مدرس دارالعلوم دیوبند
مؤلف: جناب مفتی شکیل منصور القاسمی
صفحات: 270
اشاعت: 2024
ناشر: مرکز البحوث الاسلامیہ العالمی، پوکھریا ، بیگو سرائے بہار
احکامِ اسلام تین دلیلوں سے ثابت ہوتے ہیں ، یعنی قرانِ پاک، سنتِ رسول اور اجماعِ امت سے ، چوتھی دلیل قیاس ہے یعنی قرآن و سنت اور اجماع امت میں غور و فکر کرنے کا ذریعہ قیاس ہے ۔ یہ مستقل دلیل نہیں ہے ۔ اصولِ فقہ میں چاروں دلیلوں سے بحث ہوتی ہے اور ان سے استنباطِ مسائل کے اصول اور مناہج بتائے جاتے ہیں ۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ان الله لا يجمع امتي او قال امۃ محمد صلى الله عليه وسلم على ضلالۃ ويد الله على الجماعۃ من من شَذشُذ الى النار (ترمزي ص:2167 ) .
یعنی اللہ تعالیٰ میری امت کو یعنی امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گمراہی پر اکٹھا نہیں کریں گے اور اللہ کی مدد جماعت کے ساتھ رہتی ہے ، جو آدمی (اجماعِ امت سے) الگ ہو جائے وہ الگ ہو کر جہنم میں چلا جائے گا . اجماع امت کی دلیل قران پاک میں ہے حدیث شریف میں ہے اورصحابۂ کرام کے بہت سے فیصلے اجماع سے حل ہوئے ، خیر القرون میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ۔ اہل السنت والجماعت کے نزدیک اجماع تیسری دلیل کے طور پر مسلم ہے ، البتہ گزشتہ زمانے میں معتزلہ نے اس کا انکار کیا اور خوارج نے بھی ، موجودہ دور میں غیر مقلدین اجماع کا انکار کرتے ہیں یا یوں کہیے کہ وہ ایسے اجماع کے قائل ہیں جس کا وجود عنقا کی طرح نایاب ہے اور روشن خیال دانشوران بھی اجماع کا انکار کرتے ہیں ، اس لیے ضرورت تھی کہ اردو زبان میں اجماعِ امت کو تجزیہ کے ساتھ مدلل کیا جائے ۔ جناب مفتی شکیل منصور القاسمی مدظلہ نے اس کا بیڑا اٹھایا اور اس پر خامہ فرسائی کی ، پیشِ نظرکتاب پانچ ابواب پر منقسم ہے ، پہلے باب میں "اجتہاد "کا تعارف کرایا گیا ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کے ساتھ صحابۂ کرام کے انفرادی اور اجتماعی اجتہاد کے شواہد پیش کیے ہیں، اس کے بعد دوسرے باب میں "اجماع "کا تعارف کرایا ہے ،اس کی بنیاد ذکر کی ہے، اجماع کی اہلیت کے شرطوں کو ذکر کیا ہے ، اجماع کی حجیت بیان کی ہے ، اجماعِ صریحی ، اجماعِ سکوتی ، اجماعِ عام ، اجماعِ خاص ، اجماعِ قطعی اور اجماعِ ظنی ساری قسموں کو بیان کیا ہے پھر اس کے سلسلے میں مذاہب اربعہ کو بھی بیان کیا ہے ، "اجماع اور اتفاق” میں فرق ہونے اور نہ ہونے کی بحث بھی کی ہے ، تیسرے باب میں اجماع کی تعبیر کے لیے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ، اس پر گفتگو کی ہے ، مثالیں دی ہیں ، چوتھے باب میں مسائل کے حل کرنے کے لیے اجتماعی غور و فکر پر روشنی ڈالی ہے ۔ پانچویں باب میں بارہ فقہی اکیڈمیوں کا تعارف کرایا ہے اور اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ اکیڈمیوں کی تجاویز جو اجتماعی طور پر پاس ہوتی ہیں ، انھیں اجماعِ امت کا مصداق نہیں کہا جا سکتا ، البتہ اجتماعی کاوش، مسئلے کے اجتماعی حل کے لیے روشن راستہ کہا جا سکتا ہے ، تاکہ دارالافتاء کے مفتیانِ کرام اس کو سامنے رکھ کر مسائل کے حل کو سوچ سکیں پھر اسی باب میں صفحہ 177 سے 268 تک یعنی تقریبا 90 صفحہ صفحات میں ان شخصیات کا تعارف کرایا گیا ہے ، جن کا ذکر کتاب میں موجود ہے ، یہ تعارفی صفحات موضوعِ بحث سے خارج ہیں ، لیکن وہ کتاب کا حصہ ہیں ۔
کتاب کی خوبی یہ ہے کہ جو بات بھی لکھی گئی ہے دلیل سے لکھی گئی ہے اور اعتدال کی کی لگام کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا گیا ہے ۔
راقمِ حروف کو کتاب پسند آئی متعدد اکابر دیوبند نے بحث پر اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔ قارئین خود بھی اسے پڑھ کر اس موضوع کے لیے استفادہ کر سکتے ہیں ۔
مصنف کتاب دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز فاضل ہیں اردو اور عربی دونوں زبانوں پر انہیں قدرت حاصل ہے ، اب تک دس کتابیں شائع ہو کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچ چکی ہیں ، انہوں نے دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد پہلے دارالعلوم سبیل السلام حیدراباد میں سات سال تدریسی خدمت انجام دی پھر دو سال کیرالہ میں رہے ۔ اب 2010 سے امریکہ کے ایک ادارے میں "استادِ حدیث اور صدر مفتی” کی حیثیت سے دینی خدمات انجام دے رہے ہیں . موصوف کو اللہ تعالی نے لکھنے کا اچھا سلیقہ عطا فرمایا ہے ، قارئین ی اس تصنيف میں بھی اپنی نگاہوں سے ملاحظہ فرمائیں گے۔ اللہ تعالی موصوف کو زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت کی توفیق بخشیں اور قبولیت عطا فرمائیں !