ناصر اور جنید کے خون کے دھبے ابھی خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ ایک اور بے قصور کو نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اس بار یہ خونیں کھیل کرناٹک میں کھیلا گیا۔ غنڈوں کے شکار بنے ایک 35 سالہ مویشی تاجر ادریس پاشا۔ ڈیڑھ ماہ گزر جانے کے باوجود ناصر اور جنید کا مجرم مونو مانیسر اب بھی پولیس کی گرفت سے دور ہے۔ ادریس پاشا کا مجرم پنیت کیرے ہلّی بھی فرار ہے۔ جس طرح مونو کو پکڑنے میں ہریانہ اور راجستھان کی پولیس کو کوئی دلچسپی نہیں اسی طرح امکان ہے کہ پنیت کو پکڑنے میں کرناٹک کی پولیس بھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائے گی۔ ناصر اور جنید کو بھی گائے کی اسمگلنگ کے ایک فرضی الزام میں ہلاک کیا گیا تھا اور ادریس پاشا کی جان بھی اسی ناکردہ جرم میں لی گئی۔ ادریس پاشا کرناٹک کے مانڈیا ضلعے کے باشندہ تھے۔ وہ مویشی تاجر تھے۔ وہ ایک بازار سے موشی خرید کر جن کی تعداد سولہ تھی، ایک ٹرک کے ذریعے کیرالہ اور تمل ناڈو کے بازاروں میں فروخت کرنے کے لیے لے جا رہے تھے۔ لیکن جب جمعہ کی رات میں وہ مویشی لے کر اپنی منزل کی طرف جانے لگے تو بنگلور سے بیس کلومیٹر دور ساتھن پور پولیس تھانے کے پاس رات میں پونے بارہ بجے ان کے ٹرک کو پانچ افراد کے ایک گروہ نے روک لیا جس کی قیادت پنیت کر رہا تھا۔ ادریس نے پنیت کو بازار سے مویشی خریدے جانے کے ثبوت میں کاغذات دکھائے جس پر ا س نے کہا کہ ہم تمھیں اسی شرط پر چھوڑیں گے کہ تم ہمیں دو لاکھ روپے دو۔ انھوں نے اس کا مطالبہ مسترد کر دیا۔ جس پر انھیں گالیاں دی گئیں۔ پاکستان جانے کو کہا گیا اور ان پر حملہ کیا گیا۔ ان کے ساتھ دو اور لوگ بھی تھے۔ سید ظہیر اور عرفان۔ پاشا اور عرفان بھاگنے لگے۔ پاشا کچھ دوری پر پکڑ لیے گئے۔ اسی درمیان وہاں ایک پولیس کانسٹبل آگیا۔ وہ ظہیر کو تھانے لے گیا۔ اگلی صبح پولیس نے ظہیر کو پاشا کی تصویر دکھائی۔ انھوں نے کہا کہ یہ تو ادریس پاشا ہیں، یہ ہمارے ساتھ تھے اور جائے واردات سے بھاگ گئے تھے۔ پولیس نے بتایا کہ ان کی موت ہو گئی ہے۔ بعد میں ایک سڑک کے کنارے ان کی لاش ملی۔ پاشا کے اہل خانہ کے مطابق ان کا جسم سیاہ ہو گیا تھا۔ غالباً انھیں کرنٹ لگا کر مارا گیا۔ پولیس نے پنیت کے خلاف دفعہ تین سو دو اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ لیکن اس کی امید کم ہے کہ وہ جلد گرفت میں آئے گا۔ پولیس نے ظہیر اور دوسروں کے خلاف گؤ کشی، مویشیوں پر ظلم اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پاشا کے چھوٹے بھائی یونس کا کہنا ہے کہ پاشا کو مسلمان ہونے کی وجہ سے مارا گیا۔
پنیت ایک ہندوتو وادی تنظیم ’راشٹرا رکشنا پاڈے‘ یعنی قومی سلامتی تنظیم کا صدر ہے۔ اس نے اس سے قبل کرناٹک میں حلال گوشت اور مسلمانوں سے تجارت کرنے کے خلاف مہم چلائی تھی۔ کرناٹک میں مندروں کے آس پاس مسلمانوں کی تجارت کے خلاف بھی وہ مہم چلا چکا ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں اس کی تنظیم مسلم پھر فروشوں کے ٹھیلوں کو توڑنے اور پھلوں کو تباہ کرنے میں ملوث رہی ہے۔ اس معاملے میں پنیت کو حراست میں لیا گیا تھا۔ جب سے اس کا نام پاشا کے قتل میں سامنے آیا ہے سوشل میڈیا پر بی جے پی لیڈروں کے ساتھ اس کی تصاویر کا سیلاب آگیا ہے۔ سوشل میڈیا میں جن بی جے پی لیڈروں کے ساتھ اس کی تصاویر موجود ہیں ان میں تیجسوی سوریہ ایم پی، کپل مشرا، کے اناملائی اور سی ٹی روی شامل ہیں۔ محمد زبیر کی ایک ٹوئٹ کے مطابق متعدد ریاستی بی جے پی رہنماؤں کے ساتھ اس کا رابطہ ہے۔ ماضی میں متعدد فرقہ وارانہ معاملات میں اس کا نام سامنے آتا رہا ہے۔ کرناٹک پولیس نے ستمبر 2021 میں ٹیپو سلطان کے پوسٹر پھاڑنے کے الزام میں متعدد افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں پنیت کیرے ہلی بھی شامل تھا۔ ایک ویڈیو میں وہ ایسے لوگوں کو جن کو گائے کے اسمگلر بتایا گیا، ڈرا دھمکا رہا ہے۔ ایک ویڈیو میں اسے ایک شخص کو بجلی کے ٹیسٹر سے زحمی کرتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
سال 2015 میں اترپردیش کے دادری میں بیف رکھنے کے جرم میں اخلاق نامی ایک شخص کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیے جانے کے بعد گائے کے تحفظ اور بیف کھانے کے نام پر مسلمانوں کی لنچنگ کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ ہنوز جاری ہے۔ کبھی پہلو خان کو ہلاک کیا جاتا ہے تو کبھی نو عمر حافظ جنید کو۔ کبھی اکبر خان کو تو کبھی تبریز کو۔ یہ فہرست کافی طویل ہے اور ہمیں نہیں معلوم کہ وحشیانہ قتل کے ان واقعات کے تمام مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا یا نہیں۔ دراصل اب اس ملک میں ایک نئی قسم کی روایت کی بنیاد ڈالی گئی ہے۔ یعنی قتل اور آبروریزی کے مجرموں کی عزت افزائی کرنا۔ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی جانب سے ان کے حوصلے بڑھانا اور ان کی پشت پناہی کرنا۔ یہاں تک کہ لنچنگ کے مجرم اگر جیل سے ضمانت پر رہا ہوتے ہیں تو کوئی مرکزی وزیر انھیں ہار پہنا کر ان کی عزت بڑھاتا ہے۔ اسی طرح ایک درجن افراد کو ہلاک اور ایک معصوم خاتون کی عصمت دری کے مجرموں کو قبل از وقت جیل سے رہا کر دیا جاتا ہے۔ انھیں سنسکاری بتا کر ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور انھیں اسی مخصوص سیاسی پارٹی کے اسٹیج پر جگہ بھی دی جاتی ہے۔ گویا وہ اپنے آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہم نے جو کیا تم بھی وہی کرنا جبھی عزت پاؤگے اور جبھی دنیا میں تمھارا نام ہوگا۔
یوں تو یہ واقعات ملک کے الگ الگ خطوں میں پیش آرہے ہیں لیکن ان میں ایک قدر مشترک بھی ہے۔ یعنی ان میں سے اکثریت کا تعلق حکمراں سیاسی جماعت سے ہے۔ اس پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ ان کی تصاویر موجود ہیں۔ کوئی وزیر داخلہ کے ساتھ تصویر کھنچوا رہا ہے تو کوئی کسی اور وزیر کے ساتھ۔ وہ ان رہنماؤں کے ساتھ اسٹیج بھی شیئر کرتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ پولیس اہلکار بھی ان کی ’سیوا‘ میں لگے رہتے ہیں۔ مونو مانیسر کو تو پولیس سے انعام و اکرام بھی ملا ہوا ہے۔ جب ان عناصر کے خلاف احتجاج ہوتا ہے تو آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں ان کی حمایت میں آجاتی ہیں۔ مونو مانیسر کی حمایت میں ہریانہ میں مہا پنچایت ہوئی اور راجستھان پولیس کو دھمکی دی گئی کہ خبردار وہ مونو کو پکڑنے کی کوشش نہ کرے۔ راجستھان کی پولیس اس دھمکی سے ڈر گئی اور پھر اس نے مونو کو پکڑنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ ہریانہ کی پولیس تو ایسے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی ہی نہیں کرتی۔ وہ کیوں اسے پکڑنے کے لیے کوئی کوشش کرے گی۔ اسی طرح جموں کے کٹھوعہ میں ایک آٹھ سالہ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی اور قتل کے خلاف جب ملک گیر احتجاج ہوا تو مقامی بی جے پی لیڈروں اور بی جے پی سے تعلق رکھنے والے وکلا نے ملزموں کے حق میں جلوس نکالا تھا۔
یو ں تو یہ واقعات ملک کے الگ الگ علاقوں میں ہو رہے ہیں اور بظاہر ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ تمام واقعات ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں اور ان کے ڈانڈے ایک ہی جگہ جا کر ملتے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کئی سال قبل ایک بار نام نہاد گؤ رکشکوں کے خلاف بیان دیا تھا اور انھیں غیر سماجی عناصر قرار دیا تھا۔ لیکن اس کے بعد انھوں نے اس معاملے پر چپی سادھ لی۔ ان کے بیان کے بعد بھی کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ گائے کے تحفظ اور بیف کے الزام میں جانے کتنے بے قصوروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ لیکن مجال ہے جو کسی کو قرار واقعی سزا ملی ہو۔ جب حکومت کے ذمہ داران اور قانون کے رکھوالے ہی قانون شکنوں کے اس گروہ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے تو پھر بھلا ان کے حوصلے کیوں نہیں بلند ہوں گے۔ جب ان لوگوں کو حکمراں جماعت کے رہنماؤں کا تحفظ حاصل ہے تو وہ کسی بھی حد تک جانے سے کیوں گریز کریں گے۔ ان کو معلوم ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور اگر وہ پکڑے بھی گئے تو جلد ہی رہا ہو جائیں گے۔ اگر کوئی شخص یہ امید کرتا ہے کہ یہ سلسلہ بند ہو جائے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ سیاسی مشاہدین کا خیال ہے کہ کم از کم اگلے پارلیمانی انتخابات تک اس قسم کے واقعات ہوتے رہیں گے۔