Home تجزیہ ہوشیار ! پھر کہیں نندوربار جیسا واقعہ نہ ہو ۔شکیل رشید

ہوشیار ! پھر کہیں نندوربار جیسا واقعہ نہ ہو ۔شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )

اب مہاراشٹر کے شہر نندوربار میں فساد پھوٹ پڑا ہے ۔ نشانہ بنا کر املاک تباہ و برباد کی گئی ہیں ۔ اِس بار بھی ’ پتھروں ‘ کا نہایت منصوبہ بند استعمال کیا گیا ہے ! اس دفعہ مسلمانوں کی طرف سے ، ہندوؤں کے گنپتی کے تہوار کے مدنظر ، عید میلاد النبی ﷺ کے جلوسوں کو کئی جگہ موخر کیا گیا ، یعنی ۱۲ ، ربیع الاول کو جلوس نہ نکال کر جلوس دو دن کے بعد نکالے گئے ، نندوربار میں تیسرے دن جلوس نکالا گیا ۔ مگر اس کشادہ دلی کے باوجود فرقہ پرستوں اور شرپسندوں نے شہر کے امن و امان کو بگاڑنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ۔ جلوس نکلا ، لیکن جلوس کو پرامن طور پر گزرنے نہیں دیا گیا ، مالی واڑہ کے علاقہ میں اس پر پتھراؤ شروع ہو گیا ، اور ظاہر ہے کہ پتھراؤ کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوئی ، کچھ شرپسند سڑکوں پر نکلے ، اور گاڑیوں وغیرہ کی توڑ پھوڑ کی گئی ، گھروں کو نذرِ آتش کرنے کی کوشش کی گئی ، زبردست تناؤ پھیل گیا ، پولیس کو طاقت کا استعمال کرنا پڑا ، کئی افراد حراست میں لیے گئے۔ فی الحال حالات کشیدہ مگر قابو میں ہیں ۔ لیکن حالات کتنے ہی قابو میں کیوں نہ ہوں ، فرقہ پرست اور شرپسند اپنے مقصد میں کامیاب تو ہو ہی گیے ہیں ۔ فرقہ وارانہ تشدد اور توڑ پھوڑ کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے ؛ اقلیت میں خوف و ہراس پیدا کرنا ، اور اُسے مقدمات میں پھنسانا ۔ اور اس کے پسِ پشت سیاست کام کرتی ہے ، گندی اور غلیظ سیاست ۔ نندوربار میں جو ہوا ، اور اس سے بھی پہلے جو کچھ کولہا پور میں ہوا ، اور مہاراشٹر کے دیگر حصوں میں روزانہ جو فرقہ وارانہ تناؤ کے چھوٹے موٹے واقعات ہو رہے ہیں ، اور جس طرح نتیش رانے جیسے سیاست داں ہیٹ اسپیچ ، زہریلے بیانات دے رہے ہیں ، اور جس طرح رسول اکرم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جسارت کرنے والے ایک ہندو مہنت رام گری کی پشت پناہی کی جا رہی اور اسے قانون کی گرفت سے محفوظ رکھا جا رہا ہے ، ان سب کے پیچھے ووٹوں کی سیاست کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔ یاد رکھیں کہ مہاراشٹر میں جیسے جیسے اسمبلی الیکشن قریب آئیں گے ، ویسے ویسے فرقہ وارانہ تناؤ بڑھانے کی ، اور فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے کی کوششیں تیز ہوتی جائیں گی ۔ بی جے پی کے قدموں تلے سے مہاراشٹر کی زمین تقریباً ہِل چکی ہے ، اور سابق بھاجپائی وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس اور موجودہ وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے کو سوجھ نہیں رہا ہے کہ وہ بی جے پی اور شیوسینا ( شندے ) کو بچانے کے لیے کیا کریں ، ایسے میں انہیں ایک ہی راہ نظر آ رہی ہے ؛ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دراڑ کو ، جو پہلے ہی سے ہے ، مزید وسیع کرنا ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بی جے پی کو زیادہ تر کامیابیاں فرقہ وارانہ تناؤ کے دوران ہی حاصل ہوئی ہیں ۔ جب جب فسادات ہوئے ہیں ، جب جب ہندو – مسلمان کیا گیا ہے ، اور جب جب مسلمانوں کو مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے نشانہ بنایا گیا ہے ، بی جے پی فائدے میں رہی ہے ۔ اس بار بھی اسے اپنی جیت اسی میں نظر آ رہی ہے کہ ریاست میں فرقہ وارانہ تناؤ قائم رہے ۔ ایسے میں اُنہیں جو فسادات کو ملک اور ریاست کی ترقی کے لیے ، بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں ، بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوں کو تو کہیں زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ۔ شرپسندوں کے جھانسے میں نہ آئیں ، افواہوں پر دھیان نہ دیں اور بڑے نقصان سے بچنے کے لیے معمولی سے نقصان کو نظرانداز کر دیں ۔ ان مسلم اور غیرمُسلم سیاست دانوں کو ، جو فرقہ پرستی کے خلاف ہیں ، متحد ہوکر کھڑا ہونا ہوگا ، اور فرقہ پرستوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کی شرانگیزی کو روکنا ہوگا ۔ نندوربار جیسے واقعات مزید نہ ہوں اس کے لیے بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like