ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی
ہر سال 10/ دسمبر کو ’یوم حقوقِ انسانی‘ (Human Rights Day)کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ 1948ء میں اسی تاریخ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنے تیسرے اجلاس میں ’یونی ورسل ڈکلیریشن آف ہیومن رائٹس‘ کو منظوری دی تھی ۔ اس کے علاوہ سال کے مختلف اوقات میں ’انسانی حقوق‘ کا موضوع زبان زد عام و خاص رہتاہے ۔ اس کا تذکرہ ہر مجلس میں ہوتاہے ۔ ہر ادارہ ، ہر انجمن ، ہر ملک اس کا چرچا کرتا ہے اور اس کی دہائی دیتاہے ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جو لوگ انسانی حقوق پر عمل نہیں کرتے ، دوسرے لوگوں کو بنیادی حقوق سے محروم کرتے ہیں اور انہیں غصب کرنے میں آگے آگے رہتے ہیں ، وہ بھی ان کی دہائی دیتے ہوئے نہیں تھکتے ۔ حق و انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگاکہ انسانی حقوق کا جو تصور اسلام نے پیش کیا ہے ، کسی مذہب یا تہذیب میں اس کی مثال نہیں ملتی اور پیغمبرِ اسلام نے اس کا جو نمونہ پیش کیا ہے ، آپؐ نے جس طرح خود ان پر عمل کرکے دکھایا ہے اور آپؐ کے اوّلین پیروکار وں نے جس طرح خود اپنے سماج میں ان کو نافذ کرکے دکھایا ہے ، اس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔
’ہیومن رائٹس‘ کی اصطلاح اصلاً مغرب سے آئی ہے ۔ یہ تقریباً ایک ہزار سال سے رائج ہے ، لیکن اس میں تیزی تین سو سال پہلے سے آئی ہے ۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ قرونِ وسطیٰ میں شہری تمام طرح کے انسانی حقوق سے محروم تھے ۔ جس کے ہاتھ میں طاقت ہوتی تھی وہ ہر طرح کی من مانی کرتاتھا ۔ جو حقوق چاہتا اپنے عوام کو دیتا اور جو چاہتا نہ دیتا ، کوئی اس سے باز پرس کرنے والا نہیں ہوتا تھا ۔ سترہویں صدی سے یہ تصور پیداہوا کہ ریاست کو من مانی کرنے کا حق نہیں ہے ، پارلیمنٹ وجود میں آنی چاہیے ، عوام کی حکومت ہونی چاہیے ، حکومت میں عوام کی شرکت ہونی چاہیے ۔ اس طرح گزشتہ تین سو سال میں عوام کو ایک ایک کرکے حقوق حاصل ہوئے ۔ بالآخر 1948 میں اقوام متحدہ کے تحت ’انسانی حقو ق کا منشور‘ منظور کیاگیا ، جس میں بنیادی طور پر تیس(30) دفعات شامل کی گئیں ،جن میں عوام کو آزادی کا حق ، شہریوں کو حبسِ بے جا میں نہ رکھنے کا حق ، نجی زندگی میں دخل نہ دینے کا حق ، اسی طرح دیگر سماجی حقوق منظور کیے گئے ۔
خلاصہ یہ کہ مغرب میں ’ہیومن رائٹس‘ کا جو تصور ہے اس میں دو باتیں بہت نمایاں ہیں :
اول یہ کہ جو حقوق منظور کیے گئے وہ خوشی سے نہیں دیے گئے ۔ ریاست نے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے یہ حقوق نہیں منظور کیے ، بلکہ عوام جوں جوں طاقت ور ہوتے گئے ، انہوں نے احتجاج کیے ، مظاہرے کیے ، اپنی طاقت کا استعمال کیا ، اس طرح انہیں ایک ایک حق ملتا گیا ۔ آج اقوام متحدہ نے جتنے بھی حقوق کی ضمانت دی ہے ، وہ ایسے نہیں ہیں جو لوگوں کو خوشی سے دیے گئے ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ یہ حقوق دنیا کے تمام انسانوں کو نہیں دیے گئے ہیں ، بلکہ سراسر نیشنلزم کے تصور پر مبنی ہیں ۔ مغرب کا اعلان اور عمل اس پر ہے کہ یہ حقوق صرف ہمارے لیے ہیں ، دوسروں کے لیے نہیں ہیں ۔ جو ہماری قومیت کے دائرے میں آتا ہے وہ ان حقوق سے بہرہ ور ہوگا اور جو اس دائرے میں نہیں آتا وہ ان سے بہرہ ور نہیں ہوگا ۔
اس کے مقابلے میں اسلام کا پیش کردہ تصورِ حقوق انسانی ہمہ گیر ، جامع اور عالمی ہے ۔ اس میں کسی طرح کی کوئی تفریق روا نہیں رکھی گئی ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے حجۃ الوداع میں ایک لاکھ سے زائد انسانوں کے مجمع میں اعلان کیا تھا :
” اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب ِ حق کو اس کا حق دیاہے ۔ “ (ترمذی:2120)
اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے جن بنیادی حقوق کی صراحت کی ہے وہ کسی نے جدّ وجہد کرکے نہیں حاصل کیے ہیں ، کسی نے اپنی طاقت کے بل پر ان کی ضمانت نہیں حاصل کی ہے ، بلکہ یہ حقوق بحیثیت انسان اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو دیے ہیں ۔اگر کوئی شخص ان کی ادائیگی میں کوتاہی کرتاہے ، یا ان کو پامال کرتاہے تو گویا وہ کسی دوسرے انسان کا حق نہیں مارتا ، بلکہ اللہ تعالیٰ کا حق مارتاہے اور اس نے جن حقوق کی ضمانت دی ہے ان کی ادائیگی میں کوتاہی کرتاہے ۔
اللہ کے رسول ﷺ نے حقوق کا ایک بہت جامع تصور پیش کیاہے ۔ہم بنیادی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ حقوق کی اسلام میں دو قسمیں کی گئی ہیں : ایک اللہ کا حق ، دوسرے بندوں کا حق ۔ دونوں کا درجہ برابر ہے ، ان میں کوئی فرق نہیں ہے ، لیکن بعض صورتوں میں حقوق العباد کا درجہ حقوق اللہ سے جاتاہے ۔ اس کی تائید ایک حدیث سے ہوتی ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ اور حضرت انس بن مالک دونوں سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
” بارگاہِ الٰہی میں نامۂ اعمال کے تین طرح کے رجسٹر ہوں گے ، جو قیامت کے دن ہر شخص کے سامنے پیش کیے جائیں گے : پہلا رجسٹر وہ ہوگاجس میں یہ درج ہوگا کہ آدمی نے شرک کیاہے کہ نہیں؟ اگر کسی نے شرک کیا ہوگا تو اس نے چاہے کتنے ہی اچھے اعمال کیے ہوں ، اللہ تعالیٰ اسے کسی صورت میں معاف نہیں کرے گا ۔ دوسرا رجسٹر وہ ہوگا جس میں اللہ تعالیٰ کے حقوق کے معاملے میں بندے کی کوتاہیاں درج ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا اپنی شانِ کریمی سے معاف کردے گا ۔ تیسرا رجسٹر وہ ہوگا جو انسانوں کے آپسی حقوق کا ہوگا ۔ کسی نے کسی شخص کا مال غصب کیاہوگا ، کسی پر ظلم ڈھایاہوگا ، کسی کو گالی دی ہوگی ۔جب تک متعلقہ فرد نہ معاف کردے ، اللہ تعالی کبھی اس کو معاف نہیں کرے گا ۔ ( احمد:26013)
اللہ کے رسول ﷺ کے ارشادات میں حقوق کے سلسلے میں جو کچھ کہا گیا ہے اس میں غور کرنے سے ہمارے سامنے کئی باتیں آتی ہیں ۔ آپؐ نے ایک ایک کرکے ان افراد کی نشان دہی کی جن کے حقوق دوسرے پر واجب ہوتے ہیں ۔ آپؐ نے ان کا تذکرہ کیا اور ان کے حقوق بیان کیے ۔ ساتھ ہی آپ نے عام انسانی حقوق کا بھی آپ نے تذکرہ کیا ۔ آپؐ نے یہ بھی بتایا کہ حقوق کی ادائیگی کا کیا معیار ہونا چاہیے ؟ پہلی بات یہ کہ آپؐ نے حقوق کا ایک عام تصور پیش کیا ۔انسانوں کی جتنی قسمیں ہوسکتی ہیں ، ان کے جتنے طبقات ہوسکتے ہیں ، ان سب کاآپ نے تذکرہ کیا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کاحکم دیا ۔ سب سے پہلے رشتہ داروں کا حق آتاہے ۔ ان میں بھی سب سے مقدم حق ماں باپ کا ہے ۔ آپؐ نے ان کے حقوق بیان کیے ۔ رشتہ داروں ہی کی طرح کی حیثیت پڑوسیوں کی ہوتی ہے ۔ آپ ؐ نے ان سے اچھے تعلقات رکھنے کا حکم دیا ۔آپؐ نے خاص طور سے سماج کے کم زورطبقات کے حقوق پر زور دیا اور ان کی ادائیگی کی تاکید کی ۔ اس زمانے میں کم زورطبقات میں خاص طور سے عورت تھی ۔ وہ چاہے ماں ہو ، یا بہن ہو ، یا بیوی ہو ، یا بیٹی ہو ، عرب سماج میں اس کو کسی بھی لحاظ سے بنیادی انسانی حقوق حاصل نہیں تھے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے اس کے حقوق کی تاکید کی اور عورت بحیثیت عورت کے حقوق بیان کیے ۔ اُس زمانے میں غلاموں کو کسی طرح کے انسانی حقوق حاصل نہیں تھے ۔ ان کا درجہ حیوانات سے بھی بدتر سمجھاجاتاتھا ۔ آپؐ نے ان کے انسانی حقوق بیان کیے ۔
حقوق انسانی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ اللہ کے رسولﷺ نے انسانوں کے کیا بنیادی حقوق بیان کیے ہیں؟ اور ان کی کیا ضمانت دی ہے؟ سب سے پہلا حق جان کا ہے ۔ ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے ۔ کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کی جان کے در پے ہواور اس کو قتل کرے ۔انسانی جان کی پامالی آج ہمارے سماج میں عام ہوگئی ہے ۔ ہمارے ملک ہی میں نہیں ، بلکہ پوری دنیا میں جتنی پامالی ہورہی ہے اتنی انسانی تاریخ نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ۔ آپ ؐ نے انسانی جان کو محترم قرار دیا اور قتلِ ناحق کو سنگین جرم قرار دیا ۔ جان دار اس کو سمجھا جاتا ہے جو اس دنیا میں آگیا ہو ، یعنی پیداہوگیاہو ، لیکن اسلام نے حقوق کی ضمانت ، پیدا ہونے سے پہلے دی ہے ۔ ماں کے پیٹ میں جو جنین ہے ، اس کو بھی قتل کرنے کی کسی بھی حالت میں اجازت نہیں دی ۔ آج دنیا آبادی میں تناسب کے بگاڑسے پریشان ہے ۔خود ہمارے ملک میں یہ مسئلہ ہے کہ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کا تناسب کم ہے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ پیدائش سے قبل ہی جنین کی جنس معلوم کرلی جاتی ہے اور اگر وہ لڑکی ہے تومختلف تدابیر سے اس کو ہلاک کردیا جاتا ہے ۔ قتلِ جنین کی شدید مذمّت قرآن کریم میں آئی ہے اوراللہ کے رسولﷺ نے بھی اس سے سختی سے منع کیا ہے ۔ آپؐ کا ارشاد ہے :
”اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کیاہے کہ تم لڑکیوں کو زندہ درگور کرو۔“ (بخاری:2408،مسلم: 593)
حقوق کے سلسلے میں آخری بات یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے تاکید کی کہ ان کی ادائیگی میں کسی طرح کے مراتب کا لحاظ نہیں کیاجائے گا ۔ ہر انسان بحیثیت انسان ان کا مستحق ہے ، چاہے وہ رشتہ دار ہو یا اجنبی ، آقا ہو یا غلام ، وہ چاہے جس سماجی حیثیت کا مالک ہو ، اس کے بنیادی حقوق ادا کیے جائیں اور اس میں ذرا بھی کوتاہی نہ کی جائے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود بھی ان تعلیمات پر عمل کریں اور اپنی زندگیوں میں انہیں نافذ کریں ۔ افسوس کہ بنیادی انسانی حقوق کے سلسلے میں اللہ کے رسول ﷺ کی ان تعلیمات پر عمل نہیں کیاجاتا اور ان کی حیثیت خوب صورت نعروں کی ہوکر رہ گئی ہے ۔ تمام مسلم ممالک کا حال ہمارے سامنے ہے ۔ ان میں انسانی حقوق کی جتنی پامالی ہورہی ہے اتنی غیر مسلم ممالک میں بھی نہیں ہوتی ہے ۔ ہم میں سے ہر شخص کو اپنی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے اور اللہ کے رسولﷺ کی دی ہوئی ان تعلیمات پرعمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔