Home تجزیہ حکومتِ بہار کے زوال آمادہ اقلیتی تعلیمی ادارے -صفدر امام قادری 

حکومتِ بہار کے زوال آمادہ اقلیتی تعلیمی ادارے -صفدر امام قادری 

by قندیل

شعبۂ اردو ، کالج آف کامرس ، آرٹس اینڈ سائنس پٹنہ 

عام طور سے لالو یادو اور رابڑی دیوی کی حکومت کے لیے یہ الزام تراشی ہوتی رہی ہے کہ اُن کے زمانے میں تعلیمی اداروں کی بے طرح بربادی ہوئی۔ اِس کے بر خلاف نتیش کمار کی بیس سالہ حکومت کے تعلق سے یہ بات عام ہے کہ انفرااسٹرکچر بڑھانے اور تعلیم میں معیار کے لیے کوششیں کرنے میں یہ حکومت زیادہ مستعد رہی ہے۔ گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو اِن دونوں باتوں کی کلّی صداقت مشتبہ ہو جاتی ہے۔ حقیقت ان اعلان شدہ نتائج سے پرے ہے اور اگراقلیتی تعلیمی اداروں کے تناظر میں اِس کا جائزہ لیا جائے تو نتیش کمار کے دورِ حکومت کو خوف ناک قرار دیا جا سکتا ہے جہاںاقلیتی تعلیمی اداروں کی تعلیم کے بارے میں سرے سے سوچا ہی نہیں گیا اور آج ایسے تعلیمی ادارے آخری سانس لینے کے لیے مجبور ہیں۔

1912 ء میں جسٹس نورالہدانے اپنے والد کے نام پر شہرِ پٹنہ کے قلب میں اربوں روپوں کی زمین وقف کرتے ہوئے مدرسۂ اسلامیہ کی بنیاد رکھی تھی جس میں اسلامی علوم کی ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کی سہولیات موجود تھیں۔ملک کے نامور لوگ اُس کے پرنسپل اور اساتذہ میں شامل رہے ہیں ۔ انگریزوں کے وقت سے ہی حکومتِ بہار کا وہ ایک نمائندہ ادارہ تھا۔ اُس کے فارغین ملک کے گوشے گوشے میں صرف اسلامی تعلیم ہی نہیں بلکہ عصری تعلیم کو بھی عام کرنے میں منہمک رہے ہیں۔ تدریس سے باہر سینکڑوں سرکاری عہدوں پر وہاں کے طلبہ متمکن ہیں۔اپنے ادارے کی عظمت کو مستحکم کرنے کے لیے اُس کے فارغین نے اپنے نام کے ساتھ شمسی لکھنے کا بھی ایک سلسلہ قائم کر رکھا ہے۔

آزادی کے بعد مختلف مراحل میں تین ادارے ۔ شمس الہدی سینیر، شمس الہدی جونیر اور ادارۂ تحقیقاتِ عربی وفارسی قائم ہوئے جن سے ایک بڑی تعداد فیض حاصل کرتی تھی۔ مگر حکومتِ بہار کی مکمل بے رخی کے سبب یہ تینوں ادارے گلی محلے کے مدرسوں سے بھی بری حالت میں پہنچ گئے ہیں اور تعلیم و تدریس کی اونچی منزلوں کی کون کہے ، اب یہ ادارے آخری سانسیں لے رہے ہیں۔ طلبہ فی زمانہ کس انداز سے اِ ن اداروں میں تعلیم و تربیت پا رہے ہیں اور کتنے شعبۂ حیات میں وہ کامیاب ہو رہے ہیں ، اِس کی پڑتال تو بعد میں کی جاسکتی ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اِ ن اداروں میں اساتذہ کی پوسٹیں دہائیوں سے خالی پڑی ہیں اور اساتذہ کی کمی کی وجہ سے تعلیمی نظام ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ اِن اداروں کے سر براہ اور سماج کے دیگر ذمہ داروں نے ایوانِ اقتدار میں لگاتار آواز اُ ٹھائی مگر کون سنتا ہے فغانِ درویش؟

اساتذہ اور دیگر اسٹاف کے معاملے میں یہ ادارے کس طرح حکومت کی بے التفاتی جھیل رہے ہیںاس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ مدرسۂ شمس الہدیٰ میں صرف چار اساتذہ اور پرنسپل کام کر رہے ہیں ۔شمس الہدیٰ ا جونیر میں بارہ اساتذہ کی جگہیں تھیں، ایک ایک کرکے سارے اساتذہ ریٹائر ہو گئے اور سرکار نے ایک بھی مدرس کا تقرر نہیں کیا ۔ کچھ دنوں پہلے انتظامی دھوکہ دہی کے تحت مختلف اسکولوں سے چھ اساتذہ کوڈیپیوٹیشن پر رکھا گیا۔ معلوم ہو کہ وہ اساتذہ اسکول کے نصاب کو پڑھانے کے لیے مقرر تھے مگر انھیں مدرسے کا بالکل مختلف نصاب پڑھانے کے لیے مامور کر دیا گیا۔ اِس سلسلے سے ادارۂ تحقیقات ِ عربی و فارسی کی جانب توجہ کیجیے تو وہاں بھی اِسی انداز کا اندھیرا معلوم ہوگا۔ اساتذہ کی نو پوسٹوں میں وہاں ایک استاد ہیںجس کے ذمہ ڈائرکٹر کے فرائض بھی شامل ہیں۔غیر تدریسی ملازمین میں بھی حالات اتنے سنگین ہیں کہ اِن تینوں اداروں میں کلرک اور پیون برائے نام بچے ہیں ۔ ادارۂ تحقیقات سے پہلے برسرِ کار اساتذہ کی ٹریننگ بھی ہوتی تھی اور اِس کے لیے درسیات کے دو ماہر اساتذہ کا تقرر بھی ہوتا تھامگر آ ج اعلیٰ تعلیم کا یہ مرکز صرف ایک ڈائرکٹر اور ایک کلرک تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

 

ادارے، سماج اور قوم کی دیکھ ریکھ میں تعمیر و تشکیل کی منزل سے گزرتے ہیں اور بعد میں حکومت انھیں اپنے ہاتھوں میں لے کر مضبوط بناتی ہے ۔ اس سے آزادی کے بعد تعلیمی ترقیات میں بہت مدد ملی ۔ بہار کی موجودہ تعلیم گاہوں کی تاریخ ملاحظہ کریںتو یہ واضح ہو جائے گا کہ اکثر بڑے ادارے انیسویں اور بیسویں صدی کے آغاز میں قائم ہوئے تھے اور آزادی کے بعد ہماری حکومتوں نے اُن اداروں کو عہدِ جدید کے تقاضوں کے مطابق نہ صرف یہ کہ مستحکم کیا بلکہ اُن کی توسیع کا بھی خیال رکھا ۔ انجینئر نگ اور میڈ یکل کالجوں کی تعداد میں بھی آزادی کے بعد اضافہ ہوا مگر جو علامہ اقبال نے خدا لگتی کہہ دی تھی ، اُسے یاد کرتے ہوئے موجودہ صورتِ حال کا جائزہ لیجیے:برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر۔

کانگریسیوں کی حکومتوں نے آزادی کے بعد اندرونی طور پر جتنی بھی فرقہ وارانہ ذہنیت روارکھی ہو ، کھلے طور پر اقلیت آبادی کی ترقی کے لیے اداروں کے قیام میں سنجیدگی سے دل چسپی لیتی رہیں ۔ آزادی کے بعد تعلیمی اداروں میں ایسی نسل بھی آئی جو ملک کی تشکیلِ نو کے خواب سے شاداں تھی۔ اُس جنون اور جذبے میں بڑے بڑے کام ہوتے چلے گئے ۔ کانگریس کی حکومتوں میں مسلمان یا اقلیت آبادی سے وزرا ہمیشہ با اثر افراد بنائے جاتے تھے۔ اُن کی حکومت پر پکڑ ہوتی تھی اور وہ قوم کے مسائل سے حقیقی واقفیت بھی رکھتے تھے۔ بہار میں بھی ساتویں آٹھویں دہائی تک ہزار گراوٹ کے باوجود اقلیتی اداروں کے کام بہت حد تک موثر طریقے سے چلتے رہے ۔ تعلیم کے باب میں بھی کوئی بڑی کوتاہی دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ اندرا گاندھی کے زمانے میں اقلیتی کمیشن اور پندرہ نکاتی پروگراموں کی وجہ سے بہت سارے مسائل حل ہو جاتے تھے۔ اردو اکادمی یا دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے اردو کے درجات بھی اُسی دور سے مخصوص ہیں ۔

1990 ء کے بعد جب کانگریس کی حکومتوں کا صفایا ہوا تو بہار میں بھی اِس کے واضح اثرات نظر آئے۔ لالو یادو یا رابڑی دیوی کی حکومت کے زمانے میں اقلیتوں سے بھی جو وزرا مرکزی حیثیت کے مالک بنے ، اُن میں سے اکثر کی حالت یہ تھی کہ پہلے سے اقلیتوں کے مسائل اور اُن کے حقو ق کے لیے کام کرنے کاانھیں برائے نام تجربہ تھا۔اِسی کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ لالو پرساد یادو خود اقلیتوں کے قائد کے طور پر اُبھرنے میں زیادہ دل چسپی رکھتے تھے، اس لیے انھوں نے مسلمانوں کے بیچ سے فطری قیادت پیدا ہونے نہیں دی۔ چھوٹے بڑے سرکاری اعلانات جو مسلمانوں سے متعلق تھے، وہ انھیں کے ذریعے انجام تک پہنچتے تھے۔ اِس لیے اُس دوران اقلیتوں کے سلسلے سے تحفظ کے مسائل کو چھوڑ کر ترقیاتی امور پر بہت کم کام ہوئے۔ اِس کی کھلی وجہ یہ رہی کہ لالو یادو کی حکومت میں مسلمانوں سے متعلق جو وزرا یا اسمبلی یا کاؤنسل کے جو ارکان تھے ، وہ موثر دباؤ قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔

اسی صورتِ حال میں نتیش کمار نے بہار کی قیادت اپنے ہاتھ میں لی۔ انھیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت چلانی تھی۔کمزور وزراء کو ہاتھی کے دانت کی طرح سامنے کرکے قوم کو بے وقوف بنانے کی تربیت انھیں لالو اور رابڑی کی حکومت سے مل چکی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس تو پورے ملک میں مسلمانوں کے بیچ کا کوئی چہرہ ہے ہی نہیں۔ جنتا دل یو نائیٹڈمیں کبھی ایک یا دواسمبلی ممبران جیت کر آتے رہے اور اپنی نا کارکردگی سے ان۔ڈی ۔اے حکومت کے ایجنڈا کو ہی آگے بڑھاتے رہے۔ آخریہ سمجھنے کی بات ہے کہ نتیش کمار کے دور میں اقلیت آبادی کے چھوٹے بڑے ادارے بہ تدریج اپنی حیثیت کھوتے چلے گئے ۔ اخباروں میں یہ خبر چھپتی رہی کہ ادارۂ تحقیقات ِ عربی و فارسی میں دس برسوں سے کوئی استاد نہیں ہے۔ ایک آدمی پوری دہائی سے زیادہ عرصے تک اُس اعلی تعلیمی و تحقیقی ادارے کو زندہ رکھنے کا دکھاواکرنے پر مجبور ہے۔ مدرسۂ شمس الہدیٰ (جونیر) کے تعلق سے اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ایک ایک کرکے اُس کے سارے اساتذہ سبکدوش ہو گئے مگر حکومت نے یقینی طور پر جان بوجھ کر تقرری کا عمل دہائیوں سے مفلوج کر رکھا ہے۔ شمس الہدیٰ (سینیر) میں بھی آدھی سے زیادہ تدریسی اسامیاں خالی ہیں مگر وہاں بھی چار اساتذہ اور ایک پرنسپل کے ذمے سب کچھ چھوڑ دیا گیا ہے۔ غیر تدریسی ملازمین کی جگہیں تو اِن تینوں اداروں میں پچیس سے زیادہ خالی ہیں مگر کہیں سے بھی کوئی ایسی خبر نہیں ملتی کہ حکومت ان اسامیوں کو پُر کرنے والی ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ پرانی عمارتوں کی مرمت اور رنگ و روغن کے لیے بھی سات برسوں سے کسی نے جھانکا بھی نہیں ہے اور جونیر سکشن یا ادارۂ تحقیقات کی عمارت اپنی خستگی کا اعلان کر رہی ہے ۔

شمس الہدیٰ مدرسہ کے جونیر اور سینیر سکشن ، ادارۂ تحقیقات ِ عربی و فارسی حکومت کی عدمِ توجہی کی تنہا مثالیں نہیں ہیں ۔ اردو مشاورتی کمیٹی ، بہار اردو اکادمی ، اقلیتی کمیشن ، حج کمیٹی ، سنّی اور شیعہ وقف بورڈ جیسے اداروں میں یا تو حکومت کے نا اہل حاشیہ بر دار لوگ قابض ہو گئے ہیں یا اُن اداروں کو سرکار کے کسی افسر کے حوالے اضافی کام کے طور پر جوڑ دیا گیا ہے۔ نتیش کمار کی صحت اور ذہنی توازن کے بارے میں خبریں آتی رہتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر بھارتہ جنتا پارٹی کی پکڑ روز بہ روز حکومت پر مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں حکومتِ بہار سے اقلیت آبادی کے لیے بہتر کام کی توقع فضول ہے۔ ایک شخص بھی ایسا نہیں جو حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ بتا سکے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے اداروں کے زوال کو روکنا چاہیے ورنہ تاریخ آپ کو مجرم قرار دے گی۔ یومِ بہار منانے کا یہ بھی مقصد ہونا چاہیے کہ نئے بہار کی تعمیر و تشکیل میں اقلیت آبادی کے حقوق کی بحالی اور اُن کی ترقی کے لیے دوسروں سے آگے بڑھ کر کام کرنا ضروری ہے ۔کاش یہ بات حکومتِ بہار کے کارپردازوں کو سمجھ میں آسکے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like