ہر اس تہوار ، جس میں جلوس اور ڈھول تاشے ( اب ڈی جے) ہوتے ہیں ، کے موقع پر عموماً فرقہ وارانہ تصادم ہوتا ہے بالخصوص ان علاقوں میں جس کی نشان دہی انتظامیہ نے ” حساس” علاقے کے نام سے کر رکھی ہے۔ ایسے موقعوں پر تصادم پچھلے آٹھ سال یعنی مودی حکومت میں ہی نہیں اس سے پہلے کانگریس اور دوسری حکومتوں کے دوران بھی ہوتا آیا ہے۔
دراصل اس کی تاریخ آزاد ہندوستان سے پہلے انگریزی استعماریت کے دور کی ہے۔ تہواروں بالخصوص رام نومی، دسہرہ اور محرم کے جلوس جہاں ہر سال ایک جشن کے طور پر منانے کا موقع ہوتا ہے وہیں فرقہ وارانہ فسادات کے ڈر سے لوگ سہمے ہوئے رہتے ہیں اور وجہ کچھ اور نہیں سوائے اس کے کہ غیر سماجی عناصر ان موقعوں کو شکتی پردرشن طاقت کا مظاہرہ ، مارشل آرٹس اور کرتب بازیوں کے ذریعے دوسرے فرقے کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں ۔ اب ڈی جے کے دور میں دوسرے فرقے کے لوگوں کو ورغلانے کے مواقع اس لئے زیادہ ہوتے ہیں کہ اس میں دوسرے فرقے کو طیش دلانے کے لئے قابل اعتراض اور منہ چڑانے والے گانے بجاۓ جاتے ہیں ۔
محرم ہو یا رام نومی مارشل آرٹس اور کرتب بازی کا مظاہرہ کرنے کے لئے جوش و جنون اس وقت شباب پر ہوتا ہے جب وہ مخالف فرقہ کے محلوں، عبادت گاہوں یا مجمعوں جم گھٹوں سے گزر رہے ہوتے ہیں!
انگریزی حکومت نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی اس نفسیات کو سمجھ لیا تھا اس لئے ہر بڑے شہر سے لے کر چھوٹے قصبوں تک کے پولیس اسٹیشنوں میں محرم ، رام نومی اور دسہرہ کے جلوس گزرنے کے روٹ لکھ کر محفوظ رکھ دیا تھا۔ نوآبادیات کی وجہ سے کچھ ترامیم کے ساتھ آج بھی پروسیشن کا وہی روٹ پولیس دیتی ہے۔
عموماً دو فرقوں کے مابین تصادم کی ایک بڑی وجہ مقررہ راستوں / روٹ سے انحراف ہوتی ہے۔ پولیس انتظامیہ کے مطابق روٹ سے روگردانی دوسرے فریق کو چھیڑنے کے مترادف ہے۔ پولیس اور انتظامیہ کی مستعدی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خواہ ماحول کتنا ہی پرامن ہو مساجد اور مندروں کے باہر پولیس دستہ کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے۔
سابق سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سبودھ کمار صاحب نے کئی سال قبل ایک گفتگو کے درمیان بتایا تھا کہ انہوں نے محرم اور رام نومی کے جلوس سے قبل پیس کمیٹی کے ہندو مسلم ممبران سے کہا کہ تہوار کے موقع پر نفرت پھیلانے اور مشتعل کرنے والے گانے بجا کر مسلمان ہندوؤں کو ختم کر سکتے ہیں نہ ہندو مسلمانوں کو تو پھر ایسے گانوں اور نعروں سے کیوں نہ احتراز کیا جائے۔ شانتی سمیتی میں ان کی باتوں سے ممبران کافی متاثر ہوئے اور آپس میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ پروسیشن محرم کا ہو یا رام نومی دسہرہ کا، دس بجے رات کے بعد نکالا جائے گا۔
وہ دن اور آج کا دن یعنی تقریباً دس سال گزر چکے فرقہ وارانہ تصادم نہیں ہوا۔ جبکہ بچپن سے دیکھتا اور سنتا آرہا تھا کہ محرم کے جلوس کے دن آنے والے ہیں ان دنوں میں سفر سے احتراز کریں۔ رام نومی کے جلوس کے دن آنے والے ہیں احتیاط سے رہیں اس لئے کہ دونوں جلوسوں کے دوران غیر سماجی عناصر کی بعض حرکتیں یقینی طور پر فرقہ وارانہ تصادم کا سبب ہوتی تھیں۔ دس بجے رات کا فارمولہ بہترین سدباب ثابت ہوا وہ یوں کہ دوسرے فرقہ کے لوگ اشتعال انگیز باتیں، نعریں، گانے، پوسٹرز اور حرکتیں دیکھنے، سننے اور چڑھنے کے لئے موجود نہیں ہوتے ہیں۔
دوسری جانب حساس مقامات پر، مساجد اور مندروں کے سامنے انگریزوں کے زمانے سے جو احتیاطی تدبیر کے طور پولیس دستوں کی تعیناتی چلی آرہی ہے وہ اس بات کی ضمانت ہوتی ہے کہ اس سے سماج کے لوگوں کی عدم موجودگی میں ان کی عبادت گاہوں کو کوئی شرپسند نقصان نہ پہنچائے۔
دو روز قبل رام نومی کے جلوس کے دوران نہ صرف تصادم بلکہ فرقہ وارانہ فسادات، آگ زنی اور موت کی خبریں بے حد افسوس ناک ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پولیس انتظامیہ نے انگریزوں کے زمانے سے چلی آرہی احتیاطی تدابیر پر عمل کیا؟ اگر عمل کیا تو پتھراؤ کیوں اور جرأت کس نے کی؟ مسجدوں کے سامنے بھگوا جھنڈے لے کر اشتعال انگیزی کیوں ہوئی؟
کیا یہ عمل اور ردعمل کا معاملہ ہے ؟ کیا کسی بھی فرقہ کے لوگوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت ہے؟ عموماً پروسیشن کے ساتھ پولیس چلتی ہے کیا پولیس ایسے موقعوں پر موجود نہیں تھی ؟