Home سفرنامہ امارتِ شرعیہ میں چند خوش گوار لمحات- ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

امارتِ شرعیہ میں چند خوش گوار لمحات- ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

by قندیل

خدا بخش لائبریری سے نکلتے ہوئے وقت بہت تنگ ہوگیا تھا ، چنانچہ ہمارے رفقاء متردّد ہوگئے کہ امارتِ شرعیہ جائیں ، یا سیدھے ایرپورٹ کا رخ کریں ۔ میرے چہرے پر مایوسی چھا گئی کہ لگتا ہے ، پٹنہ آکر بھی امارتِ شرعیہ دیکھنے کا موقع نہیں ملے گا ۔ بھائی رضوان احمد اصلاحی امیر جماعت اسلامی ہند حلقۂ بہار نے بھانپ لیا _ کہنے لگے : ” ابھی وقت ہے ، بہار کے مقبول تہوار ‘چَھٹ پوجا’ سے آج لوگ فارغ ہوئے ہیں ، اس لیے ٹریفک کا اندیشہ نہیں ہے۔ امارتِ شرعیہ چلتے ہیں ، خواہ چند منٹ کے لیے ہی۔” انھوں نے فوراً امارت میں اپنے کسی شناسا کو فون کیا۔ جواب ملا : "خوش آمدید ۔”

امارتِ شرعیہ کا قیام مولانا ابو المحاسن سجاد رحمہ اللہ کی تحریک پر 1921 میں عمل میں آیا تھا۔ اس کا دائرۂ کار بہار ، جھارکھنڈ ، اڑیسہ اور مغربی بنگال کے کچھ حصے ہیں۔ تعلیم ، معاش ، طب و صحت ، خدمتِ خلق اور ترقی کے دیگر میدانوں میں وہ سرگرمِ عمل ہے۔ سو برس کی اس کی زرّیں تاریخ ہے۔ امارتِ شرعیہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے تحت مختلف ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹس قائم ہیں ، مولانا سجّاد میموریل ہاسپٹل کے ذریعے بلا تفریق مذہب و ملّت بے شمار لوگوں کی خدمت کی جارہی ہے ؛لیکن اس کی اہم ترین خدمت افتا اور قضا کے میدان میں ہے۔ اس کے دار الإفتا سے ہزاروں فتاویٰ صادر ہوچکے ہیں اور قضا کا بھی مضبوط نظام متعلّقہ ریاستوں میں جاری ہے۔ اس کے علاوہ افتا و قضا کی تربیت کے لیے المعہد العالی للافتاء و القضاء کے نام سے ایک بڑا ادارہ قائم کیا گیا ہے۔ اس میں ہر برس دینی مدارس کے فضلا کا انتخاب کرکے انہیں دو سالہ کورس میں داخلہ دیا جاتا ہے اور ان کے تعلیمی وظائف بھی مقرر کیے گئے ہیں۔ ان طلبہ کو ماہر اساتذہ کی نگرانی میں فقہ کے بنیادی مراجع کا مطالعہ کروایا جاتا ہے ، فقہی موضوعات پر تحقیقی مقالات لکھوائے جاتے ہیں اور فتویٰ نویسی اور قضا کی مشق کرائی جاتی ہے۔

ہم مغرب کے وقت امارتِ شرعیہ پہنچے تو وہاں اس کے ناظم مولانا شبلی قاسمی کو منتظر پایا ۔ وہ بہت تپاک سے ملے۔ احوال دریافت کیے۔ جماعت کا ذکر آیا تو اس کی سرگرمیوں کے بارے میں تحسینی کلمات ادا کیے۔ کہا کہ بہار کی سطح پر تمام دینی و ملّی جماعتوں اور تنظیموں کے درمیان قربت پیدا کرنے میں مولانا رضوان احمد اصلاحی کا قابلِ قدر حصہ ہے۔

نماز کے بعد کچھ اور لوگ آگئے۔ مولانا احمد حسین قاسمی اتنی بے تکلفی اور اپنائیت سے ملے جیسے ہمارے درمیان برسوں سے تعلقات ہوں۔ کہنے لگے : ” میں آپ کی تحریروں کا مطالعہ بہت شوق سے کرتا ہوں _” امارت کے اور بھی کارکن میرے شناسا نکلے۔ اندازہ ہوا کہ سوشل میڈیا نے فاصلے سمیٹ دیے ہیں اور قربتیں بڑھا دی ہیں ۔ مولانا مفتی سعید الرحمٰن صاحب تشریف لائے ، جو شعبۂ افتاء سے متعلق ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ امارتِ شرعیہ کے فتاویٰ کی تدوین و اشاعت کا کام ہورہا ہے۔ پانچ جلدیں طبع ہوچکی ہیں ، جن میں سے جلد اول صرف مولانا ابو المحاسن سجاد کے فتاویٰ پر مشتمل ہے۔ چھٹی جلد تیار ہے۔ میں نے دریافت کیا : ” تمام فتاویٰ کتنی جلدوں میں آئیں گے؟ بتایا : ” امید ہے ، 12جلدیں شائع ہوں گی۔”

دفتر کے اوقات چار بجے تک تھے ، لیکن میری خواہش پر دار الافتاء اور دار القضاء کے کمرے اور لائبریری کھلوائی گئی اور ان کا معاینہ کروایا گیا ۔ دار القضاء کا اسٹاک روم دکھایا گیا ، جس میں گزشتہ سو برس میں فیصل کیے جانے والے تمام مقدّمات کی فائلیں محفوظ ہیں۔ میرے رفیق بھائی عتیق الرحمٰن نے مشورہ دیا کہ انہیں جدید تکنیک سے محفوظ رکھنے کی تدابیر اختیار کی جانی چاہییں اور انہیں ڈیجیٹلائز بھی کیا جانا چاہیے _ بتایا گیا کہ ڈیجیٹلائزیشن کا کام شروع ہوگیا ہے ۔ بتایا گیا کہ متعلقہ ریاستوں میں 71 دار القضاء قائم ہیں ، جن میں عائلی زندگی سے متعلق مقدمات فیصل کیے جاتے ہیں _ اب تک پچاسی ہزار (85,000) مقدمات کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔ بعض قاضی حکومت کی طرف سے رجسٹرڈ ہیں۔ ان کی طرف سے نکاح کے سرٹیفکٹ بھی جاری کیے جاتے ہیں۔

وقت بہت محدود تھا ، پھر بھی امارت کے افتاء اور قضاء کے شعبوں کا معاینہ کرکے بہت خوشی ہوئی۔ المعہد العالی للافتاء و القضاء کی عمارت میں جانا ممکن نہ ہوسکا۔ہمیں بہت جلدی تھی ، لیکن ناظم امارتِ شرعیہ نے چائے پیے بغیر نکلنے نہ دیا۔

You may also like

Leave a Comment