امارت شرعيہ بہار،اڈيشہ وجھاركھنڈ ميں آٹھويں امير شريعت كا انتخاب ہونا ہے، امارت شرعيہ ميں امير شريعت كی حيثيت بنيادی قطب كی ہے،ان كی فراست اور انتظامی صلاحيت پر ہی امارت شرعيہ كا قافلہ اپنے مراحل طے كرتا ہے، ہندوستان كی ملی تنظيموں كی تاريخ ميں امارت شرعيہ اس حيثيت سے بہت ممتاز ہے كہ اسے ہر دور ميں ايسے قافلہ سالار ملے جنھوں نے بہتر طريقے سے ملت كی قيادت كی، اس ليے اس انتخاب ميں عجلت بھی مقصود ہے اور حكمت بھی۔
كرونائی دور ميں ايک بار انتخاب امير كا اعلان ہوا ؛ مگر اس ميں كچھ شرطيں ايسی لگادی گئيں جنھوں نےمتعدد اراكين شوری سميت ملت كے بہت سے لوگوں كو بے چين كرديا، اس بے چينی كو محسوس كركے حضرت نائب امير شريعت نے اس انتخاب كے التوا كا اعلان كرديا ، جس كا تمام ہی لوگوں نے استقبال كيا اور امارت كے ليے نيک فالی كے طور پر ديكھا۔
پھر ستمبر كی كسی تاريخ كو پٹنہ كی كسی مسجد ميں بعض اراكين شوری جمع ہوئےاور انهوں نے دس اكتوبر2021ء كی تاريخ كا اعلان كيا، ان كاكهنا تھا كہ نائب امير شريعت كو تين مہينے كے اندر ہی انتخاب كرانا ہوتا ہے، انهوں نے انتخاب نہيں كرايا، لہذا دستور كے مطابق مجلس شوری كو انتخاب كرانے كا حق ہے اور دستور ميں دی گئی تعداد (ايک تہائی )ہمارے ساتھ ہے، ان اراكين نے جناب مولانا محمد شبلی القاسمی قائم مقام ناظم امارت شرعيہ كو ذمہ داری سونپی ، مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب نے نائب امير كو بھی اس كے ليے رضامند كرليا۔
نائب امير شريعت كی رضامندی نے معاملے كو بهت حد تک ٹھنڈا كرديا تھا؛ مگر اصولی طور پر اراكين شوری نے جو غلطياں كی ہيں، ان سے ديگر اراكين شوری كا بے چين ہونا بالكل معقول ہے۔
ہم يہ كہتے ہيں كه اگر دستور كے مطابق اب انتخاب امير كا حق مجلس شوری كو ہے اور مجلس شوری كی ايک تہائی سے فيصلہ كيا جاسكتا ہے ، تو كيا اس كامطلب ہے كہ شوری كے ديگر اراكين كو اس انتخاب كی بھنک بھی نہ لگنے دی جائے، كسی مجلس يا اسمبلي ميں كسي خاص تعداد كو معيار بنانے كا كيا یہی مطلب ہے كہ وه مجلس يا اسمبلي منعقد ہی نہ كی جائے؟
دنيا بھر ميں اسمبليوں اور مجلسوں كا ايک نظام قائم ہے، ہوتا يہی ہے كہ پہلے وه مجلس بلائی جائے ، سب سے بہتر ہے كہ اتفاق رائے سے كسي فيصلے كو منظور كيا جائے، اختلاف آرا كی شكل ميں دستور ميں دی گئی تعداد كا سہارا ليا جائے، پھر يہاں تو انتخاب امير كا مرحلہ در پيش ہے ، جس ميں انتخاب سے زياده ہر جگہ اتحاد اور اتفاق كو پيش نظر ركھنے كی ضرورت ہے؛ ليكن حيرت اور افسوس كی بات ہے كه يہاں چند اراكين شوری نے مقرره تعداد كو توديكھا؛ مگر مجلس شوری كے انعقاد كی ضرورت كو كسی نے نہیں سمجھا، ظاہر ہے اس سے صرف انتشار پيدا ہوگا، اگر انتخاب امير كا مسئلہ ہی اختلاف كا شكار ہوگيا تو كيا منتخب امير شريعت كو لوگ وه مقام دے سكيں گےجو مقام بحيثيت امير ان كاحق ہے يا ان كے فيصلے كی وه حيثيت ره سكے گی جو ہو نی چاہيے؟بالكل بھی ايسا نہيں ہوگا۔
پہلے خبر آئی كہ ديگر اراكين شوری نے ايک مجلس منعقد كی اور اس ميں پہلے اراكين شوری كے فيصلوں پر سوالات كھڑے كيے،ديگر اراكين كے اعتراض كا اندازه تو سب كو تھا اور بهت حد تک يہ بات معقول بھی ہے؛ ليكن اب خبر آرہی ہے كہ انهوں نے نو اكتوبر كی تاريخ كا اعلان كرديا ہے، يہ وہی غلطی ہے جو اراكين شوری كی ايک جماعت پہلے كرچكی ہے، دونوں گروپ دستور كا حوالہ دے رہے ہیں كہ دستور مجلس شوری كو يہ حق ديتا ہے ؛ مگر مجلس شوري بلائے بغير ہی دونوں نے انتخاب كی تاريخ كا اعلان كرديا۔
خدارا ! بتائيے كيا امارت كی خيرخواہی اسی ميں ہے؟كيا ہم اپنے مفادات كی خاطر امارت كو قربان كرديں؟ كيا اكابرامارت نے اسی ليے آپ حضرات كو شوری كاركن بنايا كہ آپ امارت كی روايات كو پس پشت ڈال ديں؟
خدا كے ليے ہوش ميں آئيں ، مجلس شوری بلائيں اور اتفاق رائے سے كسی تاريخ كا اعلان كريں، اس وقت جناب نائب امير شريعت اور جناب قائم مقام ناظم صاحبان كی ذمے داری ہے كہ وه فريق بننے كے بجائے سب كے رفيق بنيں، مجلس شوری بلائيں ، گلے شكوے دور كرائيں اور اتفاق رائے سے انتخاب امير كا ايسا لائحهٔ عمل مرتب كريں ، جوامارت كی تاريخ ميں سنہرا نقش بن كرباقی رہے۔ والله هو الموفِّق وهو المستعان۔