جمہوری ملک اور جمہوری نظام حکومت میں ایک ایک ووٹ کی اہمیت ہوتی ہے۔ دستور نے ہر بالغ مرد عورت کو حق دیا ہے کہ جمہوری نظام حکومت کی تشکیل کے لئے اپنی آزادانہ رائے کا استعمال کرے۔ ہر بالغ شخص یعنی ١٨ برس اور اس سے زائد عمر والے افراد کو بلا تفریق جنس یعنی مرد عورت مخنث , ذات/جاتی برادری اور قبیلہ ، کو نہ صرف ووٹ دینے کا حق ہے بلکہ ووٹ کرنا قومی ذمہ داری ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس جمہوری پروسیس میں شرکت لازمی ہے۔
اسی طرح مرکز میں لوک سبھا اور ریاست میں ودھان سبھا کے رکن بننے کے لئے ٢٥ برس اور راجیہ سبھا اور ودھان پریشد کے لئے ٣٠ برس اور اس سے زائد عمر کے لوگ الیکشن لڑ سکتے ہیں تاکہ فتحیاب ارکان کی اکثریت والی پارٹی یا پارٹیوں کا اتحاد الائنس حکومت کی تشکیل دے اور فتحیاب اقلیت ارکان بحیثیت اپوزیشن ایوان میں نمائندگی کریں۔ حکومت کی تشکیل کے اس پروسیس میں شراکت بھی لازمی ہے۔ صحت مند جمہوری نظام میں شراکت اور نمائندگی ہر طبقہ کی ضروری ہے تاکہ ہر طبقہ جنسی یعنی مرد عورت مخنث، اسی طرح دیہاتی شہری معلم مزدور تاجر اور صنعتکار کی نمائندگی ہو تاکہ قانون سازی اور سرکاری سہولیات و مراعات طے کرتے وقت ہر طبقہ کے مفادات ملحوظ خاطر رکھا جا سکے اور کسی طبقہ کے مفادات کے خلاف قانون سازی ہو تو وہ طبقہ اپنے ہم خیال ارکان کو ساتھ لے کر آواز اٹھا سکے۔ اسی ضرورت کے تحت پارلیمنٹ اسمبلیز اور انتظامیہ میں خواتین کے لئے ریزرویشن کا مطالبہ کیا جاتا ہے تاکہ ان کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے ہو۔
ریزرویشن کے تعلق سے مسلمانوں کا ایک پیج پھنسا ہوا ہے وہ یہ کہ دستور کے مطابق مذہب کے نام پر کسی فرد یا گروہ / کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ نتیجہ یہ کہ سرکاری ملازمت اور تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہاں معاشی اور سماجی طور پر اقلیتوں کے کمزور طبقات کے لئے ریزرویشن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے مگر بدقسمتی سے مسلم قیادت حکومت کی اقلیتوں کے لیے اسکیموں سے مستحق لوگوں کو مستفید ہونے میں معاون نہیں ہوتیں۔ ان کے برعکس دلت، جین، بدھ اور عیسائی ان اسکیموں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔
انتخابات میں بحیثیت راے دہندہ یا بحیثیت امیدوار حصہ لینے کے لئے کسی کو مذہب، ذات برادری قبیلہ اور علاقہ کے نام پر یرغمال نہیں بنایا جا سکتا یعنی مذہب یا ذات برادری قبیلہ کے نام پر ووٹ نہیں مانگا جاسکتا ہے۔ تاہم جب سے مرکزی حیثیت والی پارٹیاں کمزور ہوئیں علاقائی پارٹیاں وجود میں آگئیں۔ اور ان میں سے بعض پارٹیوں نے کھلے عام نہ سہی پس پردہ جات برادری کے نام پر ہی ووٹ حاصل کر کے اپنی پوزیشن مضبوط بنائ ہیں۔ لیکن سیاسی دانشوروں کے قول و فعل کا تضاد دیکھیں کہ جات برادری کے نام پر پولرائزیشن کے ذریعے ووٹ حاصل کرنے والوں پر تنقید نہیں کرتے اور مسلم ووٹرز متحد ہو کر کسی امیدوار کو ووٹ کرنا چاہتے ہیں تو ان پر فرقہ پرستی کا الزام لگاتے ہیں۔
شرکت کے ساتھ شراکت کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ و اسمبلیز میں مسلم نمائندگی ہر بار کم ہوتی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد ہونے کے باوجود مہاراشٹر سے پچھلے پندرہ سالوں میں ایک بھی ممبر پارلیمنٹ نہیں پہنچ پایا۔ ٢٠١٩ میں ایم آئی ایم مہاراشٹر کے صدر امتیاز جلیل صاحب اکیلا نمائندہ منتخب ہو کر پہنچے ہیں۔ مسلمان فرقہ پرستی کے نظریہ سے یا برادران وطن سے کٹ کر اپنی الگ شناخت کی ضد میں متحد ہونا نہیں چاہتا مگر نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے ان کو حاشیہ پر دھکیل کر اویسی کے فین بننے پر مجبور کیا ہے۔ یہ سیکولر پارٹیوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ با صلاحیت اور اہل مسلم امیدواروں کی جیت بھی یقینی بناتیں۔ یہ سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے ووٹرز سے کہیں کہ وہ مذہب کے نام پر تفریق کۓ بغیر پارٹی امیدوار خواہ کسی مذہب کا ہو اسے ووٹ کریں ۔ ماضی میں ایسا ہی ہوتا تھا اور ہندی بیلٹ میں مسلمان سیکولر پارٹیوں سے جڑے ہوتے تھے کبھی کسی نے اپنی پارٹی بنانے یا کسی مسلم پارٹی کو مذہب کے نام پر سپورٹ کرنے کا نہیں سوچا تھا (ایک دو کے استثناء کے ساتھ)۔ آج بھی اسی inclusiveness کی ضرورت ہے۔ اسی کے ذریعہ حقیقی شرکت اور شراکت یقینی بنائ جا سکتی ہے۔
اویسی صاحب کی ایم آئی ایم فرقہ پرست پارٹی یا بی جے پی کی بی ٹیم ہے یا نہیں اس سے قطع نظر یہ بات ہضم نہیں ہوتی کہ بغیر تیاری کے بعض مقامات پر کیوں اپنے امیدوار کھڑا کرتے ہیں۔ آل انڈیا پارٹی بننے کے لئے بالخصوص ہندی بیلٹ میں کام کرنے کے لئے میرے خیال میں انہیں اپنی پارٹی کا نام بدلنا چاہیے۔ ایک خاندان کی پارٹی کی بجائے اعلی سطحی ڈھانچے میں دوسروں بشمول حقیقی سیکولر ہم خیال غیر مسلموں کو شامل کرنا چاہیۓ اور کسی بھی ریاست کے کسی حلقہ انتخاب سے امیدوار نامزد کرنے سے پہلے وہاں زمینی کام کرنا چاہیے۔ فل ٹائم آفس دائمی دفتر کھولنا چاہیے۔ لیکن وہ اور ان کے بھائی ایم آئی ایم کے مالک ہیں اپنے اور اپنی پارٹی کے بارے میں وہ بہتر جانتے ہیں۔ تاہم سوال پھر بھی معقول ہے اور باقی ہے کہ کیا پارلیمنٹ اور دوسرے اسٹیجز سے شعلہ بیان تقریریں انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے لئے کافی ہیں ؟