Home تجزیہ اس طرح جنگ نہیں لڑسکتے – ودود ساجد

اس طرح جنگ نہیں لڑسکتے – ودود ساجد

by قندیل

ہندوستانی مسلمانوں کے تناظرمیں اگر ہندوستان کی معلوم تاریخ سے موجودہ دور کاموازنہ کیا جائے تویہ دور انتہائی غیرمعمولی معلوم ہوتاہے۔لہذا صورتحال سے نپٹنے کے لئے اقدامات بھی غیرمعمولی ہی کرنے ہوں گے۔آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ملک پر ایسادور نہیں آیا۔مسلمانوں پر تو کبھی نہیں آیا۔اس وقت بھی نہیں جب بابری مسجد کے خلاف رام مندر کی تحریک شروع ہوئی‘ خونی رتھ یاترا نکالی گئی‘مسلم کش فسادات برپا کئے گئے۔مظلوم طبقات گر کر اٹھتے تھے اور اٹھ کر للکارتے تھے۔ ان کے للکارنے کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن ان کے للکارنے پر کبھی ایسی قدغن نہ تھی۔جن پارٹیوں کو ان کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی تھی وہ ان کی رودا رنج والم بھی سنتی تھیں۔لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب کسی کو ان کے ووٹوں کی بھی ضرورت نہیں رہی۔اب کوئی جھوٹ کو بھی ان کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے ان کا نام نہیں لے رہا ہے۔اب ہر پارٹی کو دوسرے طبقات کے ووٹوں کی فکر ہے۔اور اب ہر پارٹی کھل کر خود کو غیر سیکولر ثابت کرنے میں فخر محسوس کر ہی ہے۔

فسادات کا ذکر آیا ہے توایک جائزہ کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔بابری مسجد کی شہادت کے بعدجمعیت علماء ہند کیلئے وزارت خارجہ کے سابق افسر قاضی مسعود حسن صدیقی نے ایک جائزہ لیا تھا۔مولانا عبدالحمید نعمانی اورمولانا فضل الرحمن قاسمی نے بتایا ہے کہ اس جائزے کے مطابق 90 کی دہائی تک 67 ہزار 500 مسلم مخالف فسادات ہوچکے تھے۔ان میں سے 23 ہزار 500 فسادات 1984 کے سکھ مخالف فسادات کی شدت کے تھے۔37سال پہلے ہونے والے سکھ مخالف فسادات بلا شبہ بڑے بھیانک تھے۔2200 لوگ مارے گئے تھے۔2004 تک ہر متاثر کو دہلی اور مرکزی حکومتوں سے مختلف قسم کی مالی مدد دی جاتی رہی لیکن اس کے باوجود اپریل 2005 میں اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کی صدارت میں کابینہ نے 2200 متاثرین کے اہل خانہ کیلئے سات ارب 22 کروڑ سے بھی زیادہ کی رقم مختص کردی۔کیا 2005 تک برپا ہونے والے ہزاروں مسلم مخالف فسادات میں سے کسی ایک فساد کے متاثرین کیلئے بھی کسی حکومت نے یا کانگریس حکومت نے ایسی کوئی رقم مختص کی؟ کسی نے جاکر منموہن سنگھ یا سونیا گاندھی سے نہیں کہا کہ کم سے کم 1984 تک برپا ہونے والے مسلم مخالف فسادات کے متاثرین کی ہی خبر گیری کرلی جائے۔

بہر حال یہ سب ہوا لیکن اس سب کے باوجود مسلمانوں پر ایسا وقت نہیں آیا جیسا آج ہے۔شرپسندوں کی جارحانہ مہم اپنی جگہ لیکن سیاسی طور پر مسلمانوں کی ایسی بے وزنی کبھی نہیں ہوئی۔2014 میں ان کا ووٹ بے اثر ہوگیا۔ 2019 میں ان کا ووٹ بے وزن ہوگیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مسلم ووٹوں کو دوسری تمام سیاسی جماعتوں نے بھی بے وقعت سمجھ لیاہے۔موجودہ وزیر اعظم کی پہلی مدت کار میں ہی ’سیکولر‘ پارٹیوں نے اپنا انداز بدل لیا تھا لیکن اس دوسری مدت کار میں تو ان پارٹیوں نے اپنا راستہ بھی بدل لیا ہے۔سخت گیر نظریات کے حامل قلم کار پردیپ سنگھ نے لکھا ہے کہ’’قومی سیاست میں تبدیلی آرہی ہے‘ ’ہندو اور ہندوتو‘ ہندوستانی سیاست کے محور بن گئے ہیں‘کسی کو خواب میں شری کرشن نظر آرہے ہیں‘تو کوئی شری رام کا بھویہ مندر بنانے کی بات کرنے لگا ہے اورکوئی بھگوان پرشو رام کی چوکھٹ پر پہنچ رہا ہے‘‘۔

کانگریس کے قائد راہل گاندھی کا بیان یاد کیجئے‘ انہوں نے جے پور کی ایک ریلی میں 12دسمبر 2021 کو کہا کہ’’یہ ملک ہندوتو کا نہیں ہندئوں کا ہے‘ 2014 سے ہندو نہیں بلکہ ہندتووادی اقتدار میں ہیں‘ہمیں انہیں اکھاڑ پھینک کر ہندئوں کا راج واپس لانے کی ضرورت ہے۔‘‘ میرا خیال ہے کہ کانگریس کے مزاج کو سمجھنے کیلئے اس سے زیادہ واضح بیان اور کچھ نہیں ہوسکتا۔یعنی ان کی اسکیم سے مسلمان بھی غائب اور دوسرے غیر ہندو طبقات بھی۔وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں صرف ہندئوں کو اقتدار حاصل کرنے کا حق ہے۔31 دسمبر2021 کوسماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش یادو نے کہا کہ اگر ہم اقتدار میں ہوتے تو رام مندرایک سال میں بنادیتے۔انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ’بھگوان‘ رام توہماری پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ جلد ہی ایودھیا جاکررام للا کا درشن کریں گے۔

گروگرام میں پارکوں اور دیگر کھلے مقامات پرکتنے دنوں سے جمعہ کی نماز کی ادائیگی پر ہنگامہ ہے لیکن کون سی سیاسی پارٹی ہے جو کھل کر میدان میں آئی ہو؟ گروگرام میں رہنے والے اور وہاں قائم کمپنیوں‘ فیکٹریوں اور دفاتر میں کام کرنے والے مسلمان ہی ہر جمعہ کو شرپسندوں کا سامنا کر رہے ہیں۔22 دسمبر کو ہریانہ اسمبلی میں وزیر اعلی منوہرلال کھٹر نے کہاکہ مسلمان کھلے مقامات پر نماز ادا کرکے دراصل اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ غلط ہے۔ اندازہ لگائیے کہ جب وزیر اعلی ایسی بے بنیاد اور جھوٹی بات پھیلارہا ہے توبد زبان شرپسندوں کو لگام کون لگائے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے سامنے اب راستہ کیا ہے؟سیاست سے کنارہ کش بھی نہیں ہوا جاسکتا۔لیکن سیاسی زمین اپنی جگہ پر ہے بھی نہیں۔ مقابلہ تو کرنا ہے۔مسائل کا حل تو نکالنا ہے۔لیکن مقابلہ کیلئے کوئی دوسرا مختلف راستہ اختیار کرنا ہوگا۔اور یہ ایک فطری اصول ہے۔جس راستہ کو اختیار کرکے مخالفین اور شرپسندوں نے مسائل کھڑے کئے ہیں اسی راستہ کو اختیارکرکے ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں’لوہے کو لوہا کاٹتا ہے‘ والے اصول پرعمل کی کوشش مفید نہیں ہوگی۔یہاں لوہے کو کاٹنے کیلئے کچھ اور تلاش کرنا ہوگا۔خواہ وہ شدت کے اعتبارسے لوہے سے کم تر ہی کیوں نہ ہو۔سنسکرت کے شاعر بھرتری ہری کے کلام کا علامہ اقبال نے اردو ترجمہ کرتے ہوئے کہا تھا:
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

دوسری جنگ عظیم کے دوران 6 اگست 1945 کو امریکہ نے جاپان کے ہیروشیما اور ناگاساکی پر جو نیوکلیائی بم گرایا تھا اس کی تباہی کے احوال سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔بم گرتے ہی وہاں کا درجہ حرارت 4 ہزار ڈگری سیلسیس ہوگیا تھا۔ لمحہ بھرمیں ایک کلومیٹرکے دائرہ میں آنے والے 66 ہزار لوگ اور مابعد اثرات سے ایک لاکھ سے زائد لوگ ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ بات مشہورہو گئی تھی کہ اگلے 75سال تک یہاں کچھ نہیں اگ سکے گا۔لیکن جاپانیوں نے ادھ جلی چیزوں کو اکٹھا کرکے تعمیرنو شروع کی۔ لوگوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر کوششیں کیں۔ہیروشیما پھر کھڑا ہوگیا۔ خدا کا شکر ہے کہ یہاں ہیروشیما جیسی صورتحال نہیں ہے۔

ہماری کوششیں صورتحال سے مقابلہ کیلئے نہیں بلکہ صورتحال کے بیانیہ پر صرف ہورہی ہیں۔چند جماعتیں کچھ کام کر رہی ہیں لیکن الگ الگ۔ہمارے وسائل الگ الگ صرف ہورہے ہیں۔ان وسائل کو یکجا کرکے کام کرنے کی ضرورت ہے۔یہ نہ سہی ’دانشورانہ صلاحیتوں‘ کوہی مجتمع کرکے لایحہ عمل ترتیب دیا جاسکتا ہے۔وسائل صرف مالی اور مادی ہی نہیں ہوتے‘علمی‘ مذہبی‘ سیاسی‘ سماجی‘ اورانتظامی بھی ہوتے ہیں۔

یہ وقت سیاسی محاذ آرائی کے لئے موزوں نہیں ہے۔یہ وقت انہی کی زبان میں جواب دینے کا بھی نہیں ہے۔یہاں تمام سیاروں کے شیطان آکر جمع ہوگئے ہیں۔آپ ان سے انہی کے انداز میں نہیں لڑسکتے۔ شیطانوں کی ’سنسد‘ پرٹی وی پر ہونے والی بحث ومباحثوں کو دیکھئے۔کس طرح ان کی بدزبانی اورزہر افشانی کو جواز بخشنے کیلئے مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی کی اس تقریر کا حوالہ دیا جارہا ہے جس میں انہوں نے پولیس والوں سے کہا تھا کہ یہ یوگی اور مودی تمہیں بچانے کیلئے ہمیشہ نہیں رہیں گے۔یہ ایسا بیان ہے کہ اس سے درجنوں منفی معانی نکالے جاسکتے ہیں‘ اور نکالے جارہے ہیں۔ان شیطانوں کو چھوڑئے خود میں ہی یہ سوال کرتا ہوں کہ آخر اس بیان کی اور اس للکار کی ضرورت ہی کیا تھی؟کیا اس کا کوئی اثر یا فائدہ ہوا؟ان زبانی ’بموں‘ سے آپ چند سو یا چند ہزار نفوس کی تالیاں سمیٹ سکتے ہیں شرپسندوں کے ہاتھ اور زبان کو نہیں روک سکتے۔اوپر سے ایسی پولیس کو‘ جس میں پہلے سے ہی آپ کے خلاف جذبات بھردئے گئے ہیں‘ مزید اپنا مد مقابل بنارہے ہیں۔

ایک سوال اکثر کیا جاتا ہے کہ پھر حل کیا ہے؟ حل تنہا میرے پاس نہیں ہے۔ہوبھی نہیں سکتا۔حل تو جماعتوں اور قائدین کو ہی مل کر نکالنا ہوگا۔اس کیلئے جہاں سرکاری سطح پرکوشش کرنی ہوگی وہیں قانونی نکیل بھی مضبوط بنانی ہوگی۔جہاں ان شرپسندوں کا محورہے وہاں سے رابطہ بھی کرنا ہوگا مگر برابر کی سطح پر‘ کھلے طورپر‘ سب کو اعتماد میں لے کراورذاتی غرض وغایت سے اوپر اٹھ کر– جماعتیں اپنے اپنے طورپر کام کر رہی ہیں‘ لیکن سیاسی معاملات میں یکجا ہونا پڑے گا۔اسی وقت کوئی عملی حل نکلے گا۔لیکن اس طرح بالکل نہیں نکلے گاجس طرح ہم چند سو نوجوانوں کی بھیڑ والے جلسوں میں شعلہ فشاں تقریریں کرکے نکالنا چاہتے ہیں۔آپ کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہے۔وفاقی سطح کا ایک ہمہ جہت قانونی سیل تک نہیں ہے جو ملک بھر میں ہونے والی شرپسندیوں پرقانونی گرفت کا انتظام کرے۔اندور میں رونما ہونے والاچوڑی فروش کا واقعہ تو یاد ہوگا؟ اس کا تفصیلی ذکر 19 دسمبر 2021 کے انقلاب کے شمارہ میں شائع کالم میں آچکا ہے۔شرپسندوں نے مقامی وکیلوں کو اس کی پیروی کرنے نہیں دی۔سیشن کورٹ نے ضمانت کی عرضی پر سماعت نہیں کی۔دہلی سے ایک وکیل اپنے صرفہ پرہائی کورٹ گیا اور ہائی کورٹ نے تاریخ در تاریخ لگانے کے بعد 11 ویں تاریخ پر سماعت کرکے ضمانت دی۔اس طرح تو ہم اپنے وجود کی جنگ نہیں لڑسکتے۔

You may also like

Leave a Comment