Home تجزیہ عبادت گاہ قانون کی کھلی خلاف ورزی ۔سہیل انجم

عبادت گاہ قانون کی کھلی خلاف ورزی ۔سہیل انجم

by قندیل

سنبھل میں جو کچھ ہوا بلا شبہ وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ایک جان بھی بہت قیمتی ہوتی ہے۔ یہاں تو پانچ پانچ گھروں کے چراغ گل ہو گئے۔ شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران مقامی مسلمانوں کے احتجاج کے وقت پولیس کی کارروائی کی جو ویڈیوز وائرل ہیں وہ انتظامیہ کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ جس طرح گولیاں چلائی گئیں اس کی ہر حال میں مذمت کی جانی چاہیے۔ فائرنگ تو بالکل آخری حربہ ہوتا ہے اور وہ بھی کمر کے نیچے گولی ماری جاتی ہے۔ لیکن جب معاملہ مسلمانوں کا ہو تو جانے کیوں پولیس جوانوں میں بہت زیادہ جوش آجاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ دشمن ملک کے افراد سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ ادھر سروے کے سلسلے میں بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اگر ان سب کو بھی نظرانداز کر دیا جائے تو یہ بات نظرانداز کرنے کے قابل نہیں ہے کہ سروے ٹیم اپنے ساتھ ایسے لوگوں کی بھیڑ کیوں لے گئی تھی جو مذہبی نعرے لگا رہے تھے۔ کیا عدالت نے سروے کمشنر کو اس کی اجازت دی تھی کہ وہ اپنے ساتھ ایسے غیر متعلق لوگوں کو لے جائیں جو مسلمانوں کو چڑانے کے لیے مذہبی نعرے لگائیں۔

اسی کے ساتھ ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ مسلمانوں کو بھی صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے تھا۔ اگر سروے ٹیم عدالت کے حکم پر گئی تھی تو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہاں اگر ٹیم اپنے ساتھ مسجد کے ذمہ داروں کو نہیں لے گئی تو اس نے غلط کیا۔ اس کو مسجد کے ذمہ داروں کو بھی اپنے ساتھ رکھنا چاہیے تھا تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ سروے کمشنر کیا کیا درج کر رہے ہیں۔ ادھر مسلمانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ایسے مواقع پر جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے ہر واقعے میں مسلمان مشتعل ہو جاتے ہیں اور نقصان انہی کا ہوتا ہے۔ ہم پولیس کی زیادتی کی حمایت نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے رویے کو بھی اطمینان بخش نہیں کہا جا سکتا۔ عدالت کے حکم کی پابندی کرنی ہوتی ہے اور حکومت و انتظامیہ اگر غلط بھی کر رہی ہیں تو اس طرح ان سے نہیں لڑا جا سکتا۔ عدلیہ کا رویہ کیسا بھی ہو لیکن بہر حال ہمیں قانون کا سہارا لینا چاہیے۔ اس حوالے سے ہم بنارس کے مسلمانوں کی تعریف کریں گے کہ گیان واپی مسجد میں ایک بار نہیں کئی کئی بار سروے ہوا اور یہاں تک کہ حوض کو بند کر دیا گیا اور مسجد کے تہہ خانے میں پوجا کی اجازت دے دی گئی۔ اس کے باوجود وہاں کے مسلمان مشتعل نہیں ہوئے۔ اگر وہ مشتعل ہوجاتے تو ہوتا وہی جو حکومت و عدالت چاہتی رہی ہیں البتہ نقصان مسلمانوں کا ہی ہوتا۔ ممکن ہے کہ اشتعال انگیز احتجاج میں کچھ مسلمانوں کی جانیں ضائع ہو جاتیں۔ بار بار کے واقعات ہمیں اس بات کی یاددہانی کراتے ہیں کہ ہمیں ٹکراو کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن ہم ہیں کہ کسی بھی واقعے سے سبق سیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

بہرحال سنبھل کے واقعے اور اجمیر کی خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے سروے کے سلسلے میں عدالتی کارروائی کی روشنی میں جو سوال سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے اور جس کو غیر جانبدار اخبارات اور سوشل میڈیا نے اٹھایا ہے وہ یہ ہے کہ 1991 کے عبادت گاہ قانون کی موجودگی میں مسجدوں کے سروے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے۔ عدالت میں جب کسی معاملے میں کوئی درخواست داخل کی جاتی ہے تو پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں۔ اس کے بعد ہی اس کو قبول کیا جاتا ہے۔ پھر تاریخ پڑتی ہے اور عدالت فیصلہ محفوظ کر لیتی ہے اور اگلی تاریخ مقرر کر دیتی ہے۔ لیکن سنبھل کی جامع مسجد کے مندر ہونے کے دعوے سے متعلق کیس داخل کیا گیا اور سول جج آدتیہ سنگھ نے اسی روز تین گھنٹے کی سماعت کی اور اسی روز مسجد کے سروے کا حکم دے دیا۔ ان کی جانب سے مقرر کردہ ایڈووکیٹ کمشنر نے بھی عدالت کے مانند عجلت سے کام لیا اور اسی روز سروے کر ڈالا۔ اس سلسلے میں متعدد سوالات ہیں لیکن اصل سوال یہی ہے کہ عبادت گاہ قانون کی موجودگی میں کسی بھی مسجد کے سروے کا حکم دیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ یاد رہے کہ جب بابری مسجد کا تنازع بہت زیادہ خطرناک رخ اختیار کر گیا تھا تو اس وقت کی مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ سے ایک قانون منظور کرایا تھا جسے عبادت گاہ قانون 1991 کہا جاتا ہے۔ اس قانون میں بہت واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 1947 میں جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی اسی شکل میں رہے گی اس میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ البتہ بابری مسجد کو اس سے مستثنیٰ کر دیا گیا تھا۔ اس کے اگلے سال ہی بابری مسجد کو بزور طاقت ڈھا دیا گیا۔ لیکن اس قانون کے باوجود مسجدوں کے خلاف درخواستیں قبول کی جا رہی ہیں۔

اس قانون کا حقیقی مقصد یہ تھا کہ آر ایس ایس اور وشوہندو پریشد کے اس دعوے کی ہوا نکالی جائے کہ ملک میں سیکڑوں مسجدیں مندر توڑکر بنائی گئی ہیں اور ان سب کو مندروں میں تبدیل کیا جائے گا۔ اس تعلق سے ایک لمبی چوڑی فہرست پیش کی جا رہی تھی۔ جب یہ قانون بنایا گیا تو اس وقت کے وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ اب کسی بھی عبادت گاہ پر کوئی دعویٰ نہیں کیا جاسکے گا۔ اس قسم کے تنازعات کا دروازہ ہی بند کر دیا گیا ہے۔ لیکن اب جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لیے آزاد اور غیر جانبدار صحافیوں کی جانب سے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ ایک طرف انھوں نے 2019 میں ایودھیا تنازعے کا فیصلہ سناتے وقت 1991 کے عبادت گاہ قانون کی خوب خوب تعریف کی تھی۔ لیکن دوسری طرف جب وارانسی کی ایک عدالت نے گیان واپی مسجد میں سروے کا حکم دیا اور وہاں کے مسلم فریق نے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو چندر چوڑ نے اس قانون کی عجب تاویل کی۔ انھوں نے کہا کہ گیان واپی مسجد کی ہیئت تبدیل نہیں کی جا رہی ہے بلکہ یہ دیکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مسجد کی جگہ پر پہلے کوئی مندر تھا یا نہیں۔ حالانکہ ان کو واضح طور پر کہنا چاہیے تھا کہ جب تک عبادت گاہ قانون موجود ہے اس قسم کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بنارس کے مسلمانوں نے چندر چوڑ کی تاویل کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کی لیکن آج تک اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

ہمیں ہندی اخباروں اور گودی میڈیا سے کسی خیرکی توقع نہیں ہے۔ لیکن متعدد یو ٹیوب چینلوں اوربعض انگریزی اخباروں نے سنبھل کے حوالے سے چندر چوڑ کے رویے پر سوال اٹھایا ہے اور سنبھل میں جو کچھ ہوا اس کے لیے انھیں ہی ذمہ دار قرار دیا ہے۔ انگریزی اخبار ”ہندوستان ٹائمز“ اپنے اداریے میں لکھتا ہے کہ جب تک یہ ملکی قانون موجود ہے سنبھل کی عدالت ہو یا کہیں کی بھی، اس کو اس قسم کا آرڈر دینے اور اس قانون کی بے توقیری کرنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ قانون کہتا ہے کہ کسی بھی عبادت گاہ کو کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے باوجود نچلی عدالتوں اور الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی اپنی مداخلت سے اس قانون کی دفعات کی خلاف ورزی کی ہے۔ خاص طور پر گیان واپی مسجد کے سلسلے میں ایسا ہوا ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے یہ حکم جاری کر دیا ہوتا کہ نچلی عدالتیں اس قسم کے تنازعات کو عدالتی عمل میں نہیں لائیں گی تو یہ سب کچھ بالکل نہیں ہوتا۔ اسی طرح انگریزی اخبار ”انڈین ایکسپریس“ نے بھی اس قانون کی موجودگی میں بنارس اور متھرا کی عدالتوں کے رویے پر سوال اٹھایا ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اس قانون کو چیلنج کرنے والی چار درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ ستمبر 2022 میں اس وقت کے چیف جسٹس یو یو للت کی بینچ نے مرکزی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ دوہفتے کے اندر اس معاملے میں اپنا جواب داخل کرے۔ لیکن دو سال گزر گئے حکومت نے ابھی تک اپنا حلف نامہ داخل نہیں کیا ہے۔ اخبار نے چندر چوڑ کے فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عدالت عظمہ کی تاویل نے اس قسم کی یعنی مسجدوں کے مند رہونے کی درخواستوں کے داخل کرنے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس اخبار نے بھی چندر چوڑ کی تاویل کا ذکر کیا اور اس پر سوال اٹھایا ہے۔ سنبھل معاملے میں اخبار کا کہنا ہے کہ وہاں واقعات بڑی تیزی سے رونما ہوئے ہیں۔ سول عدالت نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ ہندو فریقوں کی جانب سے داخل درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں۔ اس نے فوری طور پر سروے کا حکم دے دیا۔صرف اتنا ہی نہیں بلکہ عدالت نے مسلمانوں کا موقف بھی نہیں سنا اور جو حکم دیا اس پر فوری طور پر عمل بھی ہو گیا۔

دیگرمتعدد اخباروں نے بھی عدالت کے رویے پر سوال اٹھایا ہے اور سب سے بڑا سوال تو یہی اٹھایا گیا ہے کہ جب عبادت گاہ قانون موجود ہے تو پھر اس قسم کے درخواستیں کیسے قبول کی جا رہی ہیں اور کیسے ان پر احکامات صادر کیے جا رہے ہیں۔ یہ بہت بڑا سوال ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اس قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ہمیں عدلیہ کی نیت پر شبہ کرنے کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی ہم شبہ کر رہے ہیں لیکن عدلیہ کی جانب سے جو طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے اس سے شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں۔ مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنا حلف نامہ جلد از جلد داخل کرے اور سپریم کورٹ عبادت گاہ قانون کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت کرکے کوئی فیصلہ سنائے۔ تاکہ مسجدوں کے سلسلے میں آئے دن جو شوشے چھوڑے جا رہے ہیں اس کا سد باب کیا جا سکے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like