Home مباحثہ انڈیا ٹی وی کی اسلام پر بحث: ایک نیافتنہ ـ مولانا محمود احمد خاں دریابادی 

انڈیا ٹی وی کی اسلام پر بحث: ایک نیافتنہ ـ مولانا محمود احمد خاں دریابادی 

by قندیل

 

جس زمانے میں شدھی تحریک زوروں پر تھی، بڑی تعداد میں مسلمانوں کو مرتد بنانے کی کوششیں کی جاری تھیں، آریہ سماج کے لوگ اس میں پیش پیش تھے ـ اس وقت اُن کا ایک پرچارک رام چندر نام کا بھی تھا، کہتے ہیں کہ وہ قُرانی علوم کے سلسلے میں زبردست معلومات رکھتا تھا، علم تجوید کا بھی ماہر تھا، جو بھی مسلم مناظر اس کے سامنے قران کی آٰیت پڑھتا سب سے پہلے اس کو تجوید پر ہی گھیر لیتاتھا، کہتا ” واہ مولوی صاحب فلاں مقام پر آپ نے غنہ نہیں کیا، فلاں مد کو آپ نے اُس کی مقدار کےمطابق نہیں کھینچا، ” آپ کو قران بھی نہیں آتا آپ کیا مجھ سے بحث کریں گے ”

 

اس زمانے میں مولانا مرتضے حسن چاند پوری، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا ثناءاللہ امرتسری اور مولانا عبیداللہ سندھی جیسے علماء موجود تھے جنھوں نے سناتن دھرم کے اصل مراجع کا مطالعہ کیا اور تحقیقی جوابات کے ساتھ الزامی جوابات بھی دئیے اس طرح اس وقت وہ فتنہ ختم ہوا ـ آج کل پھر اُسی قسم کا فتنہ تیزی سے سر اُٹھارہا ہے، پہلے مسلمانوں پر سیاسی حملے ہوتے تھے، غدار، پاکستان کا ہمدرد اور نہ جانے کون کون سے الزامات لگائے جاتے تھے، مگر اب اسلام پر حملے ہورہے ہیں، بات اب مائیک پر اذان تک محدود نہیں بلکہ اذان اور اس کے الفاظ کی مخالفت ہورہی ہے، پہلے چند بد زبان، بدکلام اور بدقماش لوگ اسلام کی مقدس شخصیات پر گستاخانہ حملے کرتے تھے، جن پر مسلمان تو مشتعل ہوتے ہی تھے ساتھ ہی دیگر غیر مسلم سنجیدہ افراد بھی اس کو پسند نہیں کرتے تھے، اب بات اس سے آگے بڑھ گئی ہے، اب دشمنان اسلام نے کچھ ایسے لوگوں کو تیار کرلیا ہے جو سنجیدہ انداز میں اسلام اور قران پر اعتراض کررہے ہیں، اُن میں کچھ ایسے بھی ہیں جو باقاعدہ کسی حد تک تجوید کے ساتھ قرانی آیات پڑھتے ہیں، چونکہ اب لیپ ٹاپ کی سہولت بھی حاصل ہوگئی ہے اس لئے حسب ضرورت بخاری، مسلم اور دیگر کتب کا متن حتیٰ کہ عربی لغات کی کتابیں بھی ان کے پاس محفوظ ہوتی ہیں، غرض اُن کی پوری تیاری ہے، ہماری جانب سے اسلام پر اعتراض کے جو عموما جوابات دئے جاتے ہیں اُن کے جواب الجواب بھی اُن کے پاس ہیں، اُن لوگوں کے اسی طریقہ کار کی وجہ سے اب غیر مسلم سنجیدہ افراد بھی اُن کی طرف توجہ کر رہے ہیں ـ

 

چند دن پہلے انڈیا ٹی وی پر ہونے والی ایک بحث یو ٹیوب پر دیکھی اس میں دو مرد اور ایک عورت جن کا دعوی تھا کہ وہ سابق مسلم ہیں شریک تھے ، حالانکہ اُن کے اعتراضات میں نیا کچھ نہیں تھا، بس انداز کسی حد تک ٹہرا ہوا تھا، کوئی چیخ پکار نہیں، اُن میں دونوں مرد قران کی آیات تجوید کے ساتھ پڑھ رہے تھے، بخاری مسلم کے اسکرین شارٹ دکھارہے تھے ـ یہی انداز ہے جو آجکل خالی الذھن اور سنجیدہ افراد کو متاثر کرتا ہے ـ کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، اس لئے وقت کی سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم لوگ بہت جلد بلکہ فورا سے پیشتر ایسے افراد تیار کریں جن کا اسلامیات کے ساتھ دوسرے مذاہب خصوصا ہندو دھرم کے اصل مراجع کا بھی مطالعہ ہو، اسی ساتھ سنجیدہ گفتگو اور حسب ضرورت جذباتی اور پُر جوش تقریر کا بھی سلیقہ ہو، لیپ ٹاپ وغیرہ میں بھی دسترس ہو تاکہ ضرورت پڑنے پر مقابل کو ثبوت دکھائے جاسکیں ـ ہمارے یہاں چند کمرشیل مقرر ایسے ضرور ہیں جنھوں نے چند سنسکرت جملے اور اشلوک یاد کررکھے ہیں جنھیں اپنے بیانات میں باربار دھرا کر ” داد تقریر ” حاصل کرتے رہتے ہیں، سب جانتے ہیں کہ ایسے بیانات آمنے سامنے کی بحث میں چند منٹ بھی نہیں چل پائیں گے ـ

 

انڈیا ٹی وی کی بحث میں مسلمانوں کی طرف سے جو تین افراد شریک تھے اگرچہ وہ سیاسیات اور سماجیات میں زبردست پکڑ رکھتے ہیں، اس سلسلے میں چینلس پر جو بحثیں ہوتی ہیں ان میں بھی ان کا شمار کامیاب ڈبیٹرس میں ہوتا ہے، مگر یہ اُن کا میدان نہیں تھا، ہر آدمی ہر فن میں عبور رکھے ایسا ممکن بھی نہیں ہے، ہر ایک کو اپنے میدان اور اپنی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اس کا بھی تقاضا یہی تھا کہ یا تو ایسی جگہ نہ جایا جائے یا کسی ایسے کا نام وہاں دےدیا جائے جس کا یہ میدان ہو ـ بہر حال پوری بحث دیکھنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کی موثر نمائندگی جس طرح ہونی چاہیئے تھی وہ وہاں نہیں ہوپائی،چنانچہ وہاں جو مسلمان بحیثیت سامع موجود تھے وہ بھی اس غیر موثر نمائندگی سے بے چین نظر آئے، اسی لئے کچھ حاضرین بار بار مداخلت کرکے جواب دینے کی کوشش بھی کررہے تھے، مسلمانوں کی طرف سے شامل تینوں ڈبیٹرس میں بھی آپسی تال میل کی شدید کمی نظر آئی، تینوں ایک دوسرے کی بات کاٹنے کی کوشش کررہے تھے ـ

 

اس موقع پر ہم سب کو انڈیا ٹی وی کی اس حرکت کے خلاف شدید احتجاج کرنا چاہیئے، پریس کونسل میں اس کی شکایت بھی کرنی چاہیئے کہ اس چینل نے جس طرح کھلے عام ٹی وی پر ایک خالص مذبی بحث کرائی جس میں قران، اسلام اور مسلمانوں کے مسلمہ عقائد پر کھلے عام اعتراض کئے گئے، پیغمر اسلام کی ذات کو نشانہ بنانے کی کوشش ہوئی اس سے مسلمانوں کے جذبات کو شدید چوٹ پہونچی ہے، اگر انڈیا ٹی وی فورا معافی نہیں مانگتا تو اس کے خلاف سخت کاررائی کی جائے ـ اگرچہ آخر میں اینکر نے چند جملے کہہ کر اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی ہے مگر اس کی حیثیت عذر گناہ بد تر از گناہ سے زیادہ نہیں ہے ـ

You may also like

Leave a Comment