پروفیسرتوقیراحمدخاں
سابق صدرشعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی
یہ’بانگ درا‘ کی نظم ہے جو کتاب کے حصہ سوم میں شامل ہے۔ اس نظم میں حق اور باطل کے فرق کو واضح کیاگیاہے اور بتایاگیا ہے کہ حق،باطن اور پوشیدہ ہے ہمیشہ رہنے والا ہے جب کہ باطل ظاہر اورموجودتوہے مگر فناہونے والا ہے اس نظم میں پانچ تلمیحات ہیں۔
اوّل یہ کہ یہ شعر ایران کے شاعر رضی دانش مشہدی کے شعرپر تضمین ہے۔ یہ ایران کے شہرمشہد کا رہنے والاتھا۔
’عہد شاہجہانی میں اپنے باپ کے ساتھ ہندوستان آیا۔ بادشاہ کی خدمت میں ایک قصیدہ لکھ کر پیش کیا، جس کا مطلع تھا:
بخواں بلند کہ تفسیر آیۂ کرم است
خطے کہ از کفِ مبارکش پیداست
شاہجہاں نے خوش ہوکر دوہزار روپے کاانعام دیا۔ کچھ عرصہ بعد بادشاہ کو چھوڑ کر اس نے داراشکوہ کی ملازمت اختیارکرلی۔ اس عقل مند شہزادہ نے اس کوایک شعر پرایک لاکھ روپے انعام دیا:
تاک را سرسبز کن اے ابر نیساں در بہار
قطرئہ تامی تواند شد چرا گوہر شود ‘
(یوسف سلیم چشتی، شرح بانگ درا، ص635)
دوم:کلیم طور یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام انھوں نے کوہِ طور پرتجلی خداوندی کا نظارہ کیا تھا۔ وادیٔ سینا وہ پہاڑی خطہ ہے جہاں کوہِ طور واقع ہے۔ وادیٔ سینا کے اس پہاڑ کو طورِ سینا بھی کہتے ہیں۔
سوم:آتش نمرود، نمرود بادشاہ تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیاتھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلاکر ختم کردینے کے لیے بہت بڑا الاؤ لگایاتھا لیکن اللہ کے حکم سے آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کوجلانہ سکی اور ان کے لیے ٹھنڈی اورسلامتی والی ہوگئی۔
چہارم:ایمان خلیل، حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسا کامل یقین انھوں نے اللہ کی رضا کی خاطر گھربار چھوڑا۔ لخت جگر حضرت اسماعیل کو قربان کیا اور خود انھیں آگ میں ڈالا گیا۔ لیکن بحکم ایزد ان کوکسی قسم کا نقصان نہ پہنچا۔ یہ ایمان خلیل ہے۔
پانچویں: وادیٔ فاراں، یہ وہ وادیٔ بے آب و گیاہ ہے جہاں حضرت ابراہیم نے اپنے شیرخواربچے اوربیوی حضرت ہاجرہ کو تن تنہاچھوڑدیاتھا۔ وہ پانی کی تلاش میں صفا و مروہ پر دوڑتی تھیں آخرکار ایک دن ساراسامان خوردونوش ختم ہوگیا تو پیاس کی شدت سے بچہ حضرت اسماعیل نے تڑپ کر زمین پرایڑیاں رگڑدیں جن کی رگڑ سے اللہ تعالیٰ نے میٹھے پانی کاچشمہ جاری کردیا اس کو حضرت ہاجرہ نے انگلی سے گھیرابناکر روک دیا اور کہا زم زم تھم جا تھم جا وہ آب زم آج تک جاری وساری ہے۔
نظم کا مطلب یہ ہے کہ ایک دن اقبال نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ آتشِ کفریعنی نمرود کی آگ تو آج بھی ہرجگہ موجود ہے اورخوب تیزی سے بھڑک رہی ہے لیکن تونے جو تجلی خداوندی کی روشنی دیکھی تھی وہ نور اور اس کی جلن کیوں آنکھوں سے پنہاں ہوگئے۔ توحضرت موسیٰ نے جواب دیا کہ تو اگر مسلم ہے تو غائب کوچھوڑ کر ظاہر پرستی اور حاضرکاشیدائی نہ بن۔ اوراگر تجھ کو حاضر و موجودات کاذوق ہے توپھر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے حضرت ابراہیمؑ جیساایمان بھی پیدا کر۔ ورنہ حاضروموجود کی آگ تجھے جلاکر راکھ کردے گی۔ اوراگر توغائب کادیوانہ ہے تو شریعت کی پابندی کراور ظاہری شعلوں کی کچھ پرواہ نہ کر اوروادیٔ فاران میں حضرت ہاجرہ کی طرح خیمہ گاڑدے اور رحمت ِخداوندی کا انتظار کر۔ کیوں کہ ظاہرداری اورحاضر کی شان وشوکت عارضی ہے یہ اہل کفر کی علامات میں سے ہے وہی بت گرامی وبت پرستی کرتے ہیں، حاضر وموجود کی عبادت کرتے ہیں۔ اور غائب یعنی جو نگاہوں سے پوشیدہ ہے وہ ذات خداوندی ہے۔ حق و صداقت ہے وہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے اور اس حقیقت کوراہِ محبت میں ایسا تعلق ہے جیسا جان اور تن کا ربط یعنی محبت سے یہ یقین اور کامل ہوجاتاہے کہ روح باقی رہنے والی شئے ہے نورانی وبراقی ہے اورجسم ختم ہونے والا ہے یعنی حاضر اورظاہر ہے مٹی کے اصنام کی طرح۔ تواے اقبال توظاہر وباطل کو چھوڑ کر باطن اور غائب پرایمان لا۔ شعلہ نمرود اگر دنیا میں بھڑک رہاہے تواس کی کچھ پروا نہ کر کیوں کہ وہ ایک دن خود بخود ٹھنڈا ہوجائے گا جس طرح شمع انجمن میں اپنے آپ کو جلاتی تو ہے لیکن رفتہ رفتہ اپنے وجود کوختم کردیتی ہے اس لیے ہمارانور چقماق پتھر کی طرح نظروں سے پوشیدہ ہی رہنے میںبہترہے۔ یعنی ایمان بالغیب ہی میں عافیت ہے وہی اصل شئے ہے جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایاہے :’ہدی للمتقین الذین یومنون بالغیب ویقیمون الصَّلوٰۃ وممارزقنھم ینفقون۔‘گویا ہدایت ان کے لیے جو غائب پرایمان لاتے ہیںنماز ادا کرتے اور جو کچھ اللہ نے دیاہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
اقبال ایک ایساحیران کن شاعر ہے کہ شعرائے عالم کے برخلاف ان کے یہاں دو متضاد قوتیں یا دھاریں (Streams)ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ مثلاً خدا اور شیطان، حب الوطنی وقوم پرستی، فرداورملت، ذات اورجماعت، عمل اور سکون، خلوت اور جلوت، کفر اور ایمان، مومن وکافر، تقدیر اورتدبیر، جسم اور روح،ظاہر اورباطن وغیرہ کلام اقبال سے ان میں سے ایک ایک کا تجزیہ کرناچاہیں گے تومحسوس ہوگا کہ اقبال ہرایک کی تعریف میں ثنا خوں ہیں۔ بالکل اسی طرح اقبال جس طرح سے جسمانی طاقت، جہدوعمل اور ظاہری قوت کے طرف دارہیں اسی طرح وہ روحانی قدرت، باطنی خصوصیات اورکشف و کرامات کے بھی مبلغ ہیں۔ وہ بار بار یادلاتے ہیں کہ مسلمان کاجسم تو باقی ہے مگراس کی روح نکل چکی ہے۔ روحانی مراتب کے لیے ان کے یہاں تصوف کے مراتب کی طرح ولی، ابدال اور قطب وغیرہ کی مانند مسلمان کی ہیئت کے لیے مومن، مردمومن، فقیر اور درویش یا قلندر کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ مسلمان یعنی خدا کا نائب یافی الارض خلیفہ بننے کے لیے پہلا درجہ مومن کا ہے۔ مومن یا مسلمان کون ہے اس کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
پھربتاتے ہیں کہ مومن کون ہے اورکون شخص مومن کہلانے کا مستحق ہے:
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان
گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان
ہمسایۂ جبریل امیں بندئہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان قیامت میں بھی میزان
مومن کے معنی امن والا یا insuredکے ہیں وہ اللہ کے دین حق کی خدمت واشاعت کے لیے وقف ہے۔ وہ غارت گرباطل ہے اور تھا مگر اب وہ جذبہ ناپید ہے:
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ
وہ سجدہ روح زمیں جس سے کانپ جاتی تھی
اسی کو آج ترستے ہیں منبر و محراب
اس جذبہ قلندرانہ اورروحانی تعلق سے وہ آج عاری ہوچکاہے۔
محبت کا جنوں باقی نہیں ہے
مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے
صفیں کج دل پریشاں سجدہ بے ذوق
کہ جذب اندروں باقی نہیں ہے
ایمان کی صفت اختیار کرنے کے بعد اگلاقدم فقر کاہے یعنی مومن فقیر کے مرتبہ کو پہنچتا ہے۔ فقرکیاہے اس کی تعریف کرتے ہوئے سمجھاتے ہیں:
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہاں گیری
اک فقرہ سے مٹی قوموں میں مسکینی و دل گیری
اک فقر سے مٹّی میں خاصیتِ اکسیری
اک فقر ہے شبّیری اس فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی سرمایۂ شبّیری
کمال ترک نہیں آب و گل سے مہجوری
کمال ترک ہے تسخیر و نوری
میں اسے فقر سے اے اہل حلقہ باز آیا
تمہارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری
جب مومن فقر کی حقیقت سے آگاہ ہوجاتاہے تواس کی نگاہوں میں اسرار جہاں گیری یعنی پوشیدہ رازنمایاں ہوجاتے ہیںاور وہ اس فقر کی بدولت صفات جہاں گیری کا حامل ہوجاتاہے:
یہ فقر مرد مسلماں نے کھو دیا جب سے
رہی نہ دولت سلمانی و سلیمانی
نہ مومن ہے نہ مومن کی اسیری
رہا صوفی گئی روشن ضمیری
خدا سے پھر وہی قلب و نظر مانگ
نہیں ممکن امیری بے فقیری
یہ ذکر نیم شبی یہ مراقبے یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
خرد نے کہہ بھی لاالٰہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
l اقبال کی شاعری میں شاہین کی علامت بہت زیادہ استعمال ہوئی ہے۔ علی گڑھ میں فلسفہ کے پروفیسر ظفراحمد صدیقی کے نام ایک خط میں انھوں نے بتایا کہ شاہین کااستعارہ محض شاعرانہ نہیں ہے بلکہ اس جانور میں اسلامی فقر کی تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اوّل یہ کہ ’خودداراورغیرت مندہے اور ماراہواشکار نہیں کھاتا۔‘ مرد مومن بھی مالِ حرام کو نہیں چھوتا محنت سے کماتاہے اور پھرکھاتاہے۔
l دوم یہ کہ ’خلوت پسندہے۔‘ اللہ والے بھی تنہائی میں بیٹھ کر یادِالٰہی کاذکر کرتے ہیں۔
l سوم یہ کہ ’تیزنگاہ ہے‘ مردمومن کی نگاہ بھی تیزہوتی ہے بعیداز فہم چیزوں کو بھی دیکھ لیتا ہے۔
l چہارم یہ کہ ’بلندپرواز ہے‘ مردمومن کی پرواز بھی بلند ہے۔ اس کی فہم و فراست آسمانوں پر کمندڈالتی ہے۔ کائنات کاکوئی کونہ اس کی پہنچ سے باہرنہیں۔
l اورپانچویں یہ کہ ’وہ بے تعلق ہے آشیانہ نہیں بناتا‘ اس طرح مرد مومن بھی دنیا میں رہنے کے لیے نہیں آیا اس کا ٹھکانہ چرخ نیل فام سے بھی اوپرہے:
پرے ہے چرخ نیل فام سے منزل مسلماں کی
یہ صوفی یافقیر یہ درجہ دوم تھا۔ اس کے بعد مسلمانیت کی آخری منزل آتی ہے جس میں مومن کائنات میں نہیں بلکہ مومن میں کائنات نظرآتی ہے۔ جب بندہ دوعالم سے بے نیاز ہوجاتاہے تویہ دنیااس کی ٹھوکروں میں آن گرتی ہے:
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
جب مومن الٰہیانہ صفات کا حامل ہوجاتاہے تو کائنات اس کے اشارہ پرچلنے لگتی ہے۔ اقبال نے اسرارخودی میں بوعلی شاہ قلندر کے ایک مرید کا قصہ رقم کیا ہے کہ ان کاایک مرید دہلی گھومنے آیا اورنیچے سرجھکائے مراقبہ کے عالم میں چلاجارہاتھا یہاں بادشاہ کی سواری نکل رہی تھی۔ چوب دار نے آواز دی کہ راستہ چھوڑ دو سواری نکل رہی ہے۔ وہ نہ سمجھا کہ کیسی سواری ۔ اس پرچوب دار نے اس کے سر پر ڈنڈا ماراجس سے اس کا سر پھوٹ گیاخون بہہ نکلا وہ خون بہتاسرلے کر الٹے پاؤں اپنے پیر کے پاس پہنچا اور پھوٹا ہوا سر ان کی گود میں رکھ دیا۔ قلندر کوجلال آگیا اورکہا کہ بادشاہ کاتختہ پلٹ دیاجائے گا۔ یہ خبردہلی پہنچی تو بادشاہ اجلاس میں تھا۔ تھرتھر کانپنے لگا اور چہرہ زرد پڑگیا۔ پھر اُس نے قرآن پڑھنے کو کہا توقاری نے ألابذکراللّٰہ تطمئن القلوب پڑھی۔ اس بادشاہ کوذراہوش آیا تو انھوں نے امیر خسرو کومعافی نامہ لے کر پانی پت بھیجا اور اس طرح اس کی خطامعاف ہوئی۔
نہ تاج و تخت میں نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
جب مردمومن درویشی یا قلندری کے درجہ کوپہنچ جاتاہے تواس کی رضارضائے الٰہی میں شامل ہوجاتی ہے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ اپناسارا اثاثہ حضورِ رسالت مآبؐ میں لے آئے تو وحی نازل ہوئی کہ پوچھو ہمارابندہ کیاچاہتاہے۔ اقبال نے لکھاہے:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ وہ مقام اورمرتبہ ہے کہ مٹی کے بسترپرلیٹنے والاروزوشب کی گردش کوتبدیل کردیتا ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علیؓ سے ٹیک لگاکر سوگئے عصر کا وقت تھا سورج غروب ہوگیا۔ حضرت علیؓ کے آنسو ٹپکے تورسول خدا نے پوچھا کیاہوا تو انھوں نے بتایا کہ عصر کی نماز نہیں پڑھی اور سورج غروب ہوگیاتو رسولِ خدا نے دعاکی کہ اے اللہ اس کی نماز اداہوجائے عصرکاوقت دوبارہ پیداکرتوسورج مغرب سے دوبارہ واپس آگیا اورعصرکا وقت ہوگیا پھرحضرت علیؓ نے نمازادا کی:
مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
علامہ اقبال کہتے ہیں:
یقیں پیدا کر اے غافل یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کو خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسماں کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی
¡¡