا عظیم ادب پڑھ کر بہتر انسان بن سکے ۔ اور یہ کام کسی جماعتی تحریک کے ذریعے نہیں بلکہ ضمیر کی آواز پر ہوگا ۔‘‘ ( مجھے جملے میں ’ اُردو کا عظیم ادب ‘ پڑھ کر اچھا لگا کیونکہ اُردو کے اکثر ادباء اُردو کے ادب کو معمولی قرار دیتے ہیں ) ۔ مزید ملاحظہ کریں : ’’ اُردو والوں کو اپنے سیاسی رہنماؤں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے ۔ اُردو کے لیے جب بھی کوئی جلسہ کیا جائے تو جن لوگوں کو تقریر کرنے بلایا جائے ، اُن کے بارے میں یہ طے ہو کہ اُنہوں نے اپنے بچوں کو اُردو پڑھائی ہے ۔‘‘ مزید : ’’ مفت میں اُردو رسالے اور کتابیں خاص طور پر یونیورسٹیوں میں اُردو کے اساتذہ اور متوسط طبقے کے وہ لوگ پڑھنا چاہتے ہیں جو سیکڑوں روپیے مہینہ انگریزی اور ہندی اخباروں پر خرچ کرتے ہیں مگر اُردو کے اخبارات اور کتابیں اُنہیں صرف مفت میں ہی چاہئیں ۔‘‘ مزید : ’’ جہاں تک اُردو اداروں کا معاملہ ہے تو اب یہ تقریباً مسلمانوں کے ادارے بن چکے ہیں ۔ اُردو کے سرکاری اداروں کو خود سرکاریں بھی مسلمانوں کے ادارے سمجھتی ہیں ۔ مسلم اداروں میں ہر طرح کی بدانتظامی عام ہے ۔ مسلمان چھوٹے سے چھوٹے اداروں تک کو اپنے ذاتی حشمت سے جوڑ کر دیکھتے ہیں اور ان کے لیے لڑتے ہیں ۔‘‘ اُردو پڑھانے کا ایک آسان طریقہ بھی انہوں نے بتایا ہے : ’’ وہ بس اپنے بچوں کو اُردو پڑھانا شروع کر دیں ۔ اگر اسکول میں اُردو نہیں ہے تو گھر پر اس کا انتظام کریں ۔‘‘ طویل انٹرویو ہے جس میں انجمن کے مالی معاملات سے لے کر اُردو ہندی کے رشتوں اور رسم الخط تک بہت ساری باتوں پر اطہر فاروقی کی سوچ سامنے آتی ہے ، اس میں وہ سوال بھی ہے جس کے جواب سے اس انٹرویو کی سرخی لگائی گئی ہے ، سرخی جس نے فیس بک پر بحث کو جنم دیا تھا ۔ سوال تھا : ’’ ’ اردو ختم ہو رہی ہے ‘ ، پرانا مگر طاقتور سیاسی نعرہ ہے ، اس پر آپ کیا کہیں گے؟ ‘‘ جواب دیا گیا : ’’ زبانیں شاید ہی کبھی ختم ہوتی ہوں مگر وہ اپنی شکل ضرور تبدیل کر لیتی ہیں ۔ اُردو کی شکل میں ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ یہ روز بہ روز مزید اسلامی ہوتی جا رہی ہے ۔‘‘ پورا انٹرویو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اطہر فاروقی کی مذکورہ بات ’ اردو کے سیکولر کردار ‘ کے زوال کے تناظر میں ہے ، انہیں مسلمانوں سے گِلہ ہے کہ ’’ انہوں نے پوری طرح اُردو کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دی اور خود کو صرف اسلام کی حفاظت کے لیے وقف کر لیا ۔ ہندوؤں نے بھی اُردو کو صرف مسلمانوں کی زبان سمجھ کر پڑھنا بند کر دیا ۔ حکومتیں ایک حد کے بعد کسی زبان کو نہیں بچا سکتیں ۔ اُردو والے چونکہ خود اُردو کے لیے کچھ کرنے کے بجائے حکومت پر بھروسہ کر رہے تھے ، اس لیے وہ کسی اور زبان کے ساتھ مل کر اُردو کی لڑائی نہ لڑ سکے ۔‘‘ یہاں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ قصور اُن کا ہے جنہوں نے اُردو کے سیکولر کردار کو ختم کیا ہے ، اور وہ مذہبی اسکالر نہیں ہیں ، کیونکہ مذہبی کتابیں پہلے بھی شائع ہوتی رہی اور فروخت ہوتی رہی ہیں ، اور اب بھی وہی صورتحال ہے ۔ عائشہ نجیب کو بہت بہت مبارک ہو کہ اُنہوں نے اطہر فاروقی سے ایسے سوالات کیے کہ وہ کُھلنے پر راضی ہو گیے ۔

اطہر فاروقی کی خودنوشت آنکھیں کھولنے والی ہے ۔ اُنہوں نے سکندر آباد میں تعلیم سے لے کر جماعت اسلامی و مولانا مودودی کے اثرات کو قبول کرکے کمیونسٹ حلقہ میں رسائی حاصل کرنے اور جے این یو کی تعلیم تک کئی بڑے چہروں کو جس طرح بے نقاب کیا ہے ، اور تعلیمی اور ثقافتی شعبوں کی چپقلشوں اور بے ایمانیوں پر بات کی ہے ، اور ان تمام حوالوں سے اپنے جسمانی اور ذہنی سفر کی دلچسپ مگر تلخ روداد پیش کی ہے ، اس کے لیے وہ دل کی گہرائیوں سے مبارک باد کے حقدار ہیں ۔ اِس گوشہ میں اطہر فاروقی پر مرحوم مجتبٰی حسین اور معروف صحافی معصوم مرادآبادی کے دو خاکے بھی شامل ہیں ، جنہیں پڑھ کر یہ پتا چلتا ہے کہ دوسرے افراد اطہر فاروقی کو کس طرح سے دیکھتے ہیں ۔ دونوں ہی خاکے عمدہ ہیں ۔ دونوں خاکوں سے چند سطریں : ’’ اُردو میں یا یوں کہیے کہ اُردو جاننے والے اطہر فاروقی وہ واحد شخص ہیں جنہیں کسی طرح کے اقتدار ، کسی ادارے کی رکنیت ، کسی انعام سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ اطہر فاروقی کو خریدا نہیں جا سکتا ، یہ بات اُردو میں لوگوں کو بڑی مشکل سے سمجھ میں آتی ہے ۔‘‘ ( اطہر فاروقی : خوبصورت تضادوں کا آدمی ۔ مجتبٰی حسین )

’’ اُردو کے لیے اطہر فاروقی کا دل ہر وقت دھڑکتا ہے ۔ ان کے رفیق بتاتے ہیں کہ اب اُن کی زندگی کا واحد مرکز انجمن ترقی اُردو ( ہند ) کی ترقی ہے جس کے پاس کسی قسم کی سرکاری مدد نہیں ہے ۔ ‘‘ اس گوشہ میں اطہر فاروقی کے تحریر کردہ دو مضامین اور سید شہاب الدین مرحوم سے ان کا لیا ہوا ایک انٹرویو بھی شامل ہے ۔ ایک مضمون اسلامک بینکنگ پر ہے ، جو اسلامک بینکنگ کے نام پر کیے جانے والے فراڈ کو اجاگر کرتا ہے ، لیکن اسے ’ اسلامی غلبے کا نیا ہتھیار ‘ نہیں کہا جا سکتا ، ہاں فاسٹ مَنی کمانے کا ہتھیار کہا جا سکتا ہے ۔ اشعر نجمی نے بھرپور گوشہ شائع کیا ہے ، انہیں اس کے لیے مبارک ۔ انہوں نے تعارف میں اس گوشے کا جواز دیتے ہوئے جو بات لکھی ہے اس سے مجھے پورا اتفاق ہے : ’’ اس وقت اطہر فاروقی کا دم قدم صرف اُردو کے لسانی معاشرے کے لیے ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں ہچکیاں لیتی ’ قومی دانشوری ‘ کے لیے بھی ’ نعمت غیر مترقبہ ‘ سمجھا جانا چاہیے ۔ اسی ’ تحدیث نعمت ‘ کے لیے یہ گوشہ مخصوص کیا گیا ہے ۔‘‘

اس شمارہ کی خاص پیشکش فرحت احساس کی ، جنہیں اشعر نجمی ’ خالص ‘ ہندوستانی شاعر مانتے ہیں ، 11 غزلیں ہیں ۔ ایک شعر ملاحظہ کریں ؎

میں ترے پانی سے ابھروں تو مری مٹی میں ڈوبے

میں ترا مٹی ہوں آج اور آج تو پانی ہے مری

عتیق اللہ اس شمارے میں ، اپنی نظموں اور چار غیر ملکی نظموں کے تراجم کے ساتھ موجود ہیں ۔ اس شمارہ کے تمام مضامین ، چاہے وہ سید محمد اشرف کا ہو یا خالد جاوید ، ادین واجپئی ، محسن حامد ، محمد عاطف یا جاوید رسول کا ، وقیع ہیں ۔ رضوان الدین فاروقی نے ادین واجپئی اور محسن حامد کی تحریروں کا خوبصورت ترجمہ کیا ہے ۔ سید محمد اشرف نے بڑی خوبصورتی سے فاروقی صاحب کے ساتھ اپنی کھٹی میٹھی یادوں کو تحریری شکل دی ہے ۔ بات غزلوں کی بھی ہونی چاہیے کہ اس شمارے میں 14 شعراء کی 50 غزلیں شامل ہیں ، لیکن اتنی غزلوں پر اظہار خیال کے لیے اخبار کی تنگ دامنی مانع ہے ۔ احمد جہانگیر اور سہرام سرمدی کے ایک ایک شعر پیش ہیں؎

مولا اس نم ناک زمیں پر کوئی سویرا ایسا ہو

ہر اک چکی گیہوں پیسے ہر چولہے میں آگ جلے

( احمد جہانگیر)

خلق خدا یہ کہتی ہے تیرا فراق تھا سبب

واقعہ یہ کہ تیری یاد آئی تھی اور جاں گئی

اس شمارے میں تین افسانے ہیں ، ناصر عباس نیر ، شاعر امیر حمزہ ثاقب اور نورین عل حق کے ، تینوں لاجواب ہیں ۔ امیر حمزہ ثاقب کو اس پہلے مطبوعہ افسانہ کی مبارک ہو ۔ اس باب میں اشعر نجمی کے زیرِتحریر ناول ’ وسرجن ‘ کے دو زبردست باب شامل ہیں ، مَیں اس ناول پر اپنی حتمی رائے مکمل ناول پڑھنے کے بعد دوں گا ۔ نظموں کا باب کافی طویل ہے ، سات شعراء کی 27 نظمیں ! سلیم شہزاد میرے پسندیدہ نظم نگار ہیں اور ہمیشہ کی طرح اُن کی نظموں نے ذہن کو تھکایا ، لیکن جب معنیٰ کچھ کچھ کھلے تو ذہن کو سکون دیا ۔ باقی شعراء کی نظمیں بھی اچھی ہیں ، افسوس کہ ان پر جگہ کی تنگی کے سبب بات ممکن نہیں ہے ۔ اب اشعر نجمی کے ’ خاکوں ‘ کا ذکر چھڑنے کو ہے ۔ اُن کے تین ’ خاکوں ‘ میں سے مجھے ، سب سے زیادہ پسند وہ آیا ، جو تیسرے نمبر پر ہے ، ’ ارمغان سگان فاروقی ‘ ۔ اس ’ خاکہ ‘ میں کچھ ایسا طنز ملیح ہے ، کہ اس کی کاٹ نے واقعی اُنہیں ، جو نشانہ بنے ہیں ، کاٹ دیا ہوگا ۔ ہے تو یہ فاروقی صاحب کے دو کتّوں کا خاکہ لیکن اس میں لفظ ’ کتّا ‘ کثیر معنیٰ اختیار کر گیا ہے ۔ ایک مختصر سا اقتباس ملاحظہ کریں : ’’ پُرتکلف ظہرانے کے وقت فاروقی صاحب نے میرا مذاق اڑایا کہ کتّوں سے اتنا کیوں ڈرتے ہو ؟ میں نے برجستہ کہا کہ آپ کو تو زیادہ ڈرنا چاہیے چونکہ آپ کے تجربات مجھ سے زیادہ وسیع ہیں ۔ فاروقی صاحب کھاتے کھاتے اتنا ہنسے کہ انہیں اچھو لگ گیا ۔ پانی پینے کے بعد اُنہوں نے بتایا کہ نارنگ بھی جب الہ آباد آتے ہیں تو اسی کمرے میں ٹھہرتے ہیں ، ان کی ان کتّوں کی دوستی ہو گئی ہے ۔ میں نے برجستہ کہا کہ بلاشبہ آپ کے کتّوں سے دوستی گانٹھنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔ ایک بار پھر فاروقی صاحب کھاتے کھاتے ہنسنے لگے لیکن خیر ہوئی کہ اس بار انہیں اچھو نہیں لگا ، شاید سابقہ تجربے کی بنا پر وہ محتاط تھے ۔‘‘ دوسرے نمبر پر مجھے خالد جاوید پر لکھا خاکہ ’ نئے فکشن کا پرانا آدمی ‘ پسند آیا ۔ یہ خالد جاوید سے اشعر نجمی کی ’ محبت ‘ کی کہانی ہے ، اس میں کھٹی میٹھی باتیں ہیں ، گِلہ اور شکوہ ہے اور خالد جاوید کی کمزوریوں اور خوبیوں کا بیان ہے ۔ سید محمد اشرف پر لکھے ’ خاکے ‘ میں اشرف صاحب اپنے پورے تہذیبی رکھ رکھاؤ کے ساتھ نظر آتے تو ہیں لیکن مجھے یہ ’ خاکہ ‘ سفرنامہ ، رپورتاژ اور روداد زیادہ لگتا ہے ۔ اشعر نجمی کو ایک نئی صنف میں لکھنے کے لیے شبھ کامنائیں ۔ شہرام سرمدی کے تبصرے غضب کے ہیں ، ان تبصروں میں ایک الگ رنگ ہے ، ایک الگ تیج ہے ۔ یہ تبصرے بہتوں ( مصنفوں ، شاعروں ) کو شاید نہ بھائیں ، لیکن پڑھنے والوں کو یقیناً پسند آئیں گے ۔ یہ شمارہ 512 صفحات پر مشتمل ہے اور قیمت 800 روپیہ ہے ۔ اسے فون نمبر 9372247833 اور 9910482906 پر رابطہ کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

You may also like