ریسرچ اسکالر جامعہ ام القری،مکہ مکرمہ
امارت شرعیہ ایک دینی، دستوری اور قانونی ادارہ ہے، اس کے دستور کے مطابق امیر میں حسب ذیل شرطیں ہونی ضروری ہیں :
1-عالم باعمل ،صاحب فتوی۔جس کاعلمی حیثیت سے زمرہ علما ٕ میں ایک حدتک وقارواثرہو،تاکہ علما ٕ کرام اس کے اقتدارکوتسلیم کریں۔اورصاحب بصیرت ہو،تاکہ نہایت تدبیرکے ساتھ احکامات نافذکرے۔
(حیات ابوالمحاسن۔دسواں باب: امارت شرعیہ،ص:٤٨٥ )
مفکر اسلام مولانا ابو المحاسن محمد سجاد صاحبؒ نے دستور سازی میں خدا ترسی، دور اندیشی اور عرق ریزی سے کام لیا تھا، چنانچہ ایک طرف شرعی ضابطوں کی رعایت کی گئی، دوسری جانب قانونی سانچہ و ڈھانچہ کو مضبوط بنایا گیا، یہی وجہ ہے کہ امارت شرعیہ نے سو سال کا سفر کامیابی ساتھ مکمل کیا، اور یقین ہے کہ جب تک اس دستور کی پاسداری کی جاتی رہے گی، بزرگوں کا یہ ورثہ اور ملت کا قیمتی سرمایہ محفوظ رہے گا، ورنہ اس کا شیرازہ بکھرتے اور تانے بانے ٹوٹتے دیر نہیں لگی گی۔
"دین کا علم” ایک بحر بے کراں ہے، فرہنگ و لغت کے اعتبار سے "اقل ترین شرح علم” رکھنے والے کو بھی عالم کہا جا سکتا ہے اور وقت کے مجدّد و مجتہد کو بھی، مگر جب کسی سماج و معاشرہ میں کوئی لفظ اصطلاح کی حیثیت اختیار کر جائے، تو عام طور پر اس لفظ سے وہی اصطلاحی معنی مراد لیئے جاتے ہیں، جیسے قرآن مجید میں الصلاة، الصوم، الحج، الكفارة، الظهار،الجهاد جیسے عربی الفاظ خاص اصطلاح کی حیثیت سے استعمال ہوئے ہیں، اب اگر کوئی شخص ان کے لغوی معنی کو بنیاد بنا کر اجتہاد و استنباط کرنے لگے، تو یہ نہایت لغو اور گمراہ کن بات ہوگی۔
۔
برصغیر کے تناظر میں "عالم دین” ایک خاص اصطلاح ہے، یہ لفظ مختلف ملی و دینی جماعتوں کے دستور اور خواندہ و ناخواندہ افراد کے زیر استعمال رہا ہے۔ اس سے مراد کسی روایتی مدرسہ کے باضابطہ فارغ کو لیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز سے استفادہ کنندگان کو سماج میں عالم دین کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا، بلکہ بسا اوقات انہیں اسکالر یا اسلامی اسکالر کا لقب دیا جاتا ہے۔ مگر امامت، افتاء و قضاء اور دیگر دینی امور کےلیئے عوام و خواص کی جانب سے روایتی علماء ہی کو حق دار اور روادار سمجھا جاتا ہے۔
ہندوستان کی متعدد دینی، ملی اور اسلامی تحریکوں میں کلیدی عہدہ کےلیئے عالم دین ہونا شرط ہے، جیسے جمعیت العلما، عہدہ صدارت آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، آل انڈیا ملی کونسل اور دیگر، اسی طرح جو ہمارے قدیم دینی تعلیمی سینکڑوں مراکز ہیں، ان میں بھی عہدہ اہتمام یا نظامت کےلیئے روایتی عالم دین ہونا ضروری سمجھا گیا ہے، جیسے دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوة العلماء لکھنؤ، جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور، مدرسہ سبیل الرشاد بنگلور، فلاح دارین گجرات، جامعہ نظامیہ وغیرہ۔ اب اگر عالم دین سے مراد غیر روایتی مولوی، یا مدرسی تعلیم سے نا بلد افراد لیا جانے لگے، تو اس کی ضرب اور زد ان تمام اداروں پر پڑے گی، پھر دیوبند کا مہتمم کوئی میڈیکل ڈاکٹر، دارالقضاء کا قاضی کوئی انجنیئر، دارالافتاء کا صدر کوئی آئی ٹی اکسپرٹ، پرسنل لا بورڈ کا صدر کوئی جج و قانون داں اور جمعیت العلماء کا صدر کوئی سائنٹسٹ یا صحافی پورے حق کے ساتھ بنے گا۔ پھر اندازہ لگائیے ان باوقار اداروں کا کیا حشر ہوگا؟!
اصولی بات یہ ہے کہ ہر میدان کار کےلیئے افراد کار ہوتے ہیں، اور ان کے حق میں قرین انصاف یہ ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہ کر ہنر آزمائیں اور جلوے دکھلائیں۔
بزرگوں کے آستانے اور صوفیا کی خانقاہیں ہمارا قدیم اور قیمتی ورثہ ہیں، ان کے فیض سے لاکھوں افراد راہ راست تک پہنچے، مگر حیف صد حیف اب ان اداروں سے رہنمائی و دست گیری اور افراد سازی کا کام گویا کہ رک سا گیا ہے(إلا ماشاء الله)، غور کیا جائے تو اس کا ایک بنیادی سبب ان خانوادوں اور خانقاہوں میں سجادگی کےلیئے "علمی اہلیت” کے بجائے "خاندانی نسبت” کو اہمیت دی جانے لگی۔ اس تلخ تجربہ سے سبق سیکھنا چاہیئے اور اپنے بچے کھچے اداروں کی حفاظت کےلیئے پیش بندی کرنا چاہیے۔
امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ، جھارکھنڈ ایک خالص دینی، مذہبی اور مرکزی ادارہ ہے، اس کا بنیادی مقصد قانون شریعت کا حسب استطاعت نفاذ، اسلامی عدالتی نظام کا حسب سہولت و گنجائش قیام، مسلمانوں کے عقیدہ اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت، اتحاد، اجتماعیت اور اسلامی اخوت کی بنیادوں کو مضبوط کرنا ہے۔ ان تمام مقاصد کو حاصل کرنے اور خاکوں میں رنگ بھرنے کےلیے صاحب بصیرت عالم دین کا ہونا ضروری ہے۔ جستہ جستہ، رفتہ رفتہ مطالعہ سے کشید کیا گیا علم؛ شخصی دینی ضرورت کےلیئے تو کافی ہوسکتا ہے، مگر ان وسیع تر مقاصد کےلیئے ہرگز نہیں۔
فقہاء اسلام نے اسی لیے امیر کی صفات کو پوری وضاحت کے ساتھ قلم بند کر دیا ہے، الأحكام السلطانية اور معين الحكام جیسی کتابیں اس پر خوب روشنی ڈالتی ہیں۔ فقہاء نے تو اس نکتہ سے بھی بحث کی ہے کہ قاضی شریعت کے فیصلہ کے خلاف اگر اپیل کی جائے گی تو امیر شریعت کے روبرو ہوگی، اس لیے امیر میں فقہی بصیرت اور احکام شریعت کی گہری واقفیت ہونا بھی ضروری ہے۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ امارت شرعیہ محض کوئی روایتی ادارہ نہیں ہے، بلکہ یہ اسلام کے تصور امارت و قضاء کا شاہکار اور شاید آخری یادگار ہے، ماضی قریب میں بحیثیت امیر حضرت مولانا منت اللہ رحمانی کی سرپرستی اسے حاصل رہی، حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ (سابق امیر شریعت)کے حسن انتظام نے اسے پختگی عطا کی اور فقیہ النفس حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ (سابق نائب امیر شریعت و قاضی القضاة) کی عالم گیر شہرت اور جہاں گیر بصیرت نے اسے اوج کمال تک پہنچایا۔ چنانچہ اس کی حفاظت و پاسداری اور تعمیر و ترقی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔