(برصغیر کے مشہور و معروف محقق و مصنف اور مولانا ابوالکلام آزاد کی حیات و افکار پر درجنوں کتابوں کے مؤلف ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری کا آج اکیاسی سال کی عمر میں کراچی میں انتقال ہوگیا۔انھوں نے برصغیر کی تاریخ،خصوصاً آزادیِ ہند کی تحریک اور اس کے ارکان ،تحریکِ ولی اللہی اور اس کے منتسبین،دارالعلوم دیوبند اور اکابرِ دیوبند پر غیر معمولی تحقیقی کارنامے انجام دیے اور ابوالکلامیات پر تو انھیں اتھارٹی کا درجہ حاصل تھا۔۵؍مارچ ۲۰۱۹کو پاکستان کے اخبار ’روزنامہ ایکسپریس‘ میں ان سے ملاقات اور گفتگو پر مبنی وہاں کے صحافی و قلمکار جناب رضوان طاہر مبین کی ایک معلوماتی تحریر شائع ہوئی تھی۔ ادارہ روزنامہ ایکسپریس اور مضمون نگار کے شکریے کے ساتھ اسے قارئینِ ’قندیل‘ کی نذر کیا جارہا ہے)
عروس البلاد کا حُسن جب اپنے ہی ڈھنگ میں قدیم بستیوں سے اِٹھلاتا ہوا اُس نگری پہنچتا ہے، تو اِس کے رنگ کچھ الگ ہی ہونے لگتے ہیں۔ گرومندر، پٹیل پاڑہ، لسبیلہ، گولی مار، ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد سے آگے چلتے چلے جائیے اور نظارہ کیجیے۔
اُس روز ہماری منزل بھی اسی راستے سے ہو کر ملنا تھی، شہر کے ’جنوب‘ سے سوا گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم ’شمالی کراچی‘ پہنچے۔اب ہمارے سامنے سڑک کے دائیں سمت ’نئی‘ جب کہ بائیں سمت ’شمالی‘ کراچی اپنی بانہیں پھیلائے تھی۔ ہم جیسا شہر کے گنجان ترین حصے سے آنے والا دیکھتا ہے کہ یہاں نیلا گگن بہت دور تلک نگاہوں کا ساتھ دیتا ہے۔
جلد ہی ہمارے قدم مطلوبہ پتے کے مطابق اِس شاہ راہ سے ایک گلی کو مُڑ گئے۔ یہ گلی دراصل اپنے دائیں بائیں نکلتی ہوئی گلیوں کے لیے ایک ’سڑک‘ تھی۔سو ہم بھی کچھ دیر بعد ایسی ہی ایک گلی میں داخل ہوئے۔ جہاں کچھ مکانوں کے صحن اب بھی اِکا دُکا درختوں کو اپنا مکین کیے ہوئے تھے۔ سو وہ جھوم جھوم کے ہماری طبیعت کو شاداں کرتے۔ ایک بادام کے پیڑ کے بچھے ہوئے بڑے بڑے سرخی مائل زرد پتے خبر دیتے تھے کہ بہار ابھی اپنے جوبن پر نہیں آسکی۔ مگر اسی ’بادام کے پیڑ والی گلی‘ میں ہم نے علم وتحقیق کے ایک ’گھنے شجر‘ کی چھاؤں کو اپنی تقدیر میں پا لیا۔
سادہ سے گھروں کے بیچ یہ مسکن اُن کی ہستی کے طفیل عظیم تر ہے۔ اگر اُن سے واقف نہ ہوں، تو یہ بھی ایک عام سا مکان دکھائی دے، لیکن اگر خبر ہو تو اِسے علمیت کا ’دولت کدہ‘ جانیے۔ جہاں ہمارے مہمان گاہ میں بیٹھنے کے کچھ لمحوں بعد ہی وہ لاٹھی ٹیکتے ہوئے جلوہ افروز ہو گئے۔ اُن کے نورانی سراپے میں ایک ماہتابیت سی تھی۔ ایسی کہ نگاہ ہٹانا مشکل۔ اس گھڑی یہ لفظ لکھنے والے کا وجود خود پر نازاں تھا، کیوں کہ اس کے سامنے موجودہ عہد کے ممتاز محقق ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری تھے۔
باقاعدہ گفتگو شروع کرنے سے پہلے ہم نے اُن کی ایک کتاب پر اپنے نام کے ساتھ دستخط ثبت کرا لیے، پھر انہوں نے ہمارے اخبار اور انٹرویو کے مقصد سے واقفیت حاصل کی اور فرمایا کہ ’’میں اس لیے الگ تھلگ رہتا تھا کہ یہ (اخبار نویس) جا کر الٹا سیدھا لکھ دیتے تھے۔‘‘
ڈاکٹر ابو سلمان کی یادداشت کی باگ چاہے کتنی ہی چُھوٹی جائے، لیکن شیریں و نستعلیق گفتار کی رکاب میں ذرا بھی لغزش نہیں۔اُن کے جملوں کا آغاز ’’جناب والا‘‘ سے سجتا ہے۔ اُن کے سخن میں پرندوں کی چہچہاہٹ پس منظر میں رَس گھولتی رہتی ہے۔کبھی کسی پھیری والے کی سمع خراش صدا سے یہ چہچہاہٹ پس پَا ہو جاتی۔ ٹین ڈبے والا، کبھی ’گلاس برنی‘ اور کبھی پٹیز والا،لیکن گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ایک صاحب اپنی کتاب پر دیباچہ لکھوانے کے لیے آئے، جس میں مولانا ابوالکلام آزاد سے متعلق کافی بے بنیاد باتیں منسوب تھیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو بالکل خلاف حقیقت باتیں ہیں، یہ اُن کی حیثیت اور مرتبے کے خلاف ہیں۔ اسے شایع نہیں کرنا چاہیے، لیکن انہوں نے وہ کتاب چھاپ دی۔‘ ہم نے اس کتاب یا مصنف کا نام پوچھا، لیکن وہ اِسے بازیافت کرنے میں کام یاب نہ ہو سکے!
ہم نے ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری سے ذاتی زندگی کے سوالات کیے، تو انہوں نے مع سَن معلومات بتانے سے معذوری ظاہر کی اور کوائف دیتے ہوئے کہا ’یہ آپ اس میں سے لکھ لیجیے گا۔ ہجرت سے متعلق بتایا کہ ’’یہاں آنے کے بعد بہت تکالیف میں رہا، یہاں میرے ساتھ دو بڑے اور دو چھوٹے بھائی بھی تھے۔ میں نے قرآن مجید حفظ کر لیا تھا اور ہندوستان میں اپنے خاندان کے ایک ایسے بزرگ سے پڑھا، جو ہمارے بچھڑے ہوئے رشتہ دار تھے۔‘‘
پھر اُن کی گفتگو بھٹکتی ہوئی 1857ء کی جنگ آزادی کی طرف جا نکلی، انہوں نے بتایا کہ اس جنگ میں ان کے بزرگوں نے حصہ لیا، بہت سے افراد بچھڑے اور لاپتا ہوئے۔ عالم یہ تھا کہ بچے ایک ساتھ کھیلتے تھے، ایک دوسرے کے ہاں پڑھنے جاتے تھے، لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ خونی رشتے دار بھی ہیں۔
ابو سلمان شاہ جہاں پوری نے بتایا کہ اُن کے پردادا 1857ء کی جنگ میں شہید ہوئے اور ان کی تدفین ’شاہ جہاں پور‘ کی عید گاہ میں ہوئی۔ وہ اپنے اساتذہ کے باب میں ’جمعیت علمائے ہند‘ سے وابستہ کسی بزرگ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کے خاندان کے لوگ جا رہے ہیں، آپ ہندوستان میں بالکل تنہا رہ جائیں گے۔ میں نے کہا کہ ہم نے آپ کے زیرنگرانی پڑھا، آپ سے محبت کی، ہم آپ کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے، آپ کی خدمت کریں گے۔ جس پر انہوں نے کہا نہیں، تم اپنے والد کے ساتھ چلے جاؤ۔ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ میں دراصل اُن کے دادا کے قبیل سے ہوں۔نہ ہی میں اس رشتے سے آگاہ تھا۔
تعلیم کے حوالے سے ڈاکٹر ابو سلمان بتاتے ہیں کہ انہوں نے وہاں مدرسے کی تعلیم کے ساتھ کسی اسکول میں بھی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔ ہجرت کے بعد کراچی آکر کسی دکان وغیرہ پر بھی کام کیا، پھر سیاست سے دل چسپی لیتے ہوئے ’جمعیت علمائے اسلام‘ کے قریب ہونے کا ذکر کرتے ہیں، کہتے ہیں: لیکن میں بوجوہ اس میں شامل نہیں ہوا۔
ہم نے مولانا ابو الکلام آزاد پر سند سمجھے جانے والے ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کی یادداشت سے مولانا کے بارے میں کچھ یادیں ٹٹولنا چاہیں، تو انہوں نے بس اتنا بتایا کہ ’میں نے انہیں دیکھا، ملا، گفتگو کی، تقریر سنی، اور میرا ان سے تعلق ہندوستان میں ہی پیدا ہو گیا تھا۔‘
اس کے بعد ان کی یادداشت کے پَنّوں میں دسمبر 1986ء میں ان کے کتب خانے کو جلائے جانے کی شبیہیں ابھرنے لگی تھیں کہ جب دہشت گردوں نے علی گڑھ کالونی میں بڑے پیمانے پر مکانات پر حملہ کر کے آگ لگا دی تھی، اس کی زد میں ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کا گھر اور کتب خانہ بھی آیا اور سیکڑوں نادر ونایاب کتب اور تاریخی دستاویزات خاکستر ہوگئیں۔ اُن کی نواسی طیبہ بتاتی ہیں کہ نانا کو اس سانحے کے صدمے میں پہلی بار دل کا دورہ پڑا!
علی گڑھ کالونی پر حملے کے اس واقعے کے لیے وہ ’جنگ‘ کا لفظ برت جاتے ہیں اور ذہن کے پردے سے اس دل دوز سانحے کا کچھ مِٹا مِٹا سا احوال ’پڑھنا‘ شروع کرتے ہیں:
’وہاں سب میری بہت عزت کرتے تھے، میری بات مانتے تھے۔ جب ہمارے گھر میں آگ لگ گئی اور پھر کچھ مشتعل لڑکے آگئے تو میں نے انہیں کہا کہ دیکھو، جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ وہاں کے جو پٹھان ہیں، انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ اس لیے ہم کسی کے ساتھ کچھ غلط فعل نہیں کریں گے، ایک لڑکا چیخ پڑا کہ ہم یہاں سے فلاں کو نکالیں گے۔ ہم نے باور کرایا کہ دیکھو، یہ مدرسہ پورے علاقے کا ہے، یہاں سب اکھٹے ہوتے ہیں، یہ جگہ لوگوں کے ملنے اور ان کی سرفرازی کا ذریعہ ہے۔ ہم نہ کسی کو ماریں گے اور نہ لڑیں گے!‘
’’آپ کے گھر پر حملہ کیوں کیا گیا؟‘‘ ہم نے جاننا چاہا، وہ بولے کہ ’’بس انہوں نے یہ دیکھا کہ ’ہندوستان والے‘ کا ہے، وہ ہمیں جانتے نہیں تھے۔‘‘ وہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو ناپسند کرتے ہیں اور چیئرمین عظیم احمد طارق کو انتہائی شریف قرار دیتے ہیں۔
ابو سلمان کہتے ہیں کہ میں تحقیق میں خود نمائی سے ہمیشہ دور رہا، لیکن اب مرتب کے طور پر تو سرورق پر ہمارا نام ظاہر ہوگیا۔ ’شاہ جہاں پور ، تاریخ عمومی اور جنگ آزادی 1857ء کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے بطور خاص اس بات کا خیال رکھا ہے کہ اس میں جن لوگوں کا ذکر ہے، ان کی آج موجود آل اولاد کو بھی خبر کی جائے کہ ان کے آبا نے اس جدوجہد میں کیا کردار ادا کیا، تاکہ انہیں مسرت ہو۔ بے شمار کاغذات اور دستاویزات کو اس مختصر سی کتاب میں جمع کیا گیا ہے، اب مزید اس سے زیادہ اچھا مواد موجود ہے، ایسی بہت سی شخصیات ہیں، جو لاپتا ہوگئیں یا کہیں اور قتل کی گئیں یا دربدر ہو گئیں۔‘
ڈاکٹر ابو سلمان نے بتایا کہ انہیں ’ہندی‘ کی بھی تھوڑی بہت شد بد ہے، لیکن اُن کا زیادہ تر کام اردو میں ہی رہا۔ یہاں وہ کچھ عرصہ نواب شاہ میں رہے، تو سندھی کے کچھ جملے بولنا سیکھ لیے تھے۔ ہم نے پوچھا کہ مولانا ابو الکلام آزاد نے پاکستان سے متعلق جو کہا تھا، ٹھیک کہا تھا؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُن سے بہت سی غلط باتیں منسوب کر دی جاتی ہیں؟‘ وہ بولے کہ ’’وہ دوسرے قسم کے معاملے تھے، آپ اس کو چھوڑیے، ا للہ بہتر کرے گا!‘‘ ایسا معلوم ہوا کہ اُن کی یادداشت تو ساتھ دے رہی تھی، لیکن انہوں نے دانستہ اس بات کو پوشیدہ رکھا۔ ایک اور موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ ’یہ اخبار میں آنے والی بات نہیں ہے، میں اپنی اولاد اور دوستوں کو بھی ساری باتیں نہیں بتاتا!‘
’’ابو سلمان ہندی‘‘ اور ’’ابو سلمان سندھی‘‘!
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے دیے گئے کوائف کے مطابق وہ 1940ء میں شاہ جہاں پور (روہیل کھنڈ، یوپی) میں محمد حسین خان کے ہاں پیدا ہوئے، اُن کا نام تصدق حسین خان رکھا گیا، لیکن انہوں نے قلمی نام ابو سلمان الہندی اپنایا، یہاں آکر انہوں نے خود کو کئی بار ’ہندی‘ کے بہ جائے ’سندھی‘ بھی لکھا۔ ان کے جد امجد نواب بہادر خان سترہویں صدی کے وسط میں شمال مغربی علاقے سے ’یوپی‘ آئے۔ ڈاکٹر ابو سلمان نے 1951ء میں پاکستان ہجرت کی، لکھنے کا سلسلہ 1957ء میں شروع ہوا، وہاں دینی مدارس میں زیر تعلیم رہے، یہاں آکر 1962ء میں میٹرک، 1968ء میں بی اے اور 1970ء میں ایم اے کیا، جب کہ 1980ء میں پی ایچ ڈی کا مرحلہ طے کیا۔ حامد بدایونی کالج، کراچی میں تدریس پر مامور رہے۔ پاک وہند کی سیاسی تاریخ، تحریک ولی اللہی، جدوجہد کی آزادی کی تحریکات، تنظیمات، شخصیات اور ان تحریکوں کے نشیب وفراز ان کی تحقیق کے خاص میدان ہیں۔ دسمبر 1986ء میں علی گڑھ کالونی میں دہشت گردی کے بدترین واقعے میں ان کے گھر کے سامان کے ساتھ قیمتی مخطوطات، دستاویزات اور کتب جل گئیں۔ یہ قومی اور ملی تحریکات میں ان کے ذاتی ذخیرے میں کم سے کم پاکستان میں سب سے زیادہ قیمتی ذخیرہ قرار دیا جاتا تھا۔
1957 ء تا 1974ء ابو سلمان کے سیکڑوں مضامین مختلف رسائل میں شایع ہوئے اور بعض پرچوں میں فرضی ناموں سے بھی مضامین لکھے۔ ہندوستان میں معارف اعظم گڑھ، برہان (دہلی)، اردو ادب (علی گڑھ)، ہماری زبان (علی گڑھ)، مدینہ (بجنور) الجمعیت (دہلی) سب رس (حیدرآباد، دکن) وغیرہ، جب کہ یہاں ہفت روزہ ’چٹان‘، سہ ماہی اردو، قومی زبان، اردو نامہ، افکار، اخبار اردو ، الفتح، الحق، فنون اور ‘پاکستان ہسٹاریکل جرنل‘ وغیرہ میں لکھتے رہے۔
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کتاب ’غبار خاطر‘ سے ایسے متاثر ہوئے کہ پھر ابو الکلام آزاد کی تحریریں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھیں۔ اُن کی سوانح حیات بہ عنوان ’’امام الہند، تعمیر افکار‘‘ بھی لکھی، جس میں 1912ء تک کی زندگی کا احاطہ ہے۔ 1988ء میں ابو الکلام آزاد کے صد سالہ یوم پیدائش کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے 24 کتب پر مشتمل تصنیف وتالیف کا منصوبہ بنایا۔
دوران انٹرویو ہم پر ابو الکلام آزاد کا ’’دست شفقت‘‘!
مولانا ابو الکلام آزاد کے اِس عقیدت مند نے ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری تک صرف انٹرویو کرنے کی خواہش پہنچائی تھی، لیکن ہماری بیٹھک کے اُس لمحے ہم پر ایک عجب کیفیت ہی طاری ہوگئی، جب انہوں نے فرمایا کہ وہ ہمیں یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم ابو الکلام آزاد کی طرف سے ملنے آئیں گے! ابھی ہم اسے مولانا آزاد سے اپنی پرخلوص وابستگی کا روحانی نتیجہ سمجھنے پر اَش اَش ہی کر رہے تھے کہ کیسے بِن بتائے وہ ہمیں مولانا آزاد سے نتھی کر رہے ہیں، پھر انہوں نے کہا ’ہندوستان میں ہم اُن کے خاندان سے ملے، انہوں نے یہ ہمیں دو چیزیں دیں۔ ایک یہ چھوٹا سا بستہ اور یہ ٹوپی، یہ مولانا ابو الکلام آزاد کی ہے۔ جب بھی ہمارا کوئی دوست ملنے آتا ہے، ہم یہ ٹوپی پہن کر آتے ہیں اور کچھ دیر یہ اُس کے سر پر بھی رکھوانا چاہتے ہیں، آپ بھی رکھیے!‘‘ ہمارے لیے ابوالکلام سے جُڑے ایک درویش کی قدم بوسی کیا کم تھی کہ یہ اعزاز بھی نصیب ہوگیا۔ ہمیں یوں لگا جیسے ’امام الہند‘ نے سرحد پار اپنے ایک ادنیٰ عقیدت مند کے سر پر اپنا ’’دستِ شفقت‘‘ رکھ دیا ہو!
ذخیرۂ کتب جلنے پر ہم دردی کرنے والوں سے احسان مندی
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری اپنا کتب خانہ جلنے کے سانحے پر مختلف شخصیات کی ہم دردی کا بڑی احسان مندی سے ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں وہ فائل بھی دکھائی جس میں اس حوالے سے مختلف خطوط اور تحریروں کے عکس شامل ہیں۔ انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ان احباب کا ذکر ضرور کیا جائے۔
ان کے پاس محفوظ ہم دردی کے خطوط میں دبیر حسین رضوی (علیگ)، ڈاکٹر سید سخی احمد ہاشمی، ڈاکٹر وحید قریشی، محمد اسحق بھٹی (ادارہ ثقافت اسلامیہ)، رفیع الدین ہاشمی (جامعہ پنجاب)، تحسین فراقی (جامعہ پنجاب)، شفقت رضی (نیشنل کالج، کراچی)، نجم الاسلام (جامعہ سندھ)، ڈاکٹر ابو الخیر کشفی (جامعہ کراچی)، آغا عبدالغنی (آرکیلوجیکل ایسوسی ایشن آف پاکستان)، ڈاکٹر وقار احمد رضوی (جامعہ کراچی)، اور ڈاکٹر شیر بہادر خان (دارالشفا ایبٹ آباد) کے مراسلے شامل ہیں۔ اخبار و رسائل میں خبروں کے علاوہ ’قومی زبان‘ (کراچی)، الاعتصام (لاہور)، جریدۂ ہمدرد، ’تکبیر‘ (کراچی) اور بزنس ریکارڈر (کراچی) میں لکھا گیا، جب کہ قمر الحق قمر، اشتیاق اظہر، مختار زمن اور شعیب الرحمن (دریچہ خانیوال) نے اپنے مضامین میں اس سانحے پر افسوس کا اظہار کیا۔ 23 دسمبر 1986ء کو شایع ہونے والے اپنے بیان میں ابو سلمان شاہ جہاں پوری نے کہا کہ میرا مکان پہلی رو میں ہونے کے سبب سب سے پہلے نشانہ بنایا گیا اور پھر اس آگ نے پوری کالونی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہی میری حیات کا سہارا تھا، افسوس اب زندگی کی کوئی خواہش نہیں!
بہت سی کتب شایع ہونے کو ہیں
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کی گفتگو میں ضعیف یادداشت کے سبب ’اسم‘ کا ذکر بہت کم ہے۔ اس لیے ہمیں بہت سی تاریخی گفتگو مبہم ہونے کے سبب حذف کرنا پڑی! وہ بات کرتے کرتے مسجد یا عید گاہ کا لفظ بازیافت نہیں کر پاتے، تو پوچھتے ہیں کہ جہاں نماز پڑھتے ہیں۔ تھانہ کہنا یاد نہیں آتا تو دریافت فرماتے ہیں، وہ جو سپاہیوں کا ادارہ ہوتا ہے۔ بینک کہنا چاہتے ہیں، تو استفسار کرتے ہیں جہاں سے روپیہ پیسہ لیتے ہیں۔ اسی طرح سیاسی جماعت کے بہ جائے سیاست کا ادارہ کہہ کر اپنی بات پوری کرتے ہیں۔
انہیں ماشاء اللہ چلنے پھرنے میں تو دشواری نہیں، لیکن کم زور یادداشت کے سبب باہر آنا جانا موقوف ہے، کیوں کہ ایک مرتبہ گھر سے نکلے تو راستہ چُوک گئے۔ اُن کی نواسی طیبہ اُن کے ساتھ رہتی ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ نانا نے خرابی صحت کی بنا پر دو سال سے تحقیقی کام چھوڑا ہوا ہے۔ اُن کے ذخیرے میں 40 ہزار کے قریب کتب تھیں، جو ایک واقف کار تنویر صاحب کے سپرد کر دی ہیں۔ اب تھوڑی بہت کتب ہیں۔‘ ڈاکٹر ابو سلمان کی تصانیف وتالیفات کا شمار سیکڑوں میں ہے۔ ابو الکلام آزاد کے علاوہ ان کی کتابوں کے موضوعات برصغیر کی تاریخ، اسلامی تحریکات اور علما وغیرہ ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ ان کی میز پر چھے، سات کتابوں کے مسودے بندھے پڑے ہیں۔ طیبہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے کاغذات سے کچھ چیزوں کو یاد کر کے اشاعت کے لیے نکالتے رہتے ہیں۔ نواسی طیبہ کے بقول ڈاکٹر ابو سلمان کو اپنے دوستوں کے نام یاد نہیں رہتے، ان کی خط وکتابت وہی کرتی ہیں، کبھی فون پر بات کرتے ہوئے وہ طیبہ کو بھی بھول جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ابو سلمان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا، ایک بیٹی اور بیٹے کا انتقال ہو چکا ہے۔
کسی طرح ’جامعہ سندھ‘ کے ایک مقالہ نگار کا سراغ لگانا ہے!
2000ء میں شعبۂ اردو، جامعہ سندھ میں ایم اے کے ایک طالب علم نعیم الرحمن جستجو نے سید جاوید اقبال کی زیر نگرانی ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔ طالب علم سے ڈاکٹر صاحب کا بہ ذریعہ خط وکتابت رابطہ رہا، لیکن پھر یہ رابطہ منقطع ہوگیا، نعیم الرحمن جستجو نے اپنا مقالہ درست کرنے کے لیے انہیں بھجوایا تھا۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح جامعہ سندھ کے طالب علم نعیم الرحمن سے اُن کا رابطہ ہو جائے۔ ہمیں بھی ہدایت کی یہ ذکر بھی کر دیجیے گا، کہتے ہیں کہ ’ہے یہ نوجوان کوئی ہندوستان کی طرف کا ہی، کیوں کہ اس نے ہمارے نام خاندان اور علاقے وغیرہ سے متعلق جس طرح معلومات لی ہیں، اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے۔‘