انتظار نعیم کی خودنوشت ’’ اُجالوں میں سفر : تحریکِ اسلامی کے ساتھ نصف صدی ‘‘ پڑھ کر ، ممبئی کی کئی تصویریں — جو لاشعور میں کہیں جا چھپی تھیں — شعور کے پردے پر ابھر آئیں ۔ لیکن اِن تصویروں کی بات کرنے سے پہلے یہ سوال کہ ، انتظار نعیم کون ہیں ، اور ’ تحریک ‘ سے اُن کی مراد کیا ہے ؟ اس سوال کے پہلے حصے کا جواب آسان بھی ہے اور کچھ مشکل بھی کیونکہ میں اُن سے صرف ایک ہی بار مل سکا ہوں ، جب وہ ہمارے دفتر آئے تھے اور محترم ندیم صدیقی نے اُن سے میرا تعارف کرایا تھا ۔ لیکن جو جان سکا اس کی بنیاد پر کچھ باتیں تو بتا ہی سکتا ہوں ۔ وہ شاعر ہیں ، اُن کا شعری مجموعہ شائع ہو چکا ہے ، ادیب ہیں اور کم از کم ۲۰ کتابیں لکھ اور مرتب کر چکے ہیں ، کچھ کتابیں انگریزی اور ہندی میں بھی ہیں ۔ کتابوں کے موضوعات متنوع ہیں ، مثلاً تحریکی تحریروں کے ساتھ ایمرجنسی کی آزمائشیں اور دلت مسٔلہ ۔ وہ ایک صحافی بھی ہیں کہ ’ پیش رفت ‘ ، ’ ریڈینس ‘ اور ’ مدھر سندیش سنگم ‘ وغیرہ سے تعلق رہا ہے ۔ اور عوامی خدمت گار بھی ہیں ۔ جہاں دیکھتے ہیں کہ لوگ پریشان ہیں پہنچ جاتے ہیں ۔ سیلاب ، زلزلہ اور فرقہ وارانہ فسادات میں خدمتِ خلق کا کام کرتے رہے ہیں ۔ انتظار نعیم کے متعدد شیڈز ہیں ، اِن شیڈز کو آسانی سے سمجھنا قدرے مشکل ہے ۔ لیکن یہ خود نوشت ان کی شخصیت کو تقریباً سامنے لے آتی ہے ۔ اب سوال کے دوسرے حصے پر آتے ہیں ۔ ’ تحریک ‘ سے مراد مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ؒکی ’ جماعتِ اسلامی ‘ سے ، جو ایک ’ اسلامی تحریک ‘ تھی ، اور ہے ، وابستگی ہے ، اس معنیٰ میں انتظار نعیم ’ تحریکی ‘ بھی ہیں ۔ میں ’ تحریک ‘ کا یہی مطلب جانتا ہوں ، ممکن ہے کہ یہ لفظ اور وسیع معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہو ، لیکن مجھے واقفیت نہیں ہے ۔ انتظار نعیم شہر ممبئی ہی کے تھے ، لیکن ۱۹۷۲ء میں دہلی جا بسے ۔ اُن دنوں میں اسکول میں تھا ، اور اُسی اسکول یعنی انجمن اسلام وی ٹی میں ، جو اُن کا مادرِ علمی تھا اور جہاں مرحوم صحافی ہارون رشید اُن کے کلاس فیلو تھے ۔
اب اِس کتاب کی طرف واپس آتے ہیں ۔ کتاب کے مصنف ’ پیش گفتار ‘ میں لکھتے ہیں ، ’’ نصف صدی تحریک کے مرکز سے وابستہ رہ کر مفوضہ جماعتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران دین و ملّت اور ملک و انسانیت کی جو خصوصی خدمت ہو سکی اس میں سے کچھ کی جستہ جستہ جھلکیاں اِس خود نوشت ’ اُجالوں میں سفر ‘ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ طویل تحریکی سفر میں کبھی کبھی ’’ دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں ‘‘ ؎کی کیفیت کا رونما ہوجانا غیر فطری نہ تھا ، لیکن تحریک سے عشق اور احباب سے لگاؤ نے اُن کے ذکر سے گریز کیا ۔‘‘ یہ سچ بھی ہے ۔ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ انتظار نعیم کے یہاں کسی کے لیے کوئی کدورت نہیں ہے ، بس ایک جگہ ایمرجنسی کے دور کا تذکرہ کرتے ہوئے ، تبلیغی جماعت کے تعلق سے چند جملے لکھے ہیں ، لیکن اس میں بھی بس اپنے درد کا اظہار کیا ہے ۔ کتاب کا آغاز ۱۹۶۵ء میں پریل کے علاقے سے ہوتا ہے جہاں اُس وقت بھی مسلمانوں کی قلیل تعداد رہتی تھی اور آج بھی تعداد قلیل ہی ہے ۔ اسی علاقہ میں پہلی بار ، کچھ لٹریچر کے توسط سے ، جماعت اسلامی کا نام اُن کے سامنے آیا ۔ اور پھر مزید لٹریچر کے مطالعے سے اُن کے ’ دل کی دنیا بدل گئی ‘ اور وہ ’ تحریک ‘ سے وابستہ ہو گیے ۔ انتظار نعیم نے اپنے دور کی ممبئی کے کئی کہانیاں سنائی ہیں ، خوشی دینے والی بھی اور غم میں مبتلا کرنے والی بھی ، جیسے کہ ۱۹۷۰ء کے بھیونڈی کے مسلم کش فسادات کی الم ناک روداد ۔ وہ لکھتے ہیں ، ’’ ہم شہر کی معروف شخصیت جناب ابراہیم انصاری کے شہر کے باہر شاہ راہ کے قریب گھنے جنگل میں تعمیر شدہ بنگلے ’ انصاری باغ ‘ کو بھی دیکھنے گیے جو فسادیوں کی دہشت گردی کا شکار ہوا تھا ۔ بنگلہ کے احاطہ میں پناہ کے لیے پہنچے غریب مسلمانوں کے بہائے گیے خون کےنشانات ہر طرف موجود تھے اور پورا احاطہ شرپسندوں کی چھوڑ گئی لاٹھیوں ڈنڈوں وغیرہ سے اٹا پڑا تھا ۔‘‘ ’ انصاری باغ ‘ کے مظلومین کو آج تک انصاف نہیں ملا ہے ، جیسے کہ ملک بھر میں ہونے والے فسادات کے مظلومین کو نہیں مل سکا ہے ۔ اس فساد سے پہلے ۱۹۶۹ ء میں احمد آباد میں مسلم کش فساد ہوا تھا ، اس موقع پر انھیں جماعت کی رکنیت دی گئی تھی ۔ انتظار نعیم نے شیو سینا کے دفتر جانے کا یادگار واقعہ بھی لکھا ہے ، جس میں وہ اپنی بات شیوسینا کے لیڈران کے سامنے اِس طرح رکھنے میں کامیاب تھے کہ وہ اِن کی باتوں سے متفق ہو گیے تھے ۔ ۱۹۷۱ ء کی اُس جنگ کا بھی ذکر ہے جس نے بنگلہ دیش کو وجود دیا تھا ، اس وقت شہر میں مسلمان مشکوک تھے ، ہندو مسلم تعلقات کشیدہ ہو گیے تھے ، لیکن اُس زمانے کی ممبئی کچھ الگ تھی ۔ وہ لکھتے ہیں کہ پریل کے علاقہ میں اپنی دکان پر بیٹھے تھے کہ ہندو اکژیتی علاقہ لال باغ کے جس نائک خاندان سے نہایت قریبی روابط تھے اُس کے سربراہ مسٹر نائک دکان پر آئے اور بس اتنا کہا کہ ’ تم میرے گھر نہیں آنا ‘ اور فوراً چلے گیے ۔ انتظار نعیم حیرت زدہ ، سوچنے لگے کہ کہیں مسٹر نائک بھی ماحول سے متاثر تو نہیں ہو گیے ، اور دوسرے دن اُن کے گھر جا پہنچے ۔ انھیں دکیھ کر مسٹر نائک شفقت سے مسکرائے اور کہنے لگے کہ اس ماحول میں اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو ہم سب کو بڑا رنج ہوتا ۔ حمید دلوائی سے ، جو ملحد تھا اور مسلمانوں کے خلاف مشن چلائے ہوئے تھا ، مڈبھیڑ کا واقعہ بھی اس دور کی کہانیوں میں سے ایک کہانی ہے ۔ دلوائی کو مرنے کے بعد جلایا گیا تھا ، یہ اس کی وصیت تھی ۔ کئی اخبارات اور کئی صحافیوں کا تذکرہ ہے ، اُن میں کچھ ایسے ہیں جن سے میری ملاقات ہوئی ہے ، لیکن اکثر نام اُن صحافی حضرات کے ہیں جن سے میں اس لیے نہیں مل سکا کہ یا تو میری اُن تک رسائی نہیں ہو سکی یا وہ اللہ کو پیارے ہو گیے ۔ اللہ مرحومین کی مغفرت کرے ، آمین ۔
صاحبِ کتاب ۱۹۷۲ ء میں نئی دہلی پہنچے ، اور جماعت کے مرکز میں مختلف ذمہ داریاں نبھائیں ۔ اس خود نوشت کا ایک بڑا حصہ ان خدمات کے ذکر پر مشتمل ہے ، اسی لیے کتاب کا ضمنی عنوان ’ تحریکِ اسلامی کے ساتھ نصف صدی ‘ ہے ۔ مولانا محمد یوسف صاحب ، شاہی امام مولانا سید عبداللہ بخاری اور مختلف شخصیات کا ذکر بڑی محبت سے کیا گیا ہے ۔ چونکہ ’ ادارۂ ادب اسلامی ہند ‘ سے وابستگی تھی اس لیے ادبی محفلیں بھی سجتی تھیں ۔ خود نوشت میں ۱۹۷۵ء میں جامع مسجد دہلی میں پولیس فائرنگ کا تذکرہ ہے ، شیخ عبداللہ ، مرارجی دیسائی اور دیگر اہم شخصیات کے مرکز میں آنے کا تذکرہ ہے ، آر ایس ایس کے سربراہ سدرشن سے جماعت اسلامی کے اکابر کی قربت اور قربت کی وجوہ پر بات ہے ، اور ’ ایمر جنسی کے سیاہ دور ‘ کا ، قدرے تفصیلی ذکر ہے ۔ وہ دو ڈھائی سال ( ۱۹۷۵-۱۹۷۷) گرفتاریوں کا دور تھا ، اندراگاندھی نے ملک بھر پر ایک خوف کا ماحول طاری کر دیا تھا اور جماعتوں ، تنظیموں ، سیاسی پارٹیوں پر کریک ڈاؤن شروع تھا ، جماعت اسلامی کے کئی رہنما گرفتار کر لیے گیے تھے ، گرفتار شدگان میں آر ایس ایس کے لیڈران بھی تھے ، اور جیلوں میں ان کے بیچ مذاکرہ ہوتا رہتا تھا ، جس کے سبب مختلف غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا، اور جب سنگھ کے سربراہ بالا صاحب دیورس جیل سے چھوٹ کر دہلی آئے تب ان کے استقبال کے موقع پر جماعت اسلامی کے ذمہ داران کو بھی دعوت دی گئی ۔ اس کا ایک سبب جماعت کے ذمہ داران کا اعلیٰ اخلاق اور کردار تھا ۔ کاش یہ ’ رشتہ ‘ برقرار رہتا ۔ انتظار نعیم نے مولانا مودودی ؒ کی رحلت پر پاکستان جانے اور جلوسِ جنازہ میں شرکت کرنے کا بڑا جذباتی نقشہ کھینچا ہے ، وہ لکھتے ہیں ، ’’ ہمارا یہ حال تھا کہ ذرا سا مولانا کو دیکھتے اور ان کے درجات کی بلندی کی دعا کرکے ایک طرف کھڑے ہوجاتے ، پھر چند لمحوں بعد مولانا کی طرف بڑھتے ، غرض کسی کی سیری نہیں ہو رہی تھی ، کسی کا دل نہیں بھر رہا تھا۔ ‘‘
کتاب میں بہار شریف کا فساد ، بھٹو کی پھانسی ، مرادآباد فساد ، میناکشی پورم میں دلتوں کے مسلمان بننے کا واقعہ ، سکھ قتلِ عام ، قادیانیت ، بھاگلپور فساد ، اجودھیا کی دہشت گردی ، گجرات کا ۲۰۰۲ء کا فساد ، ممبئی کے بم بلاسٹ ، ذبیحہ و برقع اور شہریت کےمسٔلہ پر بھی بات کی گئی ہے ۔ اور مختلف غیر ملکوں کے دوروں کی روداد بھی ہے ۔ یہ ایک اچھی کتاب ہے کہ یہ ،بہت کچھ جو لوگ بھول چکے ہیں ، ’ یاد ‘ دلا دیتی ہے ۔ اس کتاب کی ایک بات پر بات کرنا ضروری ہے ، وہ یہ کہ تحریر کہیں ڈائری لگتی ہے ، کہیں مشاہداتی اور تاثراتی ، تفصیل سے بس دو ہی موضوع پر بات کی گئی ہے ایمرجنسی پر اور مولانا مودودیؒ کی رحلت پر ، لہٰذا اِن دو موضوعات کے علاوہ ، پڑھنے والے دیگر موضوعات کو پڑھتے ہوئے تشنگی محسوس کرتے ہیں ۔ پروفیسر ایمریطس عبدالحق کے ’’ تبریک ‘‘ اور معروف صحافی اے یو آصف کے ’’ یہ ذاتی یادداشتیں کیوں؟‘‘ کے عنوان سے تاثرات بھی کتاب میں شامل ہیں ۔ یہ کتاب ۴۲۴ صفحات کی اس کتاب کی قیمت ۵۰۰ روپیہ ہے ۔ اسے شاھکار پبلشرز ، دہلی سے ( موبائل نمر : 9810841086) حاصل کیا جاسکتا ہے ۔