Home مباحثہ اس سے پہلے کہ… تبلیغی جماعت کو بچا لیں ! – مسعود جاوید

اس سے پہلے کہ… تبلیغی جماعت کو بچا لیں ! – مسعود جاوید

by قندیل

تبلیغی جماعت دراصل دیوبندی مکتب فکر کی ایک شاخ ہے جس کا مختصر تعارف اور کارکردگی یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کو مسلمان بنانے پر محنت کرتی ہے ۔ اس کے قیام کے وقت سے ہی اس کا یہی مطمح نظر رہا کہ جو مسلمان کلمہ نماز روزہ حج اور زکوٰۃ سے نابلد تھے اذان اور تکفین و تجہیز کرنا بھی نہیں جانتے ، استنجا اور غسل جنابت اور علی العموم پاکی ناپاکی کے معمولی مسائل سے بھی واقف نہیں تھے ان کو ان بنیادی دینی تعلیم سے واقف کرایا جائے۔
یہ ایک ایسی جماعت ہے جس کا نہ کوئی آرٹیکل آف ایسوسی ایشن ہے نہ کوئی تحریری اغراض ومقاصد ہے نہ باضابطہ رکنیت یا وابستہ ہونے والوں کا کوئی اندراج رجسٹر ہے بالفاظ دیگر عرف عام میں جسے بالکل غیر منظم کہا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود اپنے مشن میں سب سے زیادہ منظم ہے۔ ملک کے چپے چپے میں اس جماعت کے افراد اپنے خرچ پر دین کی محنت کرتے ہیں۔۔۔۔۔ ہاں یہ چھ باتوں میں محدود ہیں ۔ ہاں یہ ناخواندہ مسلمانوں کی جماعت ہے۔ ہاں یہ مسلمانوں کو مسلمان بناتے ہیں جبکہ دعوت دین تو دراصل غیروں کو دین اسلام کی طرف بلانا اور ان کی ہدایت کے لیے محنت کرنے کا نام ہے‌‌۔ ہاں یہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہیں ، ہاں یہ لوگ سیاسی سماجی ثقافتی اور تعلیمی امور پر بات کرنے سے احتراز کرتے ہیں ، ہاں یہ فقہی احکام میں نہیں الجھتے بحث و مباحثہ نہیں کرتے سیاسی پارٹیوں ، انتخابات اور امیدواروں پر رایے زنی سے احتراز کرتے ہیں ۔۔۔۔ تو عرض ہے کہ انہیں ان چھ باتوں پر اور مسلمانوں کو مسلمان بنانے پر محنت کرنے دیں دیگر میدانوں میں آپ کام کر لیں ۔

کیا مسلمانوں کی کسی اور تنظیم کو کیڈر بیسڈ آرگنائزیشن کا خطاب دیا جا سکتا ہے جس کا ملک کے چپے چپے میں شاخ ہو؟ ظاہر ہے نہیں ۔ اس لئے کہ کسی بھی ملی تنظیم خواہ کتنا ہی آل انڈیا/ کل ہند جماعت کا دعویدار ہو ، ملک کے طول وعرض میں تبلیغی جماعت کی طرح ان کی شاخیں اور افراد نہیں ہیں۔

اس جماعت کا قیام جب عمل میں آیا تو میوات کے لوگ جو فقط نام کے مسلمان تھے دینی شعائر اور کلمہ نماز وغیرہ سے بھی نابلد تھے ان پر محنت کی گئی اور رفتہ رفتہ پورے ملک ہی نہیں بیرون ملک بھی دعوت دین کے لیے اپنے خرچ پر چلے میں جانے لگے۔ لیکن وقت کے تقاضوں کے تحت چھ باتوں سے نکلنے کی ضرورت تھی اس لئے کہ قیام کے وقت میوات کی جو صورت حال تھی وہ نہ صرف میوات میں بلکہ پورے ملک میں بدلی اور مسلمانوں میں تعلیم عام ہوئی بہت سارے عصری علوم کی درسگاہوں سے فارغ التحصیل ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر، پروفیسر، وکیل ، جج ، صحافی ، ادیب ، مصنف ، مؤلف ، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین ، تاجر اور مختلف شعبوں میں کام کرنے والے پڑھے لکھے لوگ وابستہ ہوئے تو ظاہر ہے ان کے لیے میوات والا نصاب کافی نہیں ہے۔ ان کی علمی صلاحیتوں کے مد نظر نصاب میں اضافہ کی ضرورت پر توجہ دی جاتی تو بہتر ہوتا۔

مذکورہ بالا باتیں ہی جب اغراض ومقاصد ہیں تو پھر ان کے بعض ذمہ داروں کا دوسری جماعتوں کے بارے میں یا مسلکوں کے بارے میں لب کشائی کرنا اس تنظیم کے لیے زہر ہلاہل سے کم نہیں ۔ ان کے بعض ذمہ داروں کا رویہ خود اس جماعت کی مدر تنظیم دارالعلوم دیوبند اور دیگر مدارس اور علماء کے خلاف غیر مناسب ہوتا ہے بعض متشددین مساجد میں قرآن مجید کی تفسیر اور حدیث شریف کی تشریح کو بند کرا کر فقط فضائل اعمال پڑھنے پر اصرار کرتے ہیں اور ایسا نہ کرنے والے ائمہ حضرات کی چھٹی کرا دیتے ہیں ۔ اسی رویہ کو تبلیغی جماعت مخالف عناصر یہ کہتے ہیں کہ تبلیغی جماعت والے قرآن وحدیث پر فضائل اعمال کو ترجیح دیتے ہیں ۔۔

تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کی اکثریت ناخواندہ ( معذرت کے ساتھ ) لوگوں کی ہے اور ناخواندہ لوگ اندھ بھکت کی طرح ہوتے ہیں ۔ امیر جماعت ہو یا صدر شوری اگر ان کو کنٹرول نہیں کریں گے تو بنگلہ دیش جیسا خونی تصادم ہوگا ۔
اس سے پہلے کہ شوری والے اور امارت والے اپنے گروہوں کی طاقت کا مظاہرہ کریں اور دیوبندی و بریلوی کی طرح دو دھڑوں میں مسلکی فرقہ کی شکل اختیار کرلیں ضرورت اس بات کی ہے کہ چوٹی کے علماء کرام اور اثر ورسوخ رکھنے والے دانشور حضرات مصالحت کرائیں۔ مولانا ارشد مدنی صاحب نے مولانا سعد کے ساتھ میٹنگ کی تھی جو کامیاب نہیں ہوئی تھی اب کوئی بڑی شخصیت مخالف فریق کے سربراہوں کے ساتھ میٹنگ کرے۔ مخلصانہ کوشش کریں ممکن ہے اللہ ایسی کوئی صورت نکال دے کہ دونوں فریق ایک ہو جائیں یا یہ فریق تنظیمی دعوی سے دستبردار ہو جائے۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ بڑی مشکل ہے ڈگر پنگھٹ کی !
شورائی نظام دین اسلام میں محبوب ہے اور اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید میں ہمیں بتایا ہے "والذين استجابوا لربهم وأقاموا الصلاة وأمرهم شورى بينهم ومما رزقناهم ينفقون .
لیکن اگر کسی تنظیم میں اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو وہ کفر نہیں کہ اس کے خلاف محاذ آرائی کی جائے ۔۔۔ ہماری کتنی تنظیمیں ہیں جو وراثتی نظام کے تحت سالہا سال سے چل رہی ہیں حالانکہ کہنے کو وہاں بھی انتخابات ہوتے ہیں!

You may also like