جس قوم کی ابتدا ہی اقرأُ سے ہوئی ہو وہی قوم آج تعلیم کے معاملے میں سب سے زیادہ پسماندگی کی شکار ہے ۔ قرآن میں سب سے پہلا لفظ اقرأُ کا استعمال ہی پڑھنے پڑھانے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے ۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ قرآن کے اس پہلے لفظ کی اہمیت سے مسلمان اب تک نا بلد ہیں ۔اقرأ کی معنویت سے پہلو تہی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں مسلمان ذلیل و خوار ہیں ۔ ظاہر ہے کہ قرآن نے جب ہدایت کی ابتدا پڑھنے پڑھانے سے کی ہو، تو یہ حکمت و مصلحت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ صرف تعلیم ہی کسی بھی قوم کی ترقی کی ضامن ہے ۔
قرآن کی اس لطیف ہدایت اور واضح پیغام اور نصیحت پر عمل درآمد میں کوتاہی اور بے توجہی نے آج مسلمانوں کو کہیں کا بھی نہیں چھوڑا ۔ حالاںکہ موجودہ دور میں ایجوکیشن پر خاطر خواہ کوششیں کی جارہی ہیں، جن کایہ مثبت نتیجہ ہے که 2020 میں 42 مسلمانوں نے یو پی ایس سی کے مقابلہ جاتی امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے ۔ مسلمانوں کی یو پی ایس میں نمائندگی اس سال سب سے زیادہ 5.1 فیصد رکارڈ کی گئی ہے ۔
تعلیم کی اہمیت و افادیت پر آج بڑے بڑے سمینار منعقد کئے جا رہے ہیں، جس سے مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کا رجحان پیدا ہورہاہے ۔ تعلیمی بیداری کے ضمن میں ایک خبر قابل تحریر ہے کہ دربھںگہ بہار کے ایک گاؤں قاضی بہیرہ کے باشندہ نوجوان اور فعال سیاسی و سماجی کارکن حبیب اللہ ہاشمی کی کاوشوں سے ایک چھوٹے سے قصبہ میں گورنمنٹ ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ کالج کے قیام کی راہیں ہموار ہوئی ہیں ۔ واضح ہو کہ سابق ضلع پریشد حبیب اللہ ہاشمی اپنے دورانِ کار قاضی بہیرہ میں کافی جدو جہد کے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول کا قیام عمل میں لا چکے تھے ، نیز مذکورہ گورمنٹ ہائ اسکول میں+2 کی بھی تعلیم کے لئے کوشاں تھے، جسے 2018 میں منظوری بھی مل گئی تھی لیکن 2020 میں باضابطہ داخلے کا آغاز ہو چکا ہے، جس سے جالے بلاک کے علاقے میں ایک خوشی کی لہر پائی جارہی ہے ۔ گورنمنٹ کالج کا قیام علاقے کے لئے تعلیم کی جانب ایک فعال قدم ہے ۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار اور سابق ایم پی اشرف علی فاطمی کی کاوشوں کو بھی سلام ہے اوردونوں داد و تحسین کے بھی مستحق ہیں، جن کی مدد سے آج دربھںگہ ضلع کے دور دراز گاؤں میں کالج کا قیام عمل میں آیا ہے ۔ دربھںگہ ضلع کے جالے بلاک میں ایک عرصے سے گورنمنٹ کالج کی اشد ضرورت تھی اور خاص کر مسلم لڑکیوں کے لئے مذکورہ کالج ان کے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے میں معاون ثابت ہوگا؛ کیوںکہ میٹرک کرنے کے بعد گاؤں کی لڑکیاں کالج کی عدم سہولت کی وجہ سے ڈراپ آؤٹ ہونے پر مجبور جاتی تھیں ۔ حکومت بہار کے مذکورہ اقدام سے علاقے کی عوا م کافی خوش ہیں اور حکومت سے مزید اس بات کے متمنی ہیں کہ کالج کی اسی عمارت میں پروفیشنل اور ٹیکنکل شعبے قائم کئے جائیں تاکہ بیک وقت اکیڈمک تعلیم کے ساتھ پروفیشنل تعلیم میں بھی طلبا ماہر ہو سکیں ۔ اگر ایسا ممکن ہوا تو طلبا کالج سے فراغت کے بعد فوری طور پر ٹیکنکل یا پروفیشنل تعلیم کی بنیاد پر روزگار حاصل کر سکتے ہیں ۔
علم کی ابتدا ہے ہنگامہ، علم کی انتہا ہے خاموشی- احمد نہال عابدی
previous post