میری ذہنی فکری تشکیل اور شعوری ارتقا میں جن تین شہروں کا حصہ رہا ہے، وہ تینوں شہر بنارس، دیوبند اور علی گڑھ اترپردیش میں واقع ہیں، اس لیے بہار کی تاریخ، جغرافیہ، سیاست و ثقافت سے میری واقفیت واجبی ہے۔ وطنی نسبت ہونے کے باوجود بہار سے ذہنی مناسبت ذرا کم کم ہے ۔
بہار کے دارالحکومت پٹنہ سے بذریعہ ریل گزرنے کا بارہا اتفاق ہوا مگر پٹنہ کے احوال و آثار سے کماحقہ آشنائی کی کوئی صورت نہ نکل سکی۔ ہمیشہ ایک ادھوری اور تشنہ ملاقات ہی رہی، وہاں کے صنادید و کبار شخصیات سے روبرو ہونے کا موقع نہیں ملا۔ یہ تو ’بفیض اردو‘ مکمل ملاقات کی سبیل نکل آئی ورنہ شاید ہی پٹنہ سے شناسائی کی کوئی اور صورت نکل پاتی اور یہ فیضان ہے اس فیض رساں شخصیت کا جنھیں اردو دنیا ’امتیاز احمد کریمی‘ کے نام سے جانتی ہے۔ نہ وہ اردو ڈائریکٹوریٹ کے ڈائرکٹر بنتے نہ ’جشن اردو‘ کا خیال آتا اور نہ ملک کے طول وعرض سے ادبا و شعرا آتے اور نہ مشاہیر سے ملاقات کی صورت نکل پاتی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے صوبہ بہار کے کسی ایسے سرکاری ادارے کا علم ہی نہیں تھا جو اردو ڈائریکٹوریٹ کے نام سے جانا جاتا ہو۔ پہلی بار میں نے ذوقی بھائی (مشرف عالم ذوقی) سے ’جشن اردو‘ کا ذکر سنا اوراسی حوالے سے اردوڈائریکٹوریٹ کی بابت پتہ چلا۔ ذوقی بھائی بہت سی باتوں کو exaggeration سے بیان کرنے کے عادی رہے ہیں اس لئے جشن اردو سے متعلق ان کا بیانیہ مجھے مبالغہ آمیز لگا مگر جب میں جشن اردو کا حصہ بنا تو محسوس ہوا کہ ذوقی بھائی کی بات مبالغہ نہیں، حقیقت پر مبنی ہے۔ جیسا انھوں نے بتایا تھا اس سے بڑھ کر پایا۔ میں نے ادیبوں اور فنکاروں کا اتنا اکرام و اعزاز اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا تھا۔ عالیشان ہوٹل میں قیام، ماکولات و مشروبات کا عمدہ انتظام، انواع و اقسام کے کھانے کہ اس سے قبل شاید ہی کبھی دیکھے ہوں جبکہ مجھے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں لذت کام و دہن کا بارہا موقع ملا ہے۔ کھانے سے زیادہ مجھے امتیاز کریمی کا ذوقِ ضیافت دیکھ کر اچھا لگا۔اس مرد خلیق کی محبت ،خلوص اور انکساری نے مجھے بہت متاثر کیا۔ مہمانوں کا کون اتنا خیال رکھتا ہے اور رکھتا بھی ہے تو قدرے امتیاز و تفریق کے ساتھ اور اس میں بھی مفادات کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ مگر کریمی صاحب کا معاملہ ہی الگ تھا ان کے لیے ہر مہمان قابل صد احترام تھا۔
ناشتے میں ہی اتنے ڈش تھے کہ میں دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ پاپولر اور ریجنل سارے ڈشز تھے۔ جاؤں تو کدھر جاؤں ہوتا نہیں فیصلہ والی حالت تھی ۔
امتیاز کریمی صاحب کی جگہ کوئی اور ڈائریکٹر ہوتا تو آرٹسٹوں اور قلمکاروں کو جانے کتنے کرب اور قیامتوں سے گزرنا پڑتا، مگر ان کی وجہ سے ادیبوں اور فنکاروں کو بہت عافیت اور راحت نصیب ہوئی کیونکہ انھوں نے ہمیشہ خیالِ خاطرِ مہمانان رکھا اور جشن میں بھی قلم کاروں کی بھرپور قدرافزائی کی۔ جشن اردو میں ان کا جوش، جذبہ اور جنون میں نے دیکھا ہے۔ ان کی کرشمائی شخصیت کا میں گواہ ہوں۔ ڈائریکٹر اگر ڈائنامک نہ ہو تو سارے جذبے، عزائم ، منصوبے سرد خانے کی نذر ہوجاتے ہیں اور رواں و متحرک چیزیں بھی منجمد اور معطل ہوجاتی ہیں۔ دائرہ کار سمٹ اور سکڑجاتا ہے اور فیض ’عام‘ نہیں ہوتا بلکہ مخصوص طبقہ یا لابی میں ریوڑیاں بٹتی رہتی ہیں۔ اعزہ، احباب اور اقارب ہی فیض اٹھاتے رہتے ہیں مگر امتیاز کریمی کی ذات والا صفات سے ہر کسی کو اور رےاست بہار کے ہر علاقے کو فیض پہنچا ہے۔ دراصل انہوں نے تلاش جوہر کے عمل کو جاری رکھا اور جہاں کہیں جواہر ملتے گئے، انہیں اعزاز و اکرام سے سرفراز کیا۔
ایک لمحے کو مان لیجئے کہ ان کی جگہ اگر اردو کا کوئی پروفیسر ڈائریکٹر ہوتا تو حلقہ بگوشوں کے علاوہ شاہد ہی کسی اور فیض پہنچ پاتا اور ڈائریکٹوریٹ بھی چند قریبی نفوس میں سمٹ کر رہ جاتا۔ یہ تو کریمی صاحب کی فراخ دلی اور وسعت ذہنی ہے کہ ادب و ثقافت سے جڑے ہوئے افراد کو مواقع اور سہولیات فراہم کیں اور انہیں پلیٹ فارم مہیا کیا۔ ان کے عہد میں ثقافتی اور ادبی تقریبات کے تسلسل نے تحرک کی جو کیفیت پیدا کی اس سے اردو ڈائریکٹوریٹ کا ادبی و ثقافتی سطح پر دائرہ وسیع سے و سیع تر ہوتا گیا۔ تندیِ باد مخالف کے باوجود تحرک میں کوئی کمی نہیں آئی۔
مجھے قطعی یہ علم نہیں کہ اردو ڈائریکٹوریٹ کا قیام کب عمل میں آیا، اس کے تاسیسی مقاصد کیا تھے، اس کی سرگرمیوں کا دائرہ کیا تھا، اس کے منصوبے کیا تھے۔ یہ تو امتیاز کریمی کی ڈائریکٹر شپ کے زمانے میں پتہ چلا کہ یہ کثیر المقاصد ادارہ ہے جس کے تحت اردو آموزی، یادگاری تقریبات، مسودات پر مالی اعانت، اعلیٰ اعزازی انعامات، فردناموں اور کتابوں کی اشاعت، ضلع سطحی فروغ اردو کے پروگرام اور اردو مترجمین کا تقرر اس کے منصوبوں میں شامل ہیں، اور ان معلومات کا وسیلہ بھی وہ اردو ڈائریکٹری بنی جسے ضروری عمومی معلومات کا مخزن کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ شاید ہی کسی اردو اکادمی یا ادارہ سے اتنی خوبصورت با معنی ڈائری شائع ہوتی ہو۔ یہ سارا کمال امتیاز کریمی کے اختراعی اور اسلم جاوداں کے تجسس آشنا ذہن کا ہے۔ اس کے ہر صفحہ سے محنت و ریاضت عیاں ہے۔ بھلا سرکاری اداروں میں اتنی محنت کون کرتا ہے۔ یہ تو ان دونوں کا جگرا اور جذبہ ہے کہ ڈائری میں بیش قیمت تفصیلات کے ساتھ نگارخانہ شعر و سخن کی سیاحت بھی ہو جاتی ہے۔ بہار کے نامور شعرا کی تاریخ پیدائش و وفات، سرکاری محکمہ جات کے افسران کے نام اور رابطہ نمبر، اردو ہندی اور انگریزی اخبارات کے مدیران اور صحافیوں کے فون نمبرز۔اس کے علاوہ اور بہت سی معلومات۔
ڈائریکٹر امتیاز کریمی کے ہر عمل سے ایک dynamism جھلکتی ہے۔انہی کے دور میں مجلہ ’بھاشا سنگم‘ نہ صرف تسلسل کے ساتھ شائع ہوتا رہا بلکہ اس کے کئی دستاویزی خصوصی شمارے بھی شائع ہوئے اور ادبی حلقوں میں ’بھاشا سنگم‘ کا وقار و اعتبار بھی قائم ہوا۔ سب سے خاص بات یہ ہے کہ جشن اردو کے نام سے جتنے بھی پروگرام کیے گئے اس کے مقالات نہ صرف اہتمام کے ساتھ شائع کیے گئے بلکہ اس موقعے کی تصاویر بھی شائع کی گئیں جس کی وجہ سے جشن اردو پروگرام شاید برسوں تک ذہنوں میں زندہ رہے گا۔
امتیاز احمد کریمی مختلف اعلی مناصب و مراتب پر فائز رہے۔ ڈپٹی کلکٹر، سی ای او، بی پی ایس سی کے ممبر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ مگر ان کے اندر وہ Shitty Attitudeنہیں آیا اور نہ ہی وہ تبختر اور تفاخر جو اعلیٰ سرکاری افسران سے مشخص ہے۔ عہدہ جاتی زعم سے انھوں نے اپنی شخصیت کو بچائے رکھا کہ انہیں ےہ علم ہے کہ عہدہ جاتی شناخت عارضی ہوتی ہے، اس لیے انھوں نے تھوڑا سا وقت ترتیب وترجمے کو دیا اور اس کے نتیجے میں محفل افسانہ، شعری محفل، کلیاتِ رمز عظیم آبادی، مشاہیر دبستانِ بہار، اکابرین ادب بہار، وہ آدمی سہیل عظیم آبادی اور تراجم میں ماٹی کا گھر(ممتا میوریترا) وقف 8 جیسی قیمتی کتابیں منظرعام پر آئیں۔ ان کی ایک خاص خوبی یہ ہے کہ جہل آگہی اپنے آپ کو محفوظ رکھا اور گیلی زمین کھود کر فرہاد بننے کی کوشش نہیں کی بلکہ زمانے کو روشنی بخشنے کی کوشش کی۔ انہوں نے اپنی ذات کو فلاحی اور رفاہی کاموں کے لیے وقف کر دیا۔ قوم و ملت کے وہ سچے غمگسار ہیں۔ انہوں نے ہر محاذ پر ابنائے وطن کی رہنمائی کی ہے۔ وہ اپنی ذات کے خول میں اسیر نہیں رہے اور نہ ہی کسی منصب سے منفعت اور مفاد کا رشتہ رکھا۔ انہوں نے اپنے مناصب کو ترقیِ درجات کا زینہ اور رابطہ عامہ کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ ملک اور قوم کی بے لوث خدمت کی اور ہر ایک کے ساتھ ان کا مخلصانہ سلوک رہا۔
2019 میں جب میری بیٹی انیقہ کی حادثاتی موت کا انہیں پتہ چلا تو نہ صرف فون پر تعزیت کی اور تسلی دی بلکہ دلی آکر براہ راست اظہار تعزیت کیا۔ ایسی دردمندی میں نے بہت کم بڑے لوگوں میں دیکھی ہے۔ میں نے زیادہ تر بڑے لوگوں میں چھوٹا پن ہی دیکھا ہے مگر امتیاز کریمی واقعی ایک بڑی شخصیت ہیں، خلوص و محبت کا پیکر،ایسی ستودہ صفات شخصیت کے بارے میں سوچتا ہوں تو بہت سی personilities inspiring یاد آجاتی ہیں جن کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
آج کے مادی اور مشینی معاشرہ میں ایسی شخصیتیں خال خال ہیں، جن کے دل میں سارے جہاں کا درد ہو، جو اپنی ذات کی نفی کرکے دوسروں کے لیے فکر مند ہو، ایسی عطر بیز شخصیت شاید ہی ڈھونڈے سے کہیں ملے۔ واقعی امتیاز کرےمی صاحب اےسی شخصیت ہیں کہ دہر سے اُن کے نشاں کبھی نہیں مٹ سکتے۔ اُن کے بارے مےں میں تو صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ :
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے