Home تجزیہ انتظامیہ کا ’ہندوتواکرن‘ – سہیل انجم

انتظامیہ کا ’ہندوتواکرن‘ – سہیل انجم

by قندیل

اب یہ بات تقریباً یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ہندوستان کی انتظامیہ کا ہندوتواکرن ہو گیا ہے۔ وہ محکمے جن کو انتظامیہ کہا جاتا ہے مسلم دشمنی میں گلے گلے تک ڈوب گئے ہیں۔ اگر کسی تنازعے میں غیر مسلموں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی ملوث ہیں تو کارروائی مسلمانوں کے خلاف ہی ہوگی۔ یہاں تک کہ مجرموں کے صفائے کی مہم میں بھی فرقہ واریت کا عمل دخل ہوتا ہے۔ یعنی مسلم ’باہوبلیوں‘ کو ختم کر دو اور دوسروں کو چھوڑ دو۔ بالخصوص اترپردیش میں اس کا مشاہدہ کیا جا چکا ہے۔ اگر کسی مسلم لڑکے نے کسی غیر مسلم لڑکی سے شادی کر لی ہے تو بجائے اس کے کہ اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے اس کا مکان بلڈوزر اور جے سی بی مشینوں سے منہدم کر دیا جاتا ہے۔ قانونی کارروائی تو بعد کی بات ہے۔ لیکن اگر کسی غیر مسلم لڑکے نے کسی مسلم لڑکی سے شادی کی ہے تو اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ اگر کہیں کسی نادان مسلمان نے کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے ہندو مذہب کی توہین کا پہلو نکلتا ہو تو یہ کہتے ہوئے فوری طور پر ایف آئی درج کرائی جائے گی کہ ’ہماری بھاؤنائیں آہت ہوئی ہیں‘۔ ایسے معاملات میں گرفتاری میں بھی تاخیر نہیں کی جاتی۔ لیکن اگر کسی غیر مسلم نے اسلام کی توہین کی ہے اور وہ اہانت رسول کا مرتکب ہوا ہے تو پہلے تو پولیس ایف آئی آر درج نہیں کرے گی اور اگر بہت دباؤ کے بعد درج بھی کرے گی تو اہانت کے ملزم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ اسی طرح مظاہرہ کرنے پر بھی مسلمانوں کے خلاف کارروائی ہوگی ہندوؤں کے خلاف نہیں۔

اس کی تازہ ترین مثال رام گری مہاراج کی ہے۔ انھوں نے ناسک ضلع کے شاہ پنچالے گاؤں میں ایک ہندو مذہبی تقریب میں پیغمبر اسلام ؐ کی اہانت کی۔ مسلمانوں کے شدید احتجاج کے بعد ان کے خلاف متعدد ایف آئی آر درج کی گئیں لیکن تادم تحریر ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوا، چہ جائیکہ ان کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے ڈالا جاتا۔ اس گستاخی کے خلاف جب چھترپور مدھیہ پردیش کے مسلمانوں نے پولیس تھانے پر جمع ہو کر کارروائی کا مطالبہ کیا تو پولیس نے کہا کہ یہ مہاراشٹر کا معاملہ ہے وہیں کارروائی ہوگی۔ بہرحال کچھ لوگ مشتعل ہو گئے اور انھوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ کچھ شرپسند بھیڑ میں گھس گئے اور انھوں نے یہ حرکت کی۔ لیکن بجائے اس کے کہ اس معاملے کی تحقیقات کرکے قصورواروں کو پکڑا جاتا اگلے ہی روز پولیس نے ضلعی کانگریس کے سابق نائب صدر حاجی شہزاد علی کی کروڑوں کی حویلی بلڈوزروں سے مسمار کر دی۔ تین گاڑیوں کو بھی توڑ کر کباڑ میں تبدیل کر دیا گیا۔ حالانکہ پولیس خود ہی یہ کہہ کر شہزاد کو بھیڑ میں لے گئی تھی کہ آپ لوگوں کو سمجھائیں۔ لیکن اگلے روز انتظامیہ کو الہام ہو گیا کہ شہزاد ہی اس تشدد کے ذمہ دار ہیں اور ان کی حویلی غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہے۔ قارئین اس پورے واقعے سے واقف ہیں لہٰذا اس پر زیادہ گفتگو کی گنجائش نہیں ہے۔

پروفیسر اپوروانند ملک کے معروف تجزیہ کار ہیں۔ وہ دہلی یونیورسٹی میں شعبہئ ہندی میں استاد ہیں اور انسانی حقوق کی بحالی کی کوششوں میں بھی سرگرم ہیں۔ انھوں نے انگریزی ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے لیے اپنے کالم میں ایسی کئی مثالیں پیش کی ہیں کہ کس طرح ایک جیسے معاملات میں مسلمانوں کے خلاف کارروائی ہوئی اور ہندوؤں کو چھوڑ دیا گیا۔ انھوں نے سینئر کانگریس رہنما دگ وجے سنگھ کی ایک پریس کانفرنس کا حوالہ دیا جس میں انھوں نے بھنڈ کے ضلع مجسٹریٹ کی ایک ریکارڈنگ سنوائی تھی جس میں وہ یہ کہتے ہوئے سنے جا رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے مکان گرائیں گے ہندوؤں کے نہیں۔ اگر کوئی معاملہ فرقہ وارانہ نوعیت کا ہے تو صرف مسلم ملزمان کے مکانوں کو بلڈوز کریں گے۔ مثال کے طور پر قتل کے ایک کیس میں انتظامیہ نے مسلمان ملزموں کے مکانات منہدم کر دیے لیکن ہندو ملزموں کے مکان منہدم کرنے سے انکار کر دیا۔ اجین میں عصمت دری کے ایک معاملے میں مسلم ملزم کا مکان توڑ دیا گیا لیکن دوسرے ملزم کا نہیں کیونکہ وہ ہندو تھا۔ ڈنڈوری مدھیہ پردیش کے ضلع مجسٹریٹ رتناکر جھا نے گزشتہ سال ایک بیان دیا تھا کہ ایک طالب علم کے اغوا کے ملزم آصف خان کے مکان کو زمین بوس کر دیا گیا۔ اس کی غیر قانونی دکانوں اور مکانوں کو دو دن تک توڑا گیا۔ آصف خان کا قصور یہ تھا کہ اس نے ایک ہندو عورت سے شادی کی تھی۔ عورت کے گھر والوں نے ہنگامہ کیا اور ضلع مجسٹریٹ نے آصف کے والد کا گھر توڑ دیا۔ انھوں نے اس کا فخریہ اعلان بھی کیا اور کہا کہ گاؤں والے چاہتے تھے کہ مکان توڑ دیا جائے اس لیے توڑ دیا گیا۔ چند روز قبل ادے پور میں دو طلبہ میں لڑائی ہوئی۔ مسلم طالب علم نے ہندو ساتھی کو چاقو مار دیا۔ بعد میں اس کی موت ہو گئی۔ انتظامیہ نے اس مکان کو توڑ دیا جس میں مسلم طالب علم کے اہل خانہ رہتے تھے۔ حالانکہ وہ اس کا مکان نہیں تھا بلکہ کرائے کا تھا اور اس میں چار فیملی رہتی تھیں۔ سب بے گھر ہو گئیں۔ اپوروانند لکھتے ہیں کہ ہندوتوا گینگوں اور ہندوتوا ہجوموں کی جانب سے جو جرائم کیے جاتے ہیں وہی جرائم انتظامیہ اور پولیس بھی کرتی ہے۔ اسٹیٹ مشینری کا ہندوتوا کرن گزشتہ دس برسوں کا سب سے خوفناک واقعہ ہے۔ جن کا کام لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے وہی اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ یہ بی جے پی کی پالیسی ہے لیکن انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے بھی یہی سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ ان کے خیال میں ان کارروائیوں کا فیصلہ انتظامیہ کی سطح پر کیا جاتا ہے۔ متعدد معاملات میں وزرائے اعلیٰ نے تحریری حکم نہیں دیا۔ پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے از خود فیصلہ کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اوپر سے آرڈر ہے۔ یہاں ایک بات یہ عرض کر دیں کہ جب شہزاد علی کی عمارت کے انہدام کی شکایت وزیر اعلیٰ ڈاکٹر موہن سنگھ سے کی گئی تو انھوں نے کہا کہ جو بھی خلاف قانون کام کرے گا قانون اس کے دروازے پر جائے گا۔ لیکن انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ قانون کی کس کتاب میں لکھا ہے کہ ماورائے عدالت ایکشن لیا جائے۔ بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب انتظامیہ کی جانب سے نہیں دیے جاتے۔ یہ بھی خوب ہے کہ جوں ہی کسی معاملے میں کسی اہم مسلمان کا نام آتا ہے تو فوراً انکشاف ہو جاتا ہے کہ اس کا مکان غیر قانونی ہے۔ پھر تو نہ اپیل نہ دلیل بس سیدھے فیصلہ۔ بہت سارے لوگوں کا بھی یہ کہنا ہے کہ سرکاری مشینری میں شامل افسران سیاسی آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے غیر قانونی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ لیکن ایک دن آئے گا جب ان کو اپنے کیے کا حسان دینا ہوگا۔

اپوروانند بھی کچھ اسی قسم کا خیال ظاہر کرتے ہیں۔ وہ آخر میں لکھتے ہیں کہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث افسران کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ایک روز معاشرے میں انصاف کا بول بالا ہوگا۔ متاثرین ان تمام افسران کے نام یاد رکھیں جو بلڈوزر کارروائیوں یا انکاونٹروں کے احکامات پر دستخط کرتے ہیں۔ وہ دن جلد آئے گا جب ایسے تمام لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہوگا۔ انصاف کے اصولوں کے مطابق ان کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے گا اور انھیں انفرادی طور پر بھی اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا۔ ان افسران کو بھی جو یو پی ایس سی کا مشکل ترین امتحان پاس کرکے آتے ہیں اور جو اعلیٰ دماغ کے مالک ہیں یہ بات ضرور سمجھ میں آرہی ہوگی۔ بہرحال اس ملک میں بلڈوزر قانون کے نام پر ایک نیا اور خوفناک قانون متعارف کرایا گیا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے سر جاتی ہے کہ سب سے پہلے انھوں نے ہی مسلمانوں کے مکانوں کو توڑنے کے لیے بلڈوزروں کا استعمال کیا تھا۔ دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں انصاف کو اس طرح مفلوج نہیں کیا گیا ہوگا جیسا ہندوستان میں کیا گیا ہے۔ اس معاملے پر عدلیہ کو کارروائی کرنی چاہیے۔ اس کا کام قانون کی رکھوالی کرنا ہے لیکن وہ اس تمام صورت حال کو خاموشی سے دیکھ رہی ہے۔ رویش کمار نے بجا طور پر کہا ہے کہ بلڈوزر جج بن گیا ہے اور عدالتیں چوری ہو گئی ہیں۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like