Home خاص کالم آئی آئی ایم سی میں اردو صحافت کے طلبہ کا داخلہ: حقیقت کیا ہے؟ ـ افروز عالم

آئی آئی ایم سی میں اردو صحافت کے طلبہ کا داخلہ: حقیقت کیا ہے؟ ـ افروز عالم

by قندیل

ان دنوں اردو دانوں کا ’اردو پریم‘ خوب سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس ’اردو پریم‘ کا اندازہ آپ اسی سے لگا سکتے ہیں کہ اردو کے بڑے بڑے صحافی اور نفیس اردو بولنے والے بارسوخ  لوگ یہ خبر وائرل کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن (آئی آئی ایم سی) میں اردو ڈپلومہ کورس میں 15 سیٹیں نکلی تھیں، جن میں صرف 3 بچوں نے ہی فارم بھرا ہے اور 12 سیٹیں خالی رہ گئی ہیں۔ اس کی وجہ سے آئی آئی ایم سی کو دوبارہ فارم نکالنا پڑا ہے۔ فارم بھرنے کی آخری تاریخ 31 جولائی ہے۔ ساتھ میں ان خالی سیٹوں کے لیے مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ کل کو آئی آئی ایم سی اس کورس کو ختم کردیتی ہے تو لوگ حکومت پر ہی اس کا الزام لگائیں گے۔

دراصل یہ خبر پوری طرح سے فرضی ہے۔  آئی آئی ایم سی کی ویب سائٹ کے مطابق اس کورس میں کل 17 سیٹیں ہیں اور فارم بھرنے کی آخری تاریخ 9 اگست ہے۔ 29 اگست کو اس کے لیے آن لائن داخلہ ٹیسٹ لیا جائے گا۔ اب پتہ نہیں سوشل میڈیا پر اندھوں کی طرح اور تحقیق و تصدیق کے بغیر پوسٹ شئیر کرنے والے لوگوں نے یہ خبر کہاں سے حاصل کی ہے اور کیوں یہ فرضی خبر شیئر کی جارہی ہے۔

آئی آئی ایم سی کے معاملے میں فرضی خبر وائرل کرنے کی یہ کہانی کوئی نئی نہیں ہے۔ میں گزشتہ چار سالوں سے ایسی حرکتوں کو دیکھ رہا ہوں۔ گزشتہ سال بھی یہ خبر وائرل کی گئی تھی کہ آپ فارم بھریے، داخلہ کے لیے ایک صاحب فیس بھریں گے۔ جب میں نے ان سے بات کی تو ان کا صاف طور پر کہنا تھا کہ میں نے بھارم بھرنے کی فیس دینے کی بات کی ہے جو قریب 800 روپے ہے اور میری جانکاری کے مطابق انہوں نے کسی کی بھی مدد نہیں کی۔

ان فرضی خبروں و فرضی لوگوں سے ہٹ کر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کسی اردو داں نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ اس کورس کی فیس کتنی ہے؟ اس کورس کے بعد فارغین کیا کریں گے؟ اور سب سے اہم سوال آئی آئی ایم سی کا یہ کورس کسی قابل ہے بھی؟ میں نے گزشتہ سال کئی طلبا سے بات کی تھی، تو انہوں نے بتایا تھا کہ اس کورس کے لئےوہاں کوئی فیکلٹی نہیں ہے۔ میڈیا منڈی سے وہی جاہل قسم کے صحافی انہیں پڑھانے آتے ہیں، جو پڑھاتے کم اور اپنی تعریف زیادہ کرتے ہیں۔ اگر بیتے سال کی بات کی جائے تو کل 12 طلبا نے اس کورس میں داخلہ لیا، پورا سال گزر چکا ہے لیکن طلبا کی قسمت دیکھئے کہ انہیں کیمرہ چھونے تک کو بھی نہیں ملا۔ پورے سال آن لائن کلاسیز چلیں، جس میں زیادہ تر طلبا کے سیکھنے کے لیے شاید کچھ بھی نہیں تھا اور اب کورس مکمل ہوچکا ہے۔ اردو دانوں اور اردو اخباروں کے مدیران سے سوال ہے کہ کیا وہ ان بچوں کو اپنے یہاں رکھنے کو تیار ہیں؟ کیا وہ انھیں کم از کم مہینے کا 25 ہزار دینے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ دہلی میں رکشا والا بھی مہینے میں کم از کم 15 ہزار ضرور کما لیتا ہے۔ اردو اور روزگار کی بات کرنے والے ماہرین اگر اس پر روشنی ڈالیں تو بہتر رہے گا۔ اور ہاں! چلتے چلتے بتادوں کہ آئی آئی ایم سی کے پروسپیکٹس کے مطابق اس کورس کی فیس  55 ہزار 500 روپے ہے۔ جس میں طلبا کو 32 ہزار روپے  داخلہ لیتے وقت بھرنا ہوتا ہے۔ لہذا اتنی رقم خرچ کر کے اگر داخلہ کروانے پر زور دیا جارہا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ کیا ان کو روزگار دینے کے تعلق سے بھی کوئی کام ہورہا ہے؟

You may also like

Leave a Comment