Home ستاروں کےدرمیاں حسنِ عمل وسادگی کاپیکر حضرت مولاناعبدالخالق سنبھلی ـ ڈاکٹرراحتؔ مظاہری قاسمی

حسنِ عمل وسادگی کاپیکر حضرت مولاناعبدالخالق سنبھلی ـ ڈاکٹرراحتؔ مظاہری قاسمی

by قندیل

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان اپنے عزیز، اقربا دوست، محسن ومربیوں کی موت کےغم اور دکھ کو بھی بھولتارہتا ہے، وقت گذرنے کے ساتھ اداسی کم ہونے لگتی ہےکیونکہ دوسرے مشاغل واموراس کی جگہ لے لیتے ہیں۔
لیکن پھربھی کسی کے بچھڑ جانے کا احساس مکمل طور پر ختم نہیں ہوجاتا بلکہ اپنے رشتے اورتعلقات کے تقاضوں کے مطابق کافی دنوں تک باقی رہتاہے، بعینہٖ یہی صورتحال طبقہ ٔدارالعلوم کے لئےحضرت مولاناعبدالخالق سنبھلی صاحب کی وفات پر ہے۔چونکہ ابھی دارالعلوم اپنے ایک اہم ستون کارگذارمہتمم حضرت مولاناقاری محمدعثمان منصورپوری ؒ بھی کےداغ مفارقت سے نبردآزماتھا کہ اتنے ہی میں مولاناعبدالخالق کوقزاق اجل نے آلیا۔ اناللہ۔
مگراسی کے ساتھ ایک خوشی یہ بھی ہے کہ الحمدللہ آپ کی وفات ایمان وعمل صالح کے ساتھ ہوئی ہے اورحسن خاتمہ ایک مؤمن کے لیے دنیاکی سب سے بڑی معراج اوربے بدل ذخیرۂ آخرت ہےـ
حسن خاتمہ کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ضرور مسجد میں فوت ہوں یا جائے نماز پر یا آپ جس وقت فوت ہوں تو قرآن آپ کے ہاتھ میں ہو محبوب خدا حضرت محمد صلى الله عليه و سلم جس وقت فوت ہوئے وہ اپنے بستر پر تھے،آپ صلى الله عليه وسلم کے دوست ابوبکر صدیق رضی الله عنه جو صحابہ میں وامت میں افضل البشرسے ملقب تھے وہ اپنےبستر پرفوت ہوئے ، خالد بن الوليد رضي الله عنه جن کا لقب سیف اللہ تھا وہ اپنے بستر پرفوت ہوئے،حسن خاتمہ یہ ہے کہ آپ کی موت اس حال میں ہو کہ کفرو شرک سے پاک ہوں۔ نفاق سے پاک ہوں، بدعتوں سے پاک ہوں ،حسن خاتمہ یہ ہےکہ آپ مسلمانوں کے خون ، مال اور عزت کے بوجھ سے ہلکے ہوں ،حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنے والے ہوں ،کہ آپ کا دل سلامت ہو نیت پاک ہو اور آپ حسن اخلاق پر ہوں،کسی مسلمان کے لیے آپ کے دل میں کوئی بغض کینہ اور نفرت نہ ہو ، آپ پانچوں نمازوں کو ان کےوقت پر ادا کرنے والے ہوں ”اے اللہ پاک تمام کاموں میں ہمارا انجام اچھا کردے اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا لے“آمین یا رب العالمین۔
حضرت مولاناعبدالخالق سنبھلی سنبھل محلہ سرائے ترین کے ایک معمولی کاروباری کےفرزند ہوتے ہوئے اپنی ترقی کاعمل مختلف مراحل ومشقتوں سے طے کرتے ہوئے ازہرہند دارالعلوم دیوبند کے استاذِ حدیث ونائب مہتمم کی مسندتک پہنچے تھے۔یقینی طورپر دارالعلوم میں پہلے ہی سے مولاناسنبھلی سے قبل بھی علم وعمل، تقویٰ ، طہارت، خوش بیانی،شوکت ودبدبہ، اپنے تدبر وتفکر میں منفردو اہم صفات کی حامل بہت ساری شخصیات موجود تھیں،لیکن موصوف کوجواس مسند پر فائز کیاگیاوہ ان کی علمی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض منصبی کی بروقت ادائیگی کے علاوہ ان کے حسن عمل،خوش اخلاقی، عاجزی، انکساری،تواضع پسندی اور اورہردل عزیزی کے وصف کواہم دخل تھا۔
اسی حسن عمل کی صفت نے موصوف کو اس عالی مرتبہ تک پہنچایا۔
مشیت خداوندی کے تحت آپ نامراد کینسرکے موذی مرض کے نتیجے میں 19 ذوالحجہ 1442 30 جولائی 2021 بروز جمعہ تقریباً 71 سال کی عمر میں شام چار بجے انتقال فرماگئے۔
آپ کی فراغت ازہر ہنددارالعلوم دیوبند سے 1972 میں ہوئی تھی۔
فراغت کے بعد تدریسی سفر شمالی ہندکے مشہور ادارے خادم الاسلام ہاپوڑ سے کیا وہاں آپ کئی سال تک رہے آپ کو یہیں سے ایک بہترین استاذ کااصلی تمغہ ملا۔ چونکہ آپ کی آمدورفت اپنے درسی رفیق میرے مشفق ومربی حضرت مولاناحبیب الرحمٰن قاسمی معصوم پوری کے پاس مرادآباد شہرکے ایک ترقی پذیر ادارے جامع الہدیٰ میں کافی رہتی تھی، پہلی بار احقر وہیں حضرت کی زیارت باسعادت سے مشرّف ہواتھا،مدرسہ ہٰذاکے مہتمم میرے مشفق ومربی حضرت مولانامحمداعلم قاسمیؒ ( جن کا گذشتہ سال انتقال ہوچکاہے)کی نگاہ میں بھرگئے توآپ نے حضرت کو اپنے یہاں بلالیا اورچونکہ مرادآباد اس وقت شہر سمبھل سے قریب اوراس کا ہیڈکواٹر بھی تھااس لیے دونوں کاہی فیصلہ بہت مناسب ثابت ہوا،دارالعلوم جامع الھدیٰ میں آپ پانچ سال مسلسل وسطیٰ اور علیاکی کتابوں کے طلبہ کو اپنے علمی وادبی ذوق سے نکھارتے رہے۔
وہیں سے1982 میں آپ کا تقررابتدأ میں صرف ایک مدرس کے طور دارالعلوم دیوبند میں درسی خدمات کے واسطے کیاگیا، مگرچونکہ آ پ ایک بہترین منتظم اورطلبہ کے لیے مشفق بھی تھے تواسی مناسبت سے آپ کو ناظم دارالاقامہ منتخب کیاگیا، چونکہ طلبہ سے لوہالیناہماشماکے بس کی بات نہیں،جب وہاں آپ بہترین منتظم ثابت ہوئے تو پھر مجلس شوریٰ نے آپ کو 2008 سے دارالعلوم دیوبند کے نائب مہتمم کی ذمہ داری دی گئی جس کو آپ نے تادم واپسیں بحسن و خوبی انجام دیا، البتہ اس میں سے یہ دوتین ماہ جن میں آپ بسترسے اٹھنے کے لائق بھی نہیں رہے منہاہیں۔
چونکہ آپ عربی کے ایک بہترین ادیب تھے اس لیے موقع کی مناسبت سے شواہد کے طورپرجدید وقدیم عربی اشعارکے ساتھ اردو،فارسی کے اشعارکاتڑکاآپ کے درس کا اہم وصف تھا۔
آپ درجہ چہارم سے درجہ ہفتم تک کامیاب مدرس رہنے کے بعد فی الحال حدیث رسولﷺ کی ابن ماجہ جیسی اہم کتاب کا درس دے رہے تھے۔اللہ ان کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔
آپ کے وارثین میں کئی بیٹیوں کے علاوہ تین فرزند مولانا محمد سہیل قاسمی، مولانا محمد عزیر قاسمی اور مولانا محمد زبیر قاسمی اوران کی والدہ محترمہ بھی ہیں، اللہ ان سب اوردیگرپسماندگان کو صبرجمیل عطا فرمائے ـ چونکہ چھوٹےبچوں اور نوجوانوں میں غم کا احساس کچھ زیادہ ہی ہوتاہے اس لیے ان کی فیملی اورنوعمر بچوں پر آپ کی وفات کاصدمہ اس وقت بیجاہونافطری بات ہے ، اس لیے ان کے لیے خاص دعاکی ضرورت ہے۔

You may also like

Leave a Comment