محترم عبدالقادر شمس صاحب مرحوم بڑی ہمہ جہت صفات کے ساتھ خلق ہوئے تھے،چوں کہ ان کی زندگی قدرے مختصر تھی،غالباً اس لیے قدرت نے ان سے بہت سے ایسے کام لیے،جو انسان عموماً لمبی لمبی عمروں میں بھی نہیں کرپاتا ہے۔وہ عالمِ دین تھے،اسلامیات سے ڈاکٹریٹ بھی کر رکھا تھا، پروفیشنل صحافی تھے اور ملک کے ایک وقیع اخبار میں دسیوں سال برسرِ عمل رہے،متعدد علمی و ادبی رسائل کی ادارت کی،وہ ایک باتوفیق مصنف و مؤلف بھی تھے اور کئی بہت اچھی کتابیں ان سے یادگار ہیں،وہ متعدد تعلیمی اداروں کے بھی بانی و سرپرست تھے اور سماجی خدمت کے شعبے میں بھی نہایت سرگرم رہے۔ان کی ذاتی زندگی بے پناہ اتھل پتھل سے بھی دوچار رہی، مگر وہ مذکورہ تمام شعبوں میں پورے عزم و ہمت اور قوت و حوصلہ مندی کے ساتھ اپنی کامرانی و بامرادی کے علم لہراتے رہے۔جب وہ با حیات تھے اور اپنی ماجرا پرور زندگی میں مست و مصروف تر،تو کبھی خیال اس طرف نہیں گیا؛لیکن جب وہ نہیں ہیں،تو کبھی کبھی یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ اس ایک آدمی میں بہ یک وقت کتنے آدمی جیتے تھے اور کیسے اعلیٰ ہدف و نصب العین کے ساتھ جیتے تھے، ہر منزل کو پالینے کے بعد ایک نئی منزل ان کے نشانے پر ہوتی اور ہر نصب العین کی تکمیل پر وہ ایک نئے نصب العین کی تعیین کرلیتے اور پھر اسے پورا کرنے میں جٹ جاتے۔اللہ پاک انھیں ابدی سکون و آسایش سے نوازے۔(آمین)
ابھی ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ مطبوعہ شکل میں نظرنواز ہوا،تو ان کی شخصیت پھر سے اپنی کئی اُجلی صفات کے ساتھ پردۂ ذہن پر جلوہ گر ہوگئی۔یہ مقالہ انھوں نے پروفیسر اختر الواسع کی نگرانی میں لکھا تھا،جس پر انھیں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔یہ مقالہ ہندوستان اور کویت کے علمی و ثقافتی رشتوں پر بالتفصیل روشنی ڈالتا ہے اور اس کے مطالعے سے دونوں ملکوں کے تعلقات کے اس اہم زاویے سے بھرپور آگاہی حاصل ہوتی ہے۔اس کا بنیادی تھیم کویت کی وزارت اوقاف اور اس کے تحت انجام پانے والے علمی و فکری کارناموں پر مرکوز ہے؛اس لیے مرحوم نے مقالے کے پہلے باب میں اوقاف سے متعلق اسلامی تصورات و تعلیمات کی توضیح و تشریح کی ہے،جس کے ذیل میں انھوں نے مجموعی طورپر مسلم معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اوقاف کے کردار کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ دوسرا باب کویت کی سیاسی،سماجی، ثقافتی، جغرافیائی، مذہبی و لسانی تعریف و تعارف پر مشتمل ہے اور اس کے مطالعے سے ہمیں مملکت کویت کا ہمہ گیر تعارف حاصل ہوجاتا ہے۔اس میں مملکت کویت کی علمی خدمات کا بھی بیان ہے اور کویت کی وزارت اوقاف کے تحت چلنے والے مختلف علمی و اشاعتی اداروں کا تعارف کروانے کے ساتھ ایک درجن سے زائد کویتی علما و دانشوران سے بھی متعارف کروایا گیا ہے۔اس مقالے کا تیسرا باب وزارت اوقاف کے تحت چلنے والے دو اہم علمی پروجیکٹ موسوعۂ فقہیہ اور وسطیہ پروجیکٹ سے متعلق جملہ مباحث و اطراف کا احاطہ کرتا ہے۔اس میں انھوں نے موسوعہ فقہیہ کی تیاری میں وزارتِ اوقاف کویت کی جدوجہد اور اس حوالے سے کیے جانے والے تمام ضرور ی اقدامات کا جائزہ لیاہے،جبکہ وسطیہ پروجیکٹ کی تفہیم کے ذیل میں اسلام اور اعتدال پسندی کے علمی تجزیے کے ساتھ حب الوطنی کے سلسلے میں اسلامی ہدایات و تعلیمات پر بھی معروضی گفتگو کی ہے۔ چوتھے باب میں وزارت اوقاف کی علمی و تحقیقی مطبوعات کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ پانچواں باب ہندوستان اور کویت کے علمی و ثقافتی اشتراکات کے جائزے کو محیط ہے اور اس میں دونوں ملکوں کے علما و دانشوران کے ساتھ دونوں طرف کی سرکاروں کی دلچسپیوں کا بھی ذکر ہے،باہمی ارتباط و اشتراک کے دوسرے شعبوں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے،اس باب میں کویت پہنچنے والے پہلے ہندوستانی شہری احمد عبدالرزاق کا بھی دلچسپ تذکرہ ہے،جو ۱۸۹۵ء میں حادثاتی طورپر اس طرف جا نکلے اور پھر وہیں کے ہورہے۔اس میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے ذریعے موسوعہ فقہیہ کے اردو ترجمے کے اہتمام و اشاعت کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں، تمام مترجمین کا بھی تعارف و تذکرہ کیا گیا ہے۔یہ ایک بڑا اہم پروجیکٹ تھا،جسے اسلامک فقہ اکیڈمی نے بخیرو خوبی پایۂ تکمیل تک پہنچایا اور ایک اہم فقہی و علمی ذخیرہ عربی سے اردو میں منتقل ہوگیا۔مترجمین میں دو درجن سے زائد چنیدہ اہل علم شامل تھے،پھر کئی مرحلوں میں نظرثانی اور تصحیح و پروف خوانی کا کام کیا گیا اور بالآخر ۴۵ جلدوں میں یہ عظیم الشان فقہی ذخیرہ منظرعام پر آیا۔اس باب کے آخر میں ایسے کئی ہندوستانی علما و فضلا کا بھی تذکرہ ہے،جن کی تصانیف /تالیفات/تحقیقات/تراجم کویت سے شائع ہوئے اور انھیں وہاں کے علمی حلقوں میں تحسین و پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان میں ڈاکٹر حمیداللہ ،ڈاکٹر سید رضوان علی ندوی،مولانا وحید الدین خان،مولانا علی میاں ندوی، مولانا حبیب الرحمن اعظمی،مولانا جلال الدین عمری،مولانا محمد الحسنی،قاضی مجاہدالاسلام قاسمی، مولانا صلاح الدین مقبول اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی وغیرہ شامل ہیں۔ الغرض یہ مقالہ کویت اور ہندوستان کے علمی و ثقافتی اشتراک کی پوری تاریخ کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے اور بیش قیمتی معلومات پر مشتمل ہے۔
اللہ پاک جزاے خیر عطا فرمائے محترم خالد اعظمی صاحب کو، جو عرصے سے بہ سلسلۂ روزگار کویت میں ہی مقیم ہیں، مگر بڑا ستھرا اور نکھرا علمی و اشاعتی ذوق بھی رکھتے ہیں؛ چنانچہ انھوں نے المنار پبلشنگ ہاؤس کے نام سے ابوالفضل، نئی دہلی میں اپنا باقاعدہ ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا ہوا ہے، جس کے زیر اہتمام انھوں نے اب تک درجنوں عمدہ اور معلومات افزا کتابیں شائع کروائی ہیں، زیر نظر کتاب بھی اسی زریں سلسلے کی کڑی ہے۔ نہ صرف انھوں نے اسے شائع کرنے کا اہتمام کیا اور مرکزی پبلی کیشنز کے ذریعے بہت وقیع، دل کش و دل نشیں انداز میں طبع کروایا ہے؛ بلکہ اس سے پہلے انھوں نے اس مقالے پر خود بھی باقاعدہ محنت کرکے اسے علمی و تحقیقی اعتبار سے خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش کی ہے۔ قرآنی آیات و احادیث سے از سرنو مراجعت کرکے ان کے حوالے اور ترجمے درج کیے ہیں، ہند – کویت تعلقات کی استواری میں مزید جن عوامل نے اپنا کردار ادا کیا ہے،جیسے دونوں ملکوں کے اب تک کے سفرا،کویت میں ہندوستانی تعلیمی ادارے، کویت سے شائع ہونے والی ہندوستانی علما کی کتابوں کے نام اور مختصر تعارف، مقالے میں مذکور بہت سے افراد کا حواشی کے ذریعے مختصر تعارف وغیرہ کا انھوں نے ہی اہتمام کیا ہے۔ اس طرح یہ مقالہ مزید بہتر اور جامع ہوگیا ہے۔ خالد اعظمی صاحب کی طرف سے محترم عبدالقادر شمس رحمہ اللہ کو یہ سب سے اچھا، خوب صورت ، پائیدار اور شان دار خراج ہے، جو انھوں نے بڑی خاموشی سے اور نہایت دلجمعی اور بے پناہ خلوص و لگن کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ابھی چھاپنے کے لیے شمس صاحب کے قلمی متروکات میں بے شمار چیزیں ہوں گی، مگر یہ ان کا سب سے اہم علمی و تحقیقی ترکہ تھا کہ جو خالد اعظمی صاحب کی کدو کاوش سے منظرِ عام پر آیا ہے اور کیا ہی شان سے آیا ہے ! فجزاہ اللہ أحسن و أجزل الجزاء
کتاب ہر صاحبِ ذوق، علم جو فرد کے لیے لائقِ مطالعہ و استفادہ ہے اور اس کے حصول کے لیے المنار پبلشنگ ہاؤس(9667072147) سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقادر شمس کے ایک وقیع علمی و تحقیقی ترکے کی اشاعت – نایاب حسن
previous post