Home تراجم حکومت سے اختلاف ملک سے غداری نہیں ہے

حکومت سے اختلاف ملک سے غداری نہیں ہے

by قندیل

تولین سنگھ(معروف صحافی،کالم نگار)
ترجمہ:نایاب حسن
ایسے وقت میں جبکہ ہمارے بہت سے سیاسی رہنما حکومت سے اختلاف کوملک سے غداری کے مترادف قراردے رہے ہیں،گزشتہ ہفتے اس موضوع پر جسٹس دھننجے چندرچور کی باتیں مسرت بخش تھیں۔گجرات ہائی کورٹ میں پندرہویں پی ڈی ڈیسائی میموریل لیکچر کے دوران انھوں نے اختلاف و اعتراض کو جمہوریت کاsafety valveقراردیا۔اس کے بعد ٹائمس آف انڈیامیں شائع شدہ مضمون میں انھوں نے لکھا”مخالفت کی آوازوں کودبانا اور لوگوں کے ذہنوں میں خوف پیدا کرنا ان کی پرسنل آزادی اور دستوری اقدار کے تئیں عہدبندی کے خلاف ہے،ایسا کرنے سے باہمی مکالمہ و مذاکرہ پر مبنی جمہوری معاشرے کے دل کو چوٹ پہنچتی ہے،جس میں ہر انسان کو یکساں عزت و اعتبار حاصل ہوناچاہیے“۔
سپریم کورٹ کے جج کے یہ الفاظ جرسِ انتباہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ الفاظ خصوصاً اس وقت اہم ہوجاتے ہیں،جب مرکزی حکومت کے ذریعے لائے گئے ایک قانون سے اختلاف رکھنے والے لوگ یوپی میں احتجاج درج کروانے کے لیے سڑکوں پر اترتے ہیں،توان پربھاری جرمانہ عائد کیاجاتااور ان کی جائیدادیں ضبط کی جاتی ہیں۔احتجاجیوں کی بھیڑ میں بعض چہروں کی شناخت کرکے انھیں معاشی زک پہنچانے اورمظاہرہ کرنے والے اداکاروں اور شاعروں کو گرفتار کرنے سے زیادہ بہتر اختلاف کودبانے کی مثال کیاہوسکتی ہے؟
یونیورسٹیز میں احتجاج کرنے والے طلبہ پر غداری کا مقدمہ کیاگیا اور شاہین باغ کی احتجاجی خواتین کو دہشت گردقراردیاگیا۔کم سے کم دہلی الیکشن کے اختتام کے بعد اب ایسی باتوں کی بظاہر کوئی وجہ نہیں ہوسکتی، مگر روز انہ ٹی وی چینلوں پر بی جے پی کے ترجمان یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ خواتین پاکستان کے اشارے پر احتجاج کررہی ہیں۔ ایسا لگتاہے کہ ایسی باتیں پاورفل لیڈرز کے آشرباد سے کی جاتی ہیں۔ان لیڈروں کاایسا مانناہے کہ جمہوریت کادائرہ بس انتخابات جیتنے تک محدود ہے۔یہ کہنے کے ساتھ ساتھ میرے حساب سے یہ یادرکھنااہم ہے کہ ایسے سیاسی جبر کا ماحول تبھی سے قائم ہے، جب ہندوستان ایک جدید نیشن بنا،اسے ذہن میں رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ ایسے بہت سے ریٹائرڈافسران اور سابق وزراہیں،جو اس قسم کی باتیں ایسے کرتے ہیں گویاانھیں اس کا حق حاصل ہے۔اگر کانگریس کی طویل المدت مفروضہ لبرل حکومت میں ہمارے استعماری حکمرانوں کے ذریعے تھوپے گئے ان ظالمانہ قوانین کو ختم کردیاجاتا،توآج ہم اس حالت میں نہ ہوتے۔
یہ ایک بہتر حالت نہیں ہے۔جو صحافی حکومت کی مخالفت کرنے کی جرأت کرتے ہیں،انھیں نشانہ بنایاجاتااور دھمکیاں دی جاتی ہیں،اسی کا نتیجہ ہے کہ بعض پرائیویٹ چینل”شاہ“سے وفاداری کے اظہار میں دوردرشن کوبھی پیچھے چھوڑنے کی کوشش میں ہیں۔صحافت کاابتدائی و بنیادی اصول یہ ہے کہ حکومت اور صحافیوں کے درمیان بنیادی رشتہ اختلاف کا ہونا چاہیے،مگر ایسا لگتاہے کہ میرے بہت سے ہم پیشہ افراد اس اصول کو بھول چکے ہیں۔ان میں سے کچھ لوگ توایسے بات کرتے ہیں،گویا وہ حکومت کے ترجمان ہیں،جوواقعی خطرناک ہے۔صنعت کار خوف زدہ ہیں،حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت نہیں کرتے،انھیں خطرہ ہے کہ اگر حکومت کی پالیسیوں کے خلاف کچھ بولا،توان کے کاروبار/کمپنیوں پر چھاپہ مروادیاجائے گا۔یہاں ایک بار پھر یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ صنعتی اداروں کو چھاپہ مرواکریا غیر ممولی نگرانی کرکے بربادکرنے کی مشنری کانگریس کے لبرل وزرائے اعظم نے ہی ایجاد کی تھی۔جب لائسنس راج کو ختم کیاگیا،تبھی اسے بھی کالعدم کردینا چاہیے تھا،مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔جب وزیر اعظم مودی باربار یہ کہتے ہیں کہ وہ ایسا معاشی ماحول بناناچاہتے ہیں،جس میں کوئی بھی بزنس کرناآسان ہوگا،توانھیں خود سے سوال کرنا چاہیے کہ وہ چھاپہ ماری و بے جانگرانی کے کلچر کو ختم کیوں نہیں کرتے،جس کی وجہ سے پرائیویٹ صنعت کاگلہ گھونٹاجارہاہے۔اگر چین کی مطلق العنان اشتراکی حکومت ایسا کرسکتی ہے،توہندوستان جیسے جمہوری ملک میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا؟ہندوستانی ریاست سیاسی و تجارتی ہر دوسطحوں پر مخالفانہ آوازوں کو دبانے کے ذرائع کیوں اختیار کررہی ہے؟یہ ایسے سوالات ہیں،جنھیں گزشتہ چند ماہ سے لبرلزم مخالف اور بدبودار قوم پرستانہ رجحانات میں اضافے کی وجہ سے ہم لوگوں نے پوچھنا بند کردیاہے۔
ایک بارپھر جسٹس چندرچورکے الفاظ میرے ذہن میں آرہے ہیں،وہ کہتے ہیں ”یک رنگی ہندوستانیت کا نمونہ نہیں ہے،ہمارے باہمی اختلافات ہماری کمزوری نہیں ہیں،ان اختلافات سے ماوراہوکر مشترکہ انسانی اقدار کا اعتراف ہماری قوت وتوانائی کا وسیلہ ہے۔تکثیریت کو صرف اس وجہ سے فروغ نہیں حاصل ہونا چاہیے کہ یہ ہمارے دستورکا لازمی حصہ ہے؛بلکہ اس لیے بھی کہ یہ تعمیرِ قوم کے لیے لازمی قدر ہے“۔
حالیہ مہینوں میں کئی بار اس ملک پر فکرونظر کی یکسانیت کو تھوپنے کی کوشش کی گئی ہے،جواس ملک میں کبھی نہیں پائی گئی۔یہ عام طورپراس طرح کیاجاتاہے کہ لوگوں کی دیش بھکتی جانچنے کے لیے انھیں ”بھارت ماتا کی جے“بولنے پر مجبور کیاجاتا یا ”جے شری رام“بلواکر ان کی مذہبی وفاداری کی جانچ کی جاتی ہے اور اگر کوئی ایسا بولنے سے انکار کرے تو اسے غدارکہاجاتا یاآغوشِ نیست میں پہنچادیاجاتاہے۔
اس وقت اگر نئے ترمیم شدہ شہریت کے قانون کے خلاف احتجاجات ہورہے ہیں،تواس کی وجہ یہی مکروہ قوم پرستی ہے،احتجاج کرنے والے زیادہ تر لوگ مسلمان ہیں اور وہ اس وجہ سے سڑکوں پر نکلے ہیں کہ انھیں پتاہے کہ اس جارحانہ قوم پرستی کا نشانہ وہی ہیں،انھیں معلوم ہے کہ ہندووں سے ان کی ہندوستانیت کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا،صرف اُن سے پوچھاجائے گا۔
پس میں جسٹس چندرچورکی شکرگزارہوں کہ انھوں نے اس موضوع پر زبان کھولی اور ہمیں یاد دلایاکہ ہندوستان ہمیشہ ایک لبرل جمہوری ملک رہاہے اور توقع ہے کہ آیندہ بھی ایساہی رہے گا۔حکومت سے اختلاف حقیقی معنوں میں جمہوری ممالک کے لیےsafety valveہے۔
(اصل انگریزی مضمون23/فروری کوروزنامہ انڈین ایکسپریس میں شائع ہواہے)

You may also like

Leave a Comment