( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
احمدآباد کے اسٹیڈیم میں ، جہاں ایک لاکھ ۳۳ ہزار شائقین بیٹھ سکتے ہیں ، ’ انڈیا جیتے گا ‘ کی گونج کام نہ آئی ، اور آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کے مقابلوں میں مسلسل دس میچ جیت کر فائنل میں پہنچنے والی ہندوستان کی ٹیم ہار گئی ۔ شکست آسٹریلیا کی اُس ٹیم نے دی جو اپنے دس میچوں میں سے آٹھ ہار چکی تھی ، اُس میں سے ایک ہار انڈیا کی ٹیم کے ہاتھوں تھی ۔ کھیل اور مقابلوں میں ہار اور جیت تو لگی رہتی ہے ، اس معنیٰ میں انڈیا کا ہارنا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر دکھ کا اظہار کیا جائے ، لیکن اس معنیٰ میں یہ ہار دکھ دینے والی ہے کہ انڈیا کی ٹیم نے آخری میچ میں اُس کھیل کا مظاہرہ نہیں کیا ، جس کا مظاہرہ وہ پورے ٹورنامنٹ میں کرتی چلی آئی تھی ، اور جس کے نتیجے میں ہندوستانی شائقین نے یہ ’ یقین ‘ کر لیا تھا یا یوں کہہ لیں کہ میچ شروع ہونے سے پہلے ہی مان لیا تھا کہ ’ جیتے گی تو انڈیا ہی ‘ ۔ دکھ اس بات کا بھی ہے کہ جن کھلاڑیوں نے انڈیا کی ٹیم کو فتح کے قریب لا کر کھڑا کر دیا تھا اُنہیں فتح کا مزہ چکھنے کا موقعہ نہیں ملا ، بالخصوص کپتان روہت شرما کو ، جو پورے ٹورنامنٹ میں ٹیم کے لیے کھیلے ، وراٹ کوہلی کو ، جنہوں نے پورے ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رن بنائے ، محمد شمی ( محمد سمیع ) ، جنہوں نے صرف سات میچ کھیل کر سب سے زیادہ وکٹیں ( ۲۴ وکٹیں ) حاصل کیں ، اور ٹیم کے باقی کھلاڑیوں کو جنہوں نے اس ٹورنامنٹ کو اپنے شاندار کھیل سے یادگار بنا دیا تھا ۔ انڈیا کی ٹیم آئی سی سی کا کوئی مقابلہ ایک طویل عرصہ سے نہیں جیت سکی ہے ، اس لیے بھی یہ ہار دکھ دینے والی ہے ، اس بار آئی سی سی کا مقابلہ جیتنے کا سنہرا موقعہ تھا ۔ اب ورلڈ کپ چار سال بعد آئے گا ، اور تب تک انڈیا کی کرکٹ ٹیم کا چہرہ کافی حد تک تبدیل ہو چکا ہوگا ۔ ممکن ہے روہت شرما کپتان نہ رہیں ، ممکن ہے کہ وراٹ کوہلی یک روزہ مقابلے کھیلنا چھوڑ دیں ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ٹیم آج جیسی مضبوط نہ ہو ۔ محمد شمی ایک فاسٹ گیند باز ہیں ، وہ مزید چار سال آج کی طرح کیا پتہ گیندبازی کر سکیں گے یا نہیں ! کئی سوالات ہیں جن کے جواب آنے والے دنوں میں ملیں گے ۔ ٹیم انڈیا کو کوئی دوش نہیں دیا جا سکتا ، اس نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا ، لیکن کچھ باتیں ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ کیا شبھمن گل ، سریش ائیر اور سوریہ کمار یادو نے اپنی صلاحیت کا درست استعمال کیا ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ کیا آٹھ دس اووروں میں یادو نے جتنے رن بنائے اُس سے زیادہ رن وہ نہیں بنا سکتے تھے ؟ حیرت اس بات پر ہے کہ انہوں نے آسٹریلیا کے گیندبازوں پر حاوی ہونے کی کوشش تک نہیں کی ! اسپین گیند بازوں کے اووروں میں وہ ایک دو رن پر اکتفا کرتے رہے ۔ عظیم بلے باز سنیل گاؤسکر نے کمنٹری کرتے ہوئے اس جانب اشارہ کیا تھا کہ محتاط ہو کر کھیلنے کا یہ مطلب نہیں کہ رن بنانے کی کوشش ہی نہ کی جائے ۔ ایک اور اہم سوال ہے کہ بھلا کیوں محمد سراج سے بھمرا کے ساتھ بالنگ نہیں کروائی گئی ؟ محمد شمی نئی گیند پر قابو نہیں کر پا رہے تھے ، ممکن ہے کہ محمد سراج نئی گیند سے کامیاب رہتے اور محمد شمی ان کے بعد آتے تو اپنا وہ جادو جگا پاتے جو سارے مقابلوں میں نظر آیا تھا ۔ خیر ، یہ تو سب ’ اگر اور مگر ‘ کی باتیں ہیں سچ یہ ہے کہ آسٹریلیا کی ٹیم نے کیا بالنگ ، کیا بیٹنگ اور کیا فیلڈنگ ہر شعبے میں غضب کا مظاہرہ کیا ، اور پیٹ کمنس نے منصوبہ بندی سے کپتانی کی ، نیز اس کے کھلاڑیوں نے دفاع کے لیے نہیں جیتنے کے لیے میچ کھیلا ، نتیجہ مثبت نکلا ۔ اس ٹورنامنٹ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہندوستان اب دنیائے کرکٹ کا قلب بن گیا ہے ، اور کسی اور ملک کے مقابلے کرکٹ کے سب سے زیادہ شائقین انڈیا میں پائے جاتے ہیں ۔ اس ٹورنامنٹ سے کرکٹ کی دنیا میں ملک کا دبدبہ بڑھا ہے ، اس کی معیشت کو فائدہ پہنچا ہے اور سیاحت کا بھلا ہوا ہے ۔ لیکن ایک بات کے لیے افسوس رہے گا کہ ہندوستان نے آئی سی سی کے میزبان ملک کی حیثیت سے غیرجانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا ، بیرون ممالک کے بہت سارے کرکٹ شائقین کو ویزے نہیں دیے گیے ، ساری توجہ انڈیا کی ٹیم پر مرکوز رکھی گئی اور جس اسٹیڈیم میں بھی انڈیا کی ٹیم کھیلی وہاں مائک پر ’ انڈیا جیتے گا ‘ کے نعرے گونجتے رہے ! ٹیم انڈیا کے کھلاڑیوں نے تو ثابت کر دیا کہ کرکٹ کا کھیل ’ کثرت میں وحدت ‘ کی عمدہ مثال ہے ، ہر کوئی ٹیم میں شامل ہے ، اور ہر ہندوستانی ٹیم کو جیتنا دیکھنا چاہتا ہے ، لیکن کرکٹ کے ذمے داران کو جس وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا ، وہ ان سے نہیں کیا جا سکا ۔ یہ دکھ کا ایک سبب ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)