Home ستاروں کےدرمیاں اقبال کا "مردِ بزرگ "-نایاب حسن

اقبال کا "مردِ بزرگ "-نایاب حسن

by قندیل

بعض شخصیتیں اتنی قدآوراوراپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے اِس قدر وسیع الجہات ہوتی ہیں کہ زمانے کی نگاہیں ہزار کوششوں اور دعووں کے باوجودان کے اصل مقام و مرتبے کاصحیح اندازہ نہیں لگاپاتیں،یہ الگ بات ہے کہ احوال،اوقات اورمقامات کے حسبِ حال ان کی کوئی ایک صلاحیت زیادہ نکھر کر سامنے آجاتی اور اسی کے حوالے سے معاصرین میں اُن کی شناخت کی جاتی ہے،اسلامی تاریخ میں کئی ایسی شخصیتیں ہیں،جنھیں بعض خاص علمی یاعملی شعبوں میں نمایاں کارنامے انجام دینے کی وجہ سے اُن ہی شعبوں کے ساتھ خاص کردیا گیا ؛حالاں کہ ان کے علوم و افکارواعمال کی بے کرانی وہمہ جہتی اس سے کہیں زیادہ کی متقاضی تھی۔

ہندوستان کی علمی،فکری وسیاسی تاریخ میں شیخ الہند مولانامحمود حسن کی ذات ایسی ہی ہمہ جہت تھی۔وہ دیوبند کے اصل باشندے تھے اور وہاں قائم ہونے والے دارالعلوم کے اولین طالب علموں میں سے بھی تھے،اُن کی پیدا یش 1851ء کوبریلی میں ہوئی تھی،جہاں اُن کے والد مولانا ذوالفقار علیؒ ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولس کے عہدے پر فائز تھے ،مولاناذوالفقارخودبھی ایک جیدالاستعدادعالم، عربی کے ماہر ادیب اوردارالعلوم دیوبندکے ان "ارکانِ ستہ "میں سےتھے، جنھوں نے اس ادارے کااولین خاکہ بنایا،پھراس میں رنگ بھراتھاـ

شیخ الہندنے 1874ء میں دارالعلوم دیوبند سے سندِ فضیلت حاصل کی اور اُن کی وفات 30؍نومبر1920ء کوہوئی،اُن کی کل زندگی ایکہتر،بہتر سالوں کومحیط ہے اورعملی زندگی تقریباً نصف صدی کو، اِس پورے عرصے میں اُنھوں نے اتنے اور ایسے ایسے کارنامے انجام دیے کہ اُن میں سے ہر ایک کومستقل ریسرچ کا موضوع اور تحقیق کا عنوان بنایاجاسکتا ہے، اولاً وہ اپنی مادرِ علمی کے مدرس اور پھرصدر المدرسین و شیخ الحدیث بنائے گئے اور اِس عہدے پر رہتے ہوئے اُنھوں نے باکمال اصحابِ علم و فضل کی ایسی کھیپ تیار کی کہ اُس کا فردفرداپنی ذات میں انجمن ثابت ہوا،اُن کے علمی فیضانات سے سیراب ہونے والے علامہ انورشاہ کشمیریؒ ،حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ ،امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھیؒ ،علامہ شبیر احمد عثمانیؒ ،شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ ،سلطان القلم مولانا سید مناظراحسن گیلانیؒ اوراُن جیسے سیکڑوں ایسے نام ہیں،جن کی تابانیِ فکر، تعمقِ نظراورمثالی جہدوعمل نے اسلامیانِ ہندمیں علمی، فکری وعملی سطح پرحرکیت و فعالیت کی روح پھونکی۔شیخ الہند ایک باکمال مصنف بھی تھے اور گواُن کی سرگرمیوں کی وسعت نے ان کے قلم کو خاطر خواہ جولانیوں کا موقع نہیں دیا،مگر اِس کے باوجود اُنھوں نے جو لکھا،وہ نقش کالحجر تھا،اُن کی تحریریں پڑھیے،تووہ ماضیِ مرحوم کے اُن محققین کی یاد دلاتی ہیں،جن سے اسلامی کتب خانہ ثروت مندہے اور جن پر مسلمانوں کو بجاطورپر فخر ہے، وہ ایک انتہائی متدین عالم ہونے کے ساتھ زمانے سے باخبری کے بھی نہ صرف قائل تھے؛بلکہ اُن کی نگاہ واقعتاً ملکی و عالمی سطح پر بدلتے سیاسی،تہذیبی و تاریخی منظرنامے پربھی تھی،یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے ادارے کی انتظامیہ کی بعض آراسے اختلاف کرتے ہوئے قومی سیاست میں عملی حصے داری کا فیصلہ کیا اورآزادیِ وطن کی تحریک میں سربراہانہ مساہمت کے ساتھ اُس وقت کی واحد اسلامی خلافت(خلافتِ عثمانیہ)کے تحفظ و بقا کی جنگ میں بھی حتی المقدور حصہ لیا،انگریزوں کے خلاف ترکِ موالات کاتاریخی فتوی دیا، جس کی تائیدمتحدہ ہندوستان کے پانچ سو علمانے کی اورمسلمان راست طورپراس تحریک میں شامل ہوئے، جنھوں نے اُن کی صحبت سے فیض اٹھایا اور شب و روز کی زندگی میں اُن کے ساتھ رہے یا اُنھیں قریب سے دیکھا اور پرکھا، اُن کا چشمِ دید بیان ہے کہ مولانا محمود حسن کا جسمانی ڈھانچہ انتہائی نحیف و نزار تھا،مگر اللہ نے اپنے اُس بندے میں عزم،حوصلہ،قوتِ ارادی،خوداعتمادی و ولولولہ خیزی کی ایسی فولاد رکھ دی تھی کہ وہ اپنے معاصرین کے لیے باعثِ صد رشک ہوگئے تھے،گردشِ دوراں کی سنگینیوں اورحوادث وآلام کی موجوں میں صبرواستقامت کاپہاڑبن کرکھڑے رہتے، اِسی طرح اُن کی فکر میں گیرائی کے ساتھ اُن کی نظر میں قدرت نے بھرپور وسعت بھی رکھی تھی،وہ اگرکسی بھی مسئلے پر اپنی رائے کا بر ملا اظہار کرتے تھے،توساتھ ہی اُن کے کسی بھی معاصر(خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا) کی جانب سے اگرکوئی معقول رائے ظاہر کی جاتی،تو نہ صرف اس کی تایید و تحسین کرتے؛ بلکہ اُس پر عمل آوری کی بھی تلقین کرتے تھے،وہ اپنے اَسلاف کے مانندتصوف و سلوک اور حدیث کی تعبیر میں’’ احسان و عبدیت‘‘ کے بھی اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز تھے اوراپنے خدا سے ہم کلامی کے لیے اُن کے پاس جلوت میں خلوت کی کیفیت پیدا کرنا اور اس سے محظوظ ہونا بالکل آسان تھا،عام اَحوال کجا،قید کی تنہائیوں اور مشقت آمیزیوں میں بھی نہ تو اُن کی سحرخیزی کی عادت چھوٹتی تھی اورناہی کلامِ الہی میں غور و تدبر کا وظیفہ،الغرض حضرت شیخ الہند کی ذات واقعتاً ہمہ جہت تھی،اُس کے مختلف اور متنوع گوشے تھے اور ہر گوشہ ایک دوسرے سے انتہائی ممتاز بھی تھا اور مکمل بھی۔شیخ الہندکی ذات میں اقبال کے اُس’’ مردِ بزرگ‘‘ کا پرتوصاف طورپر جھلکتا ہے،جس کے بارے میں اُنھوں نے فرمایا ہے:

اُس کی نفرت بھی عمیق،اُس کی محبت بھی عمیق

قہربھی اُس کا ہے اللہ کے بندوں پہ شفیق

پرورش پاتا ہے تقلید کی تاریکی میں

ہے مگر اُس کی طبیعت کا تقاضا تخلیق

انجمن میں بھی مُیسررہی خلوت اُس کو

شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا،سب کا رفیق

مثلِ خورشیدِ سحر فکر کی تابانی میں

بات میں سادہ و آزادہ،معانی میں دقیق

اُس کا اندازِ نظر اپنے زمانے سے جدا

اُس کے اَحوال سے محرم نہیں پیرانِ طریق

You may also like

Leave a Comment