صفدرا مام قادری
صدر شعبئہ اردو، کا لج آف کا مرس،آرٹس اینڈ سائنس،پٹنہ
پارلیامنٹ کے ایوانوں میں وزیرِ اعظمِ ہند نے دلی کے انتخاب سے ٹھیک پہلے کے دو دنوں کا خوب خوب سیاسی استعمال کیا اور اشارے کنایے، رمز و ایما اور علامت و تجرید، نہ جانے اور بھی کتنے سیاسی حربے تھے جن کا استعمال کرکے انھوں نے اپنا پیغام قوم کے سامنے دیا۔ اب نریندر مودی کی حکومت کے چھے برس ہونے کو آئے مگر پتا نہیں ان کے مشیران اور ان کی پشت پر کھڑی ماہرین کی فوج نہ جانے کس علمی غفلت میں پڑی رہتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی حملے جس انداز سے کرتے ہیں، انھیں آراستہ کرنے کے لیے ہندستان کی تاریخ اور سیاسی ارتقا کے بہت سارے علمی مواد بھی اس میں شامل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر بار بار فاش تاریخی اور تحقیقی غلطیاں کبھی بے علمی سے ہو جاتی ہیں اور کبھی جان بوجھ کر کی جاتی ہیں۔
ایک زمانے میں مشہور جدید شاعر مظہر امام کے ہم نام ایک نو آموز شاعر پیدا ہوگئے اور رسائل و جرائد میں ان کی کچی پکی غزلیں بزرگ شاعر کے نام کی وجہ سے شایع ہونے لگیں۔ اکثر رسائل کے مدیر مظہر امام کا نام دیکھتے اور کلام کی پڑتال کیے بغیر انھیں شایع کردیتے۔ بہت ساری غزلیں اور ان کے اشعار ناموزوں ہوتے اور مظہر امام خجل ہوتے کہ لوگ ان سے ایسی فاش غلطیوں کی توقع نہ کرتے تھے۔ آخر میں مظہر امام نے ایوانِ اردو، نئی دہلی میں اور دوسرے رسائل میں اپنا مکتوب شایع کرایا کہ یہ صاحب اپنی غزل شایع کراتے ہیں اور لوگ باگ مظہر امام سے اس کی تقطیع کراتے ہیں۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی کا یہی حال ہے۔ کبھی ۷۵۸۱ء کے انقلاب میں ساورکر کی قربانیوں کو وہ یاد کرتے ہیں اور اب تو یہ حال ہے کہ پارلیامنٹ میں عمر عبداللہ کو جس خبر کی بنیاد پر وہ ملک دشمن قرار دینے کے لیے اتاولے بنے، حقیقت یہ ہے کہ ویسا بیان کہیں تاریخ میں درج ہی نہیں ہوا۔ وزیرِ اعظم کی دلی یونی ورسٹی کی ڈگری کا سوال ہو یا مرکزی کابینہ میں وزیر اور سابق وزیرِ تعلیم اسمرتی ایرانی کی تعلیمی لیاقتوں کا سوال ہو، ہر جگہ ایک بار اعلان ہوتا ہے اور تین بار اصلاح کرنے کے باوجود گناہوں کے پہاڑ سر پر لادتے جانے کی مہم میں نریندر مودی پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں۔ دنیا میں یہ سوال ہندستانی عوام سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا تمھارے وزیر اعظم یا اقتدار میں مست بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس چار پڑھے لکھے لوگ ایسے نہیں جنھیں یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ خبر جس میں صحافی کا نام ۰۲۴/ لکھا ہوا ہو، اسے حقیقی خبر آخر وزیر اعظم نے کیسے سمجھ لیا اور تصدیق و توثیق کے بغیر پارلیامنٹ میں نہ صرف یہ کہ اعلان کیا بلکہ سابق وزیر اعلا کو بغیر کسی ٹرائل کے جیل مین ڈالنے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ آر۔ایس۔ایس۔ کے لوگ بڑے پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور سنجیدگی سے علمی کاموں میں منہمک جماعت ان کی صلاح پر مامور ہیں۔ ممکن ہے کسی زمانے میں ایسا ہوتا ہو مگر نریندر مودی اور امت شاہ کی قیادت میں جو سیاسی بساط بچھی ہوئی ہے، اس کے ماہرین اصول و ضوابط اور علم و اخلاق کے دائرہئ کار سے الگ تھلگ جینے کے عادی ہیں۔ انھیں اقتدار تو چاہیے اور جس قیمت پر بھی ملے، انھیں اسے حاصل کرنا ہے مگر ملک اور قوم کے حالات کے وہ نگہبان بنیں، زندگی اور سماج کی جواب دہی قبول کریں، اس سے انھیں کوئی سروکار نہیں۔ فائدہ انھیں اس بات کا حاصل ہے کہ وہ ایک ایسی اپوزیشن کے سامنے کھڑے ہیں جو ناٹک نوٹنکی کے کردار میں تو کامیاب ہوسکتے ہیں مگر پارلیامنٹ یا عوام کی عدالت میں گھسیٹ کر زیر و زبر کرنے کی صلاحیت ان میں ہرگز نہیں، اس لیے سب کام اسی طرح سے ہورہے ہیں اور نریندر مودی کو بھی کچھ خاص بدلنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ہندستان کے موجودہ سیاسی ماحول میں فیض اور حبیب جالب رہ رہ کر اپنا انقلابی کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ ”میں نہیں مانتا“ اور ”ہم دیکھیں گے“ نظموں پر ہی سیاست داں اور انتظامیہ کے لوگ پریشان تھے مگر نریندر مودی کی تقریر سنتے ہوئے اچانک وقفے میں یو ٹیوب پر حبیب جالب غزل سرا مل گئے اور انھوں نے اپنی پاٹ دار آواز میں عجیب و غریب مطلع پڑھا:
سرِ ممبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں
حبیب جالب نے پاکستان کے حکمرانوں کے بارے میں یہ شعر کہا تھا مگر انھیں کیا معلوم ک تین دہائیوں کے بعد ہندستانی اقتدار پر ایک شخص ایسا مسلط ہوگا جس کے لیے یہ شعر اس سے بھی بڑھ کر موزوں ہوگا۔ خدا ایسے البیلے شاعر کو خوش رکھے اور موجودہ صورتِ حال کی عکاسی کی جزا بھی عطا کرے۔ منموہن سنگھ کے بارے میں حزبِ اختلاف کے لوگ ان کی خاموش طبیعت کے لیے کبھی کبھی ازراہِ مذاق مونی بابا کہتے تھے۔ وہ کم بولتے تھے، لوگ کہتے تھے کہ کانگریس صدر کی طرف سے انھیں آزادانہ طور پر بولنے کی اجازت ہی نہیں ہے۔ اس کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی بھی یہ الزام عاید کرتی تھی کہ ملک کے بہت سارے سلگتے ہوئے سوالوں پر وزیر اعظم خاموش رہتے ہیں۔ نریندر مودی کے لیے کون کافر ہے جو یہ بات بول دے کہ وہ کم بولتے ہیں۔ ان کے سامنے سو سوال ہوں تو وہ دو سو جواب دے سکتے ہیں۔ یوں بھی آر۔ایس۔ایس۔ میں ان کا کام پرچارک کا تھا۔ اسے صرف بولنا رہتا ہے۔ نریندر مودیی یا تو دنیا دنیا گھومتے ہیں یا قریہ قریہ بولتے ہیں۔ وہ خود اعلان کرتے ہیں کہ اٹھارہ سے بیس گھنٹے وہ کام کرتے ہیں۔ مگر اکثر و بیش تر یہ دیکھا گیا کہ پارلیامنٹ سے غیر حاضر رہتے ہیں اور بولنے کی خاص جگہوں سے دور ہوتے ہیں۔ وہ الیکشن کی میٹنگ میں بولتے ہیں یا جہاں جہاں سیدھے فائدے اور نقصان کا معاملہ ہوتا ہے،و ہاں وہ تقریر فرماتے ہیں۔ گذشتہ دنوں مہاراشٹر کے انتخابات کے نتائج آنے شروع ہوئے اور وہ ممبئی میں دونوں ہاتھوں کو بھانجتے ہوئے کیا کیا نہ کہہ گئے۔ اپنی پارٹی اور اپنی قیادت کا ایسا فاتحانہ گن گان کیا کہ ہفتہ عشرہ میں ساری ہیکڑی نکل گئی اور مہاراشٹر کی سیاست سے باہر ہونا ان کے مقدد کا حصہ ہوا۔
نریندر مودی کی تقریروں کا خلاصہ تیار کیجیے اور اسے امتحان کی کاپی سمجھ کر جانچ کیجیے تو ایک استاد کی حیثیت سے یہ نتیجہ سامنے آئے گا کہ وہ اپنے جوابوں میں عدم معقولیت کے شکار ہیں۔ سوال ’الف‘ کا پوچھا گیا، وہ جواب دیں گے مگر نفسِ مضمون میں ’ب‘ کا اندراج ہوگا۔ امتحان کے پرچوں میں بعض شریر اور غیر ذمہ دار طالب علم سوالوں کو بار بار لکھ کر کاغذ بھر دیتے ہیں یا فلمی گانے اور غیر متعلق باتیں جمع کرکے کاغذ سیاہ کرتے ہیں۔ توقع یہ ہوتی ہے کہ ممتحن غیر سنجیدہ ہوا اور عجلت پسندی کے راستے کا مسافر بن گیا تو بچے کا بیڑا پار۔
نریندر مودی کی تقریروں کا انداز اور جواب در جواب، لطفِ بیان، الزامات کی مرحلہ وار ترتیب کو پیش نظر رکھیے تو ایسا محسوس ہوگا کہ یہ شخص ہر سوال کا ترتیب وار جواب دے رہا ہے۔ پیشے ور تالی بجانے والے اور میزیں تھپتھپانے والے بھی موجود ہوتے ہیں مگر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اس شخص نے ایک بھی کسی بنیادی سوال کا جواب نہیں دیا۔ اس شخص سے پوچھا گیا کہ ملک میں امن و امان کیسے قائم کروگے۔ سوال یہ تھا کہ بے روزگاری کا علاج کیا ہوگا، دریافت طلب بات یہ تھی کہ منہگائی پر لگام کیسے لگے گی اور پوچھا تو یہ گیا تھا کہ ملک کو صنعت کاروں کے ہاتھوں بیچنے کی مہم پر آپ لگام کب لگائیں گے؟ پوچھا یہ گیا تھا کہ نوٹ بندی سے آپ نے ہندستان کو کیا دیا؟ ملک کی معیشت کو اور کہاں تک آپ گرائیں گے؟ سوالات یہ سب تھے مگر جو جواب آئے وہ کشمیر، پاکستان، شاہین باغ، رام مندر اور اسی انداز کے معاملات تھے۔ فارسی کہاوت پہلے ہی سے مشہور ہے: سوال از آسماں و جواب از ریسماں۔ ایرانیوں نے بھی کہاں جانا تھا کہ یہ کہاوت ایک دن ہندستان کے وزیر اعظم پر ہی زیادہ موزوں بیٹھے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ نریندر مودی کو اپنے کام پر ووٹ نہیں چاہیے۔ دھیرے دھیرے صوبائی حکومتیں سمٹ رہی ہیں۔ مگر ابھی پارلیمنٹ کا اتنخاب تو بہت دور ہے، چار برس میں ہفت اقلیم طے کرلیں گے یا پاتال تک پہنچا دیں گے۔ راجستھان، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور جھارکھنڈ کے بعد بہ فضلِ تعالیٰ دلی سے بھی بھارتیہ جنتا پارٹی بے دخل ہورہی ہے۔ صنعت کاروں اور آگے ای۔وی۔ایم۔ کا سہارا ہے مگر ان سب سے بڑھ کر ہندستانی عوام ہی انھیں سچاسبق دیں گے۔ راہل گاندھی کی بے وقوف زبان استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ جمہوریت میں ڈنڈوں کی محدود حیثیت ہوتی ہے، ووٹ سے ہی نریندر مودی کی تقریروں کی سلسلہ بند ہوگا اور ہمیشہ کے لیے اس ظالم حکمراں سے ملک کو نجات ملے گی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)