دنیا بھر کے ڈاک نظاموں میں انڈیا پوسٹ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے پوسٹل نیٹ ورک کی حیثیت سے، انڈیا پوسٹ نے اپنی تاریخ میں کئی اہم سنگ میل عبور کیے ہیں، جن میں عوام کو خط و کتابت، مالیاتی لین دین، اور مختلف خدمات فراہم کرنے کا ایک مربوط نظام شامل ہے۔ انڈیا پوسٹ نے کئی دہائیوں تک بھارت کے دیہی اور شہری علاقوں میں لوگوں کو جوڑنے اور علم، ادب، اور تجارت کو فروغ دینے میں ایک پل کا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں انڈیا پوسٹ کی چند پالیسیوں نے نہ صرف عوامی اعتماد کو متاثر کیا ہے بلکہ کتابوں اور تعلیم کے فروغ کے لیے اس کی خدمات پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔
انڈیا پوسٹ، جس کی بنیاد 1854 میں رکھی گئی، نے ابتدا میں خط و کتابت کے ذریعے لوگوں کو جوڑنے کا کام شروع کیا۔ وقت کے ساتھ، اس نے اپنی خدمات کو وسعت دی، جن میں اسپیڈ پوسٹ، پارسل سروس، رجسٹرڈ میل، اور بک پوسٹ جیسی سہولتیں شامل تھیں۔ خاص طور پر رجسٹرڈ بک پوسٹ (RBP) سروس نے کتابوں کی ترسیل کو سستا اور قابل رسائی بنا کر علم و ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ آر بی پی سروس کے تحت، کتابیں انتہائی کم قیمت پر بھارت کے کسی بھی حصے میں بھیجی جا سکتی تھیں۔ اس کے ذریعے خاص طور پر چھوٹے ناشرین، کتب فروش، اور تعلیمی ادارے کم خرچ میں اپنی کتابیں صارفین تک پہنچا سکتے تھے۔ یہ سروس نہ صرف ایک سہولت تھی بلکہ بھارت جیسے ملک میں جہاں ریڈنگ کلچر پہلے ہی کمزور ہے، ایک امید کی کرن تھی۔ تاہم، حالیہ دنوں میں انڈیا پوسٹ نے رجسٹرڈ بک پوسٹ سروس کو اچانک بند کرنے اور ترسیلی نرخوں میں بے حد اضافہ کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ علم و ادب کے فروغ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ اس فیصلے نے پوری پبلشنگ مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ رجسٹرڈ بک پوسٹ (آر بی پی) سروس کے خاتمے کا فیصلہ نہ صرف انڈیا پوسٹ کی عوامی بہبود کی پالیسی کے حوالے سے سوالات اٹھاتا ہے بلکہ بھارت میں کتابوں کی دستیابی اور ریڈنگ کلچر پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ انڈیا پوسٹ کا یہ فیصلہ کتابوں کی ترسیل کو مہنگا، پیچیدہ اور محدود بنانے کے مترادف ہے، جس کے نتیجے میں پوری پبلشنگ مارکیٹ، ناشرین، کتب فروش، اور قارئین کو ایک سنگین بحران کا سامنا ہے۔
کتابوں کی ترسیل ہمیشہ سے علم و ادب کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ بھارت جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں تعلیمی سطح پر بہت ساری مشکلات کا سامنا ہے، کتابوں کی سستی ترسیل نے پورے ملک کو ایک وسیع تر علم کے ماحول کی جانب قدم بڑھانے کا موقع فراہم کیا تھا۔ تاہم انڈیا پوسٹ نے اس سروس کو بند کر کے اس اہم سہولت کو ختم کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں کتابوں کی خریداری اور ترسیل کے اخراجات میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا ہے۔ انڈیا پوسٹ کی آر بی پی سروس نے کتابوں کی ترسیل کو کم قیمت اور فوری بنایا تھا۔ اس سروس کے ذریعے ایک کلو گرام وزن کی کتاب صرف 32 روپے میں بھیجی جا سکتی تھی، جو کہ دنیا کے کسی بھی پوسٹل سسٹم میں کتابوں کی ترسیل کے لیے سب سے سستی اور معقول قیمت تھی۔ اس سروس کے ذریعے کتابیں ملک کے دور دراز حصوں میں بھی کم وقت میں پہنچ جاتی تھیں، اور اس کا فائدہ نہ صرف کتب فروشوں بلکہ قارئین کو بھی ہوا تھا۔
لیکن انڈیا پوسٹ نے اس سروس کو ختم کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ بھارت کی پبلشنگ انڈسٹری کے لیے ایک دھچکا ہے۔ آر بی پی کی جگہ اب ایک نیا اور مہنگا آپشن متعارف کرایا گیا ہے، جس کے تحت 1 کلو گرام وزن کی کتاب کی ترسیل کے لیے اب 78 روپے خرچ ہوں گے، اور پانچ کلو گرام وزن کی کتاب کے لیے یہ رقم 229 روپے تک پہنچ گئی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی ترسیل کی قیمت بھی 40 روپے سے بڑھ کر 90 روپے تک پہنچ گئی ہے، جو کہ کتابوں کی خریداری کو غیر معقول اور قارئین کے لیے ناقابل برداشت بنا رہا ہے۔
کتابوں کی ترسیل کے اخراجات میں اضافے نے کتب فروشوں اور ناشرین کے لیے بڑی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ کم بجٹ والے ناشرین جو کتابوں کی اشاعت کے لیے رقم محدود رکھتے ہیں، اب اضافی شپنگ چارجز کی وجہ سے شدید مالی مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بہت سے ناشرین اپنی کتابوں کی قیمتیں بڑھانے پر مجبور ہوں گے، جس کا اثر بالآخر قارئین پر پڑے گا، اور کتابوں کی خریداری مزید مہنگی ہو جائے گی۔ ناشرین کو کتابوں کی ترسیل کے لیے اضافی اخراجات کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کے نتیجے میں وہ کم کتابیں پرنٹ کرنے پر مجبور ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ خاصی تعداد میں کتابیں مختلف حصوں میں نہ بھیج سکیں۔ اس صورتحال کا نقصان براہ راست قارئین کو ہوگا، خاص طور پر ان لوگوں کو جو کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور جو پہلے ہی کتابوں کی خریداری کے لیے مالی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
بھارت میں ریڈنگ کلچر پہلے ہی کمزور ہو چکی ہے، اور انڈیا پوسٹ کے اس فیصلے نے اس کلچر پر مزید گہرا اثر ڈالا ہے۔ بھارت میں کتابوں کی ترسیل کے مہنگے ہونے کے بعد، لوگ کتابوں کے بجائے دیگر سستے اور آسان ذرائع کی طرف مائل ہو سکتے ہیں، جیسے ڈیجیٹل مواد، جو کہ اکثر غیر معتبر اور غیر معیاری ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف بھارت میں کتابوں کی خریداری میں کمی آئے گی بلکہ ڈیجیٹل مواد کے ذریعے علم و ادب کے فروغ میں بھی رکاوٹ پڑے گی۔ بھارت میں تعلیم کی اہمیت اور اس کا تعلق ملک کی ترقی سے جڑا ہوا ہے۔ اگر کتابوں کی ترسیل مہنگی ہو جائے تو یہ تعلیمی ترقی کو ایک بڑا دھچکا پہنچائے گا، اور اس کے نتیجے میں دیہی علاقوں کے طلبہ کو کتابوں تک رسائی حاصل نہیں ہو سکے گی، جو کہ ان کی تعلیم کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ کتابیں طلبہ کے لیے تعلیم کا اہم ذریعہ ہیں، خاص طور پر دیہی علاقوں کے طلبہ کے لیے۔ ان اضافی ڈاک چارجز کی وجہ سے بہت سے طلبہ وہ کتابیں خریدنے سے قاصر ہوں گے جو ان کی تعلیم کے لیے ضروری ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ طلبہ کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہو گی، اور ان کی علمی ترقی میں رکاوٹ آئے گی۔ اساتذہ اور محققین کے لیے بھی یہ تبدیلیاں ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہیں۔ محققین اور اساتذہ جو تحقیقی مواد تک رسائی کے لیے مختلف شہروں یا ممالک سے کتابیں منگواتے ہیں، اب انہیں اضافی اخراجات کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے ان کے تحقیقی کام میں مشکلات آ سکتی ہیں۔ غیر ملکی پبلشرز کی جانب سے بھیجی جانے والی تعارفی کتابوں پر بھی اضافی درآمدی ڈیوٹی عائد کی جا چکی ہے، جس سے تعلیمی تحقیق پر مزید رکاوٹ آئے گی۔
بین الاقوامی ڈاک سروسز، جیسے کہ یو پی ایس، ڈی ایچ ایل اور فیڈیکس، بھی کتابوں کی ترسیل فراہم کرتی ہیں، مگر ان کی قیمت انڈیا پوسٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ ان سروسز کے تحت کتابوں کی ترسیل کے اخراجات عام طور پر زیادہ ہوتے ہیں، لیکن انڈیا پوسٹ کی آر بی پی سروس کی قیمت ان بین الاقوامی سروسز کے مقابلے میں انتہائی مناسب تھی۔ انڈیا پوسٹ کے فیصلے سے ان بین الاقوامی سروسز کے مقابلے میں کتابوں کی ترسیل زیادہ مہنگی ہو جائے گی، جو کہ بھارت کے لئے ایک بڑی پریشانی کا باعث بنے گا۔معلوم ہوتا ہے کہ انڈیا پوسٹ کا یہ فیصلہ ان کمپنیوں کے دباؤ میں اور عوامی مشاورت کے بغیر لیا گیا ہے، اور اس کے اثرات کتب فروشوں، ناشرین، اور قارئین پر واضح ہیں۔ حکومت کو اس فیصلے پر فوری طور پر نظرثانی کرنی چاہیے اور آر بی پی سروس کو دوبارہ بحال کرنا چاہیے۔ حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کتابوں کی ترسیل کا نظام ملک میں علم و ادب کے فروغ کے لیے بہت ضروری ہے، اور اس میں اضافی اخراجات سے ملک کی تعلیمی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
انڈیا پوسٹ کی اس کتاب دشمن پالیسی نے کتابوں کی ترسیل کے لیے ایک بڑی رکاوٹ کھڑی کر دی ہے۔ حکومت کو اس پالیسی پر دوبارہ غور کرنا چاہیے تاکہ کتابوں کی ترسیل سستی، آسان اور مؤثر ہو۔ کتابوں کی خریداری اور ترسیل میں اضافی اخراجات نے پورے پبلشنگ سیکٹر کو متاثر کیا ہے اور ریڈنگ کلچر کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت ملک کو ایک ایسی پالیسی کی ضرورت ہے جو علم و ادب کے فروغ کو مضبوط کرے، نہ کہ اس میں رکاوٹ ڈالے۔ یہ وقت ہے کہ عوام، کتب فروش، ناشرین اور اشاعتی ادارے متحد ہو کر حکومت پر دباؤ ڈالیں اور انڈیا پوسٹ کی اس پالیسی کو واپس لینے کے لیے اقدامات کریں۔ علم اور ادب کی ترقی ہی کسی قوم کی کامیابی کی ضامن ہو سکتی ہے، اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس روشنی کو بجھنے نہ دیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)