Home مباحثہ امارت شرعیہ کی تاریخ کا ایک اہم باب،جسے مٹایا جارہا ہے- نوراللہ جاوید

امارت شرعیہ کی تاریخ کا ایک اہم باب،جسے مٹایا جارہا ہے- نوراللہ جاوید

by قندیل

امارتِ شرعیہ بہار ،جھار کھنڈو اڑیسہ حضرت مولاناابوالمحاسن سجاد صاحبؒ کے عالی دماغ ، فکر ونظر کی بلند ی اور اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کے لیے ان کی فکر مندی کا نتیجہ ہے۔ابوالمحاسن حضرت مولانا محمد سجاد ؒ امارت شرعیہ کے قیام کے ذریعے ہندوستان میں مسلمانوں کی دینی ، ملی اورسیاسی مستقبل کو محفوظ کرناچاہتے تھے،ان کامنصوبہ تھاکہ امارت شرعیہ کے ذریعہ ایک ایسا ادارہ قائم کیا جائے،جو مسلمانوں کو اجتماعیت فراہم کرسکے اور اس کے سایے میں مسلمان آزادانہ طورپر اپنی عائلی زندگی قرآن و حدیث کی روشنی میں گزار سکیں اور اپنے تنازعات  عدالتوں کے بجائے اسلامی عدالتوں سے حل کرائیں ۔ امارت شرعیہ کے قیام کے ذریعہ مولا نا ابوالمحاسن محمد سجادؒ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کی معاشرت ،کلچر، سوشل تہذیب،اوقاف،نکاح ،طلاق،زکوۃ ،عشرہ اور دیگر تمام دینی امور ایک شرعی عدالت کے تحت انجام دیے جائیں ۔ ہندوستان کے دستور اساسی میں مسلمانوں کے عائلی اور مذہبی حقوق کی ضمانت حاصل کی جائے اور یہ تمام امور امارت شرعیہ کے تحت انجام دیے جائیں ۔ مولاناابوالمحاسن سجاد ؒ پورے ہندوستان میں امارت شرعیہ قائم کرنا چاہتے تھے ۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ کو قائل بھی کرلیا تھا ۔مگر مالٹاکی اسیری سے نجات ملنے کے ساتھ ہی شیخ الہند ؒ کی صحت خراب ہوگئی ۔ جمعیہ علماے ہند کے اجلاس کی صدارت شیخ الہند کو کرنی تھی، مگر طبیعت کی ناسازی نے اس کی اجازت نہیں دی جب کہ اسی اجلاس میں امارت سے متعلق تجویز پیش کیا جانا تھا اور امید تھی کہ اس موقعے پر امیر شریعت کا انتخاب کرلیا جائے گا ،مگر ایسا نہیں ہوسکا اور حضرت شیخ الہند ؒ کا بلاوا آگیااور وہ راہی عدم ہوگئے ۔ حضرت شیخ الہند کے انتقال کے بعد اس کے لیے کوشش بھی ہوئی ، امارت کے قیام پر سبھی متفق ہوئے، مگر امیرشریعت کا مسئلہ حل نہیں ہونے کی وجہ سے یہ بات آگے نہیں بڑھ سکی اور اس طرح پورے ہندوستان میں امارت شرعیہ کے قیام کا خواب خواب ہی رہ گیا،مگرمولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؒ بہار میں امارت شرعیہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے اور امارت کے قیام کے ذریعے انہوں نے جہاں مسلمانوں کی دینی رہنمائی کی، وہیں مولانا نے بہار میں سیاسی جماعت قائم کی اور حکومت سازی میں شامل بھی ہوئے ۔امارت شرعیہ کے قیام کو سو سال مکمل ہوچکے ہیں ، آج امارت شرعیہ بہار ہی نہیں؛ بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک اہم ادارہ ہے ۔ امارت شرعیہ جس شکل و صورت میں آج ہمارے سامنے ہے اور مختلف جہتوں اور شعبوں میں ہندوستانی مسلمانوں کو فیض یاب کررہی ہے ،اس کے پیچھے دو شخصیتوں کا بہت ہی اہم کردار رہا ہے،ان میں سے ایک مولاقاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ اور دوسری شخصیت امیر شریعت سادس مولانا سید محمد نظام الدینؒ کی ہے۔

قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کے لائق و فائق بھتیجے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جو علمی اعتبار سے حضرت قاضی صاحب کے جانشیں بھی ہیں،انھوں نے اپنے مضمون ’’قاضی صاحب: ایک خاکہ ‘‘ میں قاضی ؒ صاحب کے خاندانی پس منظر ، زندگی کے ابتدائی ایام کا ذکر کرنے کے ساتھ ان کی ملی و قومی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ویسے تو یہ پورا مضمون مطالعے کے قابل ہے، تاہم قارئین کے لیے اس مضمون کے چند اقتباسات پیش کرکے بات آگے بڑھائی جاتی ہے۔ مولانا نے لکھا ہے کہ:

’’امار ت شرعیہ میں آپ اس وقت آئے جب کام کرنے والوں کو بیٹھنے کے لئے باقاعدہ بوریا بھی میسر نہیں تھااور امارت کا دائرۂ اثر پٹنہ اور صوبہ کے کچھ مخصوص علاقے تک محدود ہوکر رہ گیا تھا، بیت المال خالی تھا ،دارالقضا کا کام پھلواری شریف تک محدود ہوکر رہ گیا تھا اور پورے صوبے میں صرف دو مقامات پر دارالقضا قائم تھے ۔آپ کی کوششوں سے موجودہ امیر شریعت حضرت مولانا محمد نظام الدین صاحب دامت برکاتہم(اب مرحوم ہوچکے ہیں) تشریف لائے اور انتظام و انصرام کا شعبہ ان سے متعلق ہوا ، قضا کے نظام کی تو سیع اور زیادہ سے زیادہ مقامات پر دارالقضا قائم کئے گئے۔آپ نے شبانہ روز جد وجہد کی ، اس اہم اورنازک کام کیلئے افراد کار تیار کئے ،امارت شرعیہ کا وفد لے کر گاؤں گاؤں پہنچے ، قریہ قریہ کو امارت کی تنظیم سے منسلک کیا، مکاتب قائم کئے ،لوگوں کے باہمی نزاعات کا تصفیہ کیا اورمدتوں کی مقدمہ بازیاں چند ساعتوں کی کوشش سے ختم ہوئیں ، شہر شہر ، گاؤں گاؤں کا دورہ کیا ، آپ کی اس جدو جہد کا یہ فائدہ ہوا کہ ہر عام و خاص کی امارت سے وابستگی بڑھی اور امارت کے تمام شعبوں کو استحکام حاصل ہوا ۔ دارالقضا میں مقدمات کی آمد بڑھی ، بیت المال کو استحکام حاصل ہوا ،مسلمانوں میں آپ اپنی تعلیم کے نظم کا مزاج پیدا ہوا اوربہار و اڑیسہ میں امارت کی آواز مسلمانوں کے مسائل کے لئے ایک ایسی نمائندہ آواز سمجھی گئی کہ حکومتیں بھی اسے اہمیت دینے پر مجبور ہوئیں اور ارباب اقتدار کو بھی ان بوریہ نشینوں کی بارگاہ میں حاضری کے سواچارہ نہ رہا‘‘۔

قبل اس کے کہ امارت شرعیہ کی تاریخ کے ساتھ چھیڑ خانی کی جائے، ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سچائیوں اور حقائق کو آن ریکارڈ رکھا جائے کہ مسلمانان ہند میں امارت شرعیہ پھلواری شریف کا اگر مقام و مرتبہ ہے، تو اس میں ایک بڑا حصہ حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمیؒ  کی جد وجہد اور انتظام کار کا ہے۔امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے مسلمانو ں کی تعلیمی ترقی کے لیے عملی اقدامات، ٹیکنیکل انسی ٹیوٹ اور دیگر اداروں کا قیام ان کے ہی ذہن رسا کا کمال ہے ۔ یہ بات ذہن نشیں رہے کہ امارت شرعیہ کے ناظم مولانا قاضی احمد حسین ؒکے انتقال اور حضرت مولانا شاہ عون احمد قادریؒ کے عہدۂ قضا سے الگ ہوجانے کے بعدامارت شرعیہ 1962میں بحران کا شکار ہوگئی تھی ۔ امیرشریعت مولانا سید منت اللہ رحمانی اور نائب امیر شریعت مولاناعبد الصمد رحمانی کے مشورے پر 1962میں مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒ کو امارت شرعیہ کی نظامت اور قضا دونوں کی ذمہ داری سونپی گئی ۔جیسا کہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ اس وقت امارت شرعیہ میں بیٹھنے کے لئے بوریا تک نہیں تھا اور امارت کا دائرۂ اثر پٹنہ شہراور آس پاس کے علاقے تک محدود ہ تھا۔ان حالات میں مولانا قاضی مجاہدالاسلا قاسمیؒ نے امارت شرعیہ کے گیسوے برہم کو سنوارنے کی ذمے داری قبول کی ۔ حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کی شخصیت عبقری تھی۔اللہ نے انھیں منصوبہ ساز ذہن عطا فرمایا تھا۔ فکرِسجاد سے بہت کچھ حاصل اور اخد کیا تھا ؛اس لیے ان کے ذہن و دماغ میں امارت کی اہمیت و افادیت نقش تھی ۔ ابوالمحاسن حضرت مولانا سجاد ؒ کے مقاصد اور ان کے وژن کا حضرت قاضیؒ صاحب نے گہرا مطالعہ کیا تھا؛ چناں چہ وہ امارت بھی اسی مقصد کے تحت آئےکہ حضرت مولانا محمد سجادؒ کے خوابوں کی تکمیل کی جائے اور یہ اسی وقت ہوسکتا تھا جب امارت کا فیض بہار ہی نہیں؛ بلکہ ہندوستان کے چپے چپے اورتمام  علاقے تک پہنچے۔ جب مشن بڑا تا ہے اور وژن کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا ہی زندگی کا حاصل ہوتا ہے، تو ذاتی مفادات اور انا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کے پیش نظر امارت شرعیہ کو بلندیوں تک پہنچانا تھا۔ہندوستانی مسلمانوں کی آواز بنانا تھا اور حضرت مولانا ابوالمحاسن سجاد کے خوابوں کی تکمیل کرنی تھی، اس کے لیے ایک ٹیم کی ضرورت تھی؛لہذا انہوں نے اس کے لیے دارالعلوم دیوبند کے اپنے رفیق مولانا سید محمد نظام الدین کا انتخاب کیا۔وہ اس وقت دارالعلوم چترا میں مدرس تھے۔ مولانا سید محمد نظام الدین اپنے بزرگ مولانا سید منت اللہ رحمانی اور مولانا عبدالصمد رحمانی کے حکم اور اپنے رفیق درس مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی کے اصرار کو نظرانداز نہیں کرسکے۔1964میں وہ امارت شرعیہ سے وابستہ ہوگئے ۔ ان دونوں نے امارت کی تعمیر و ترقی ، نیک نامی اور حضرت ابوالمحاسن محمد سجادؒ کے خوابوں کی تعبیر کوہی اپنی زندگی کا سب سے بڑا مقصد اور مشن بنالیا۔ان دونوں کی جوڑی نے خلوص و للہیت ،خودسپردگی کی جومثال قائم کی ہے، وہ آج کے دورمیں کمیاب ہی نہیں،نایاب ہے ۔آج دینی ادارے عہدوں کی جنگ کا مرکز بن چکے ہیں۔ بندوقیں تان لی جاتی ہیں اور اسی امارت شرعیہ میں یہ سب ہو چکا ہے، مگر اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے حضرت مولانا قاضی مجاہدا لاسلام ؒ کو کہ انہوں نے امارت شرعیہ کی ترقی کی خاطر نظامت کا عہدہ اپنے دوست مولانا سید محمد نظام الدین ؒ کو سونپ دیا۔حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کا یہ کردار دینی مشن سے جڑے افراد کے لیے ایک سبق اورپیغام ہے۔ کوئی بھی شخص یونہی عظیم نہیں بن جاتا ۔ عظمت کے لیے پہلی شرط قربانی اور ایثار ہوتی ہے۔ ذاتی مفادات سے کہیں زیادہ ادارے کا مفاد عزیز ہوتو اس وقت جنگ وجدل کی نوبت نہیں آتی ہے۔

امارت شرعیہ کی تعمیر و ترقی میں حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کے کردار پر ان کے رفیق کار اور چار دہائیوں تک ساتھ مل کر یکسوئی کے ساتھ کام کرنے والے سابق امیرشریعت حضرت مولانا سید محمد نظام الدین ؒنے اپنے مضمون ’’حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی اور 37سالہ رفاقت‘‘میں اس طرح روشنی ڈالی ہے:

’’اس وقت سے ہم دونوں نے ساتھ مل کر اپنے عہدوں کا فرق کیے بغیر امارت شرعیہ کے سارے کام کو انجام دینا شروع کردیا، سب سے پہلے عوام میں اتحاد کو بحال کرنا تھا، اس کے لیے تنظیمی علاقوں کا دورہ کرنا تھا، تما م شعبوں کی ترقی کے لیے مالی استحکام کا نظم کرنا تھا،ہم دونوں نے اس وقت کے کارکنوں اورمبلغوں کو ساتھ لے کر پوری لگن کے ساتھ اس کام کو انجام دیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہرمرحلے میں کامیاب رہے ، اس طرح 1964سے 2002یعنی 37سال تک ہرکام میں ساتھ رہے ۔ یہ بات ضرور تھی کہ ہمارے منصوبوں کی کامیابی قاضی صاحب کی ذہانت ،ان کی اقدامی صلاحیت ، ارادے کی پختگی ،راستے کی صعوبتوں کو جھیلنے اور رکاوٹوں کو دور کرنے کی پوری صلاحیت تھی اور اس سے ہمیں اپنے دووں کو کامیاب بنانے میں مدد ملتی رہی‘‘۔

آگے لکھا ہے:

’’1965میں ہندوستان اور پاکستان کی پہلی جنگ ہوئی، تو اس میں امارت شرعیہ نے جو موقف اختیار کیا، اس میں امیر شریعت مولانا سید منت اللہ رحمانی ؒ اور مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کی حکمت عملی کا بڑا دخل تھا‘‘۔

مولانا سید محمد نظام الدینؒ نے اپنے مضمون میں امارت شرعیہ کے لیے زمین کے حصول سے لے کر اسپتال، ٹیکنکل ادارے اور امارت کو عوام سے جوڑنے میں حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی کے کردار ، ان کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کا ذکر کیا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ آج امارت شرعیہ جو کچھ بھی ہے، وہ ان دونوں بزرگوں کی محنت ومشقت اور جدوجہد کانتیجہ ہے ۔ ملک بھر میں دارالقضا کا قیام، امارت شرعیہ کی افادیت کو عا م کرنے کے لیے مختلف اداروں کا قیام، المعہد العالی فی تدریب الافتا و القضا، دارالعلوم امارت شرعیہ،بہارکے مدارس اسلامیہ کی تنظیم ’وفاق المدارس الاسلامیہ بہار‘ امارت شرعیہ ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ اور اسپتال یہ سب ان ہی دونوں بزرگوں کے دور میں بنائے گئے ۔

مگرآج یہ جا ن کر دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ اسی امارت شرعیہ میں مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒ کا ذکر مصیبت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ وہ افراد جنھوں نے حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی کی تربیت میں امارت میں عروج حاصل کیا تھا ،وہ بھی فکر معاش کی وجہ سے ان کے ذکر سے گریز کرنے لگے ہیں۔یہ وقت کی ستم ظریفی ہے، مگر یہ سب زیادہ دنوں تک نہیں چلنے والا ہے، مستقبل کا مؤرخ ضرور ایسے چہروں کو بے نقاب کرے گا اور تاریخ کے ماتھے پر مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ کا نام ’’ نقشِ جادواں ‘‘کے طور پر چمکے گا۔

جیسا کہ مولانا سید محمد نظام الدین ؒ نے اپنے مضمون میں اس کا ذکر کیا ہے کہ امارت شرعیہ کاانتظام و انصرام سنبھالتے ہی عوام میں اتحاد کو بحال کرنے کی جدو جہد شروع کی گئی، دراصل یہ حضرت مولانا مجاہدالاسلام قاسمی ؒ کی پوری زندگی کا حاصل ہے، وہ امت مسلمہ کو وحدتِ کلمہ کی بنیاد پر جمع کرنے اور متحد کرنے کے لیے سرگرم عمل رہے ۔امارت شرعیہ کا پلیٹ فارم ہو یا مسلم پرسنل لا بورڈ یاپھر ملی کونسل یا اسلامک فقہ اکیڈمی ؛ہرجگہ ان کی زندگی کامشن امت مسلمہ کو وحدت کلمہ کی بنیاد پر متحد کرنا تھا۔اختلافی معاملات میں اعتدال کی راہ پر قائم رہتے ہوئے تعامل اور تعاون باہمی کی راہیں کھولنا ان کا سب سے بڑا مقصد تھا۔ملی کونسل کی تعمیر و ترقی میں کئی سالوں تک رفاقت کا کردار ادا کرنے والے حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی سابق ممبر پارلیمنٹ وسابق جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل نے اپنے مضمون ’’اتحاد ملت کا عظیم داعی قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ‘‘ میں حضرت قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے اس وصف کو نمایاں کیا ہے ۔مولانا اسرارالحق قاسمی نے لکھا ہے کہ :

’’حضر ت قاضیؒ صاحب اتحاد امت کے عظیم داعی اور پرجوش علمبردار تھے‘‘۔ مولانا قاسمی نے کانپور میں منعقد مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس میں حضرت قاضی صاحب کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ تقریر آج بھی کانوں میں گونج رہی ہے اور وہ اجلاس کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ حضرت قاضی صاحب کی تقریر محض تقریر نہیں تھی ؛بلکہ ایک مجاہد کی للکار تھی، جس نے پورے مجمع کو گوش برآواز کرد یا تھا ۔ایک طاقتور پیغام پوری قوت کے ساتھ سنارہے تھے۔

’’لوگو!امت اصل ہے ، امت کی بقا ، امت کا تحفظ ،امت کا استحکام ،امت کی وحدت اصل ہے،امت رہے گی، تحریکیں برپا ہوتی رہیں گی، امت رہے گی تو تنظیمیں اور جماعتیں وجود میں آتی رہیں گی، جماعتیں اصل نہیں ہیں ، امت اصل ہے۔امت کبھی بانجھ نہیں رہی۔امت باقی رہے گی تو اس میں سیکڑوں ابوالحسن اور سیکڑوں منت اللہ رحمانی پیدا ہوں گے۔ لوگو!امت کا اتحاد ،امت محمدیہ والی شان اور ابراہیمی مزاج مطلوب و مقصود ہے‘‘۔

یہ تھا حضرت قاضی صاحب کی زندگی کا مشن اور ان کی دعوت ،انہوں نے وحدت امت کا پیغام ملک کے چپے چپے تک پہنچایا ،ان کا بس ایک ہی خوا ب تھا کہ بکھری ہوئی امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردیں،انھوں نے لکھنؤ میں شیعہ و سنی کے مشہور اختلافات کو ختم کرنے کے لیے بہت کوشش کی اور ان کی کوششوں کا ہی نتیجہ تھا کہ اختلاف کی شدت میں کمی آئی ، ایک دوسرے سے ملاقات اور ایک دوسرے کی مجلس میں شرکت کا سلسلہ شروع ہوا۔اسی طرح حضرت قاضی مجاہدالاسلام قاسمی ؒ کو جب علم ہوا کہ ہندوستان کے کئی حصوں میں ایک مسلک والے دوسرے مسلک والوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے ہیں، تو گرچہ وہ بستر مرگ پر تھے اور قویٰ جواب دینے لگے تھے، مگر ان حالات میں بھی آپ نے ایک جامع فتویٰ دیا کہ ایک مسلک والے دوسرے مسلک والے کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں،امت فتنے میں مبتلا نہ ہو۔

 

You may also like

Leave a Comment