( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
سپریم کورٹ نے بلقیس بانو اجتماعی عصمت دری معاملہ میں خصوصی بنچ کی تشکیل کر کے نئے سرے سے شنوائی کا فیصلہ کیا ہے ۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ ، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس جے بی پارڈی والا کی بنچ نے بلقیس بانو کو یہ یقین دلایا ہے کہ اس کی فریاد سنی جائے گی ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا خیر مقدم ہے ۔ خیر مقدم اس لیے ضروری ہے کہ یہ معاملہ صرف ایک مجبور اور بے بس عورت کی اجتماعی عصمت دری اور اس کی بیٹی اور گھر کی عورتوں کے قتل کے گیارہ مجرموں کو رہا کرنے ہی کا نہیں ہے ، معاملہ اس ملک کے ایک مخصوص فرقے کو ، جسے مسلمان کہا جاتا ہے ، ذلیل کرنے اور یہ باور کرانے کا ہے کہ ’ اس ملک میں تمہارے ساتھ چاہے جو کیا جائے ، تمہارا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے ، عدلیہ بھی نہیں ۔‘ عدلیہ پر کوئی تنقید یا نکتہ چینی نہ کرتے ہوئے یہاں اتنا کہنا ہے کہ کبھی کبھی یہ لگنے لگتا تھا ، یا لگنے لگتا ہے کہ ، واقعی عدلیہ نے مسلم فرقے کو نظرانداز کردیا ہے ! بلقیس بانو کے معاملہ میں ’ انصاف ‘ کی امید کچھ اس وجہ سے بھی نہیں تھی کہ جن گیارہ مجرموں کو رہا کیا گیا ہے ان کے پیچھے بی جے پی کھڑی ہوئی ہے ، گجرات کی حکومت کی پشت پناہی انہیں حاصل ہے ۔ اور عدلیہ کا رویہ ادھر کچھ برسوں سے بھاجپائیوں کے لیے نرم نظر آ رہا ہے ۔ رویہ ، رافیل معاملہ سے لے کر پیگاسس معاملہ تک ، مودی حکومت کو بچانے کا رہا ہے ، یا یہ کہہ لیں کہ مودی حکومت کی خواہشات کی تکمیل کرنے والے فیصلے کرنے کا رہا ہے ، اس کی ایک بہت واضح مثال ’ رام جنم بھومی ، بابری مسجد کی ملکیت ‘ کا فیصلہ ہے ۔ لیکن اس سب کے باوجود عدلیہ کا ضمیر جب جاگتا ہے یا جب کوئی باضمیر جج انصاف کی کرسی پر بیٹھتا ہے ، تو ایسے فیصلے سامنے آتے ہیں جو حکومت کی منشا کے بالکل خلاف ہوتے ہیں ۔ ان دنوں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کچھ اسی طرح کے فیصلے کر رہے ہیں ۔ اور یہ بلقیس بانو معاملہ میں خصوصی بنچ کی تشکیل کا فیصلہ ایک ایسا ہی فیصلہ ہے ۔ بلقیس بانو عصمت دری کیس کوئی عام کیس نہیں ہے ، اور نہ ہی بلقیس بانو کے مجرم عام مجرم ہیں ، لیکن عجب بات ہے کہ جو زانی ہیں ، ریپسٹ ہیں ، قاتل ہیں ، اور مذہب کی بنیاد پر ایک حاملہ خاتون کے ساتھ بدترین فعل ، اور اس کی تین سال کی بیٹی کو ، پتھر پر جیسے کپڑا پٹکا جاتا ہے ، اس طرح پٹک پٹک کر قتل کرنے ، اور پیٹ سے جنین نکال کر ترشولوں پر اچھالنے کے مجرم ہیں ’ اچھے چال چلن ‘ کی سند پا کر رہا ہو گیے ہیں ۔ انہیں سند ہی نہیں ملی ہے ، جیل کی سلاخوں سے باہر آنےپر انہیں ہار اور پھول سے لادا گیا ہے ، مٹھائیاں کھا کر اور کھلا کر خوشیاں منائی گئی ہیں ! بلقیس بانو کو ایک لمبی اذیت سے گذرنے اور طویل مدت کی قانونی لڑائی لڑنے کے بعد انصاف ملا تھا ۔ یہ گیارہ مجرم جو ’ اچھے چال چلن ‘ کی سند پا کر رہا ہوئے ہیں گجرات ۲۰۰۲ء کے فسادات کے خوف ناک کردار ہیں ، ایسے کردار جن کا بلقیس بانو کی دنیا کو اجاڑنے میں گھناؤنا ہاتھ ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ ۱۵، اگست کے روز ، آزادی کے امرت مہوتسو پر ، گجرات کی سرکار نے بلقیس بانو کے مجرموں کو ’ اچھے چال چلن ‘ کی سند دے کر رہا کر دیا تھا ، لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ فیصلہ گجرات سرکار کا تنہا لیا گیا فیصلہ نہیں تھا ، اسے مرکزی وزارتِ داخلہ کی اجازت یا منظوری حاصل تھی ۔ آسان لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ گجرات کی حکومت نے مرکزی حکومت کی مرضی سے بلقیس بانو کے مجرموں کو رہا کیا تھا ۔ ۱۵، اگست سے لے کر ۱۸، اکتوبر تک مرکزی سرکار اپنے ہونٹ سیئے ہوئے تھی ، بلقیس بانو معاملہ میں اس کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا ، اور نہ ہی اس معاملہ میں اس کا ہاتھ ظاہر ہوا تھا ، لیکن جب بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی کے خلاف ، سپریم کورٹ میں ترنمول کانگریس کی رکن راجیہ سبھا مہوا موئترا ، سی پی ایم کی شبھاسنی علی ، سماج سیویکا ووکھین ورما اور سرفروشی فاؤنڈیشن سے وابستہ و گجرات فسادات پر آنکھیں کھولنے والی کتاب ’ اناٹومی آف ہیٹ ‘ کی مصنفہ ریوتی لال کی درخواست پر شنوائی ہوئی تو پتہ چلا کہ مرکزی وزارتِ داخلہ ، مطلب مرکز کی نریندر مودی کی سرکار ، ان مجرموں کی رہائی کے پیچھے تھی ! گجرات حکومت نے اور خود مرکزی سرکار کی طرف سے اس کے ایک افسر نے ، سپریم کورٹ میں جو حلف نامے داخل کیے ، ان سے جہاں مرکزی حکومت کا کردار سامنے آیا ، وہیں اِ ن مجرموں کے ’ اچھے چال چلن ‘ کا سچ بھی جگ ظاہر ہوگیا ، اور اس سوال کا جواب بھی سامنے آ گیا کہ کیا یہ واقعی میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے ؟ نہ ہی ان کا ’ چال چلن اچھا ‘ تھا اور نہ ہی یہ سب جیل میں تھے ، ان میں سے اکثر ’ پیرول ‘ پر باہر تھے ، اور مستقل پیرول پاتے رہتے تھے ۔انہیں رہا کرنے کے بعد گجرات اسمبلی کے الیکشن میں ان کا سیاسی استعمال کیا گیا ، یہ بات سب جانتے ہیں ۔ بہرحال اب سپریم کورٹ نے خصوصی بنچ بنا کر اس معاملہ کی پھر سے شنوائی کا فیصلہ کیا ہے ، لہٰذا امید رکھنی چاہیے کہ بلقیس بانو کو انصاف ملےگا ۔ اور مجرم پھر اندر جائیں گے ۔
اس فیصلے کا خیر مقدم ہے !- شکیل رشید
previous post