Home تجزیہ حجاج کرام کی خدمت میں -سہیل انجم

حجاج کرام کی خدمت میں -سہیل انجم

by قندیل

یہ ذی قعدہ کا مہینہ چل رہا ہے۔ ایک ہفتے کے بعد ذی الحجہ کا مبارک مہینہ شروع ہو جائے گا۔ پوری دنیا سے حجاج کے قافلے مکہ مکرمہ او رمدینہ منورہ پہنچ رہے ہیں۔ ہندوستان سے بھی حاجیوں کے قافلے جا رہے ہیں۔ 30 مئی کو آخری فلائٹ جائے گی۔ اگرچہ اب زیادہ وقت نہیں رہ گیا ہے پھر بھی ذاتی تجربات کی روشنی میں حجاج سے کچھ باتیں کی جا سکتی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی کی برکت سے اب جتنے لوگ آف لائن اخبار پڑھتے ہیں اس سے زیادہ آن لائن پڑھتے ہیں۔لہٰذا بیرون ملک کے حجاج آن لائن استفادہ کر سکتے ہیں۔ حجاج آٹھ ذی لحجہ کو وادی منیٰ میں پہنچتے ہیں۔ نویں کا پورا دن میدان عرفات میں گزارنا ہوتا ہے۔ جس نے وہاں وقوف نہیں کیا اس کا حج نہیں ہوتا۔ وہاں ظہر اور عصر کی نماز بیک وقت ادا کی جاتی ہے۔ غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ روانگی ہوتی ہے جہاں مغرب اور عشا کی اور پھر فجر کی نماز اد ہوتی ہے۔ فجر کی ادائیگی کے بعد منیٰ کو واپسی ہوتی ہے۔ اسی دن جمرات پر بڑے شیطان کو کنکری مارنی ہوتی ہے۔ چاہیں تو اسی روز طوافِ افاضہ کر لیں اور چاہیں تو اگلے روز کریں۔ قربانی دینے کے بعد حلق کرانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد احرام اتار کر معمول کے کپڑے پہننے کی اجازت ہے۔ عام طور پر بارہویں تاریخ کے عصر کے وقت تک منیٰ میں قیام کرنا ہوتا اور روزانہ شیطان کو کنکری مارنی ہوتی ہے۔ اگر بارہ کے غروب آفتاب سے قبل حدودِمنیٰ سے باہر نہیں گئے تو وہاں ایک روز مزید قیام کرنا پڑتا ہے۔

حج ایک پانچ روزہ جسمانی و روحانی عبادت ہے۔ اس کے مسائل زیادہ ہیں اور پیچیدہ بھی ہیں۔ فرائض اور واجبات کی عدم ادائیگی پر دم لازم آجاتا ہے۔ کسی پر چھوٹا کسی پر بڑا۔ اس لیے ہر عازم حج کے لیے ضروری ہے کہ وہ فضائل حج سے تو واقف ہی ہو مسائل حج سے بھی واقف ہو۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ بغیر ٹریننگ کے فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے جاتے ہیں ان میں سے بعض افراد سے لاعلمی میں ایسی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں جو دم کی متقاضی ہوتی ہیں۔ لیکن وہ نہ تو اپنی غلطیوں سے واقف ہوتے ہیں اور نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ کب، کہاں اور کیسے دم لازم آتا ہے اور دم کیسے دیا جاتا ہے۔ بیشتر ممالک میں عازمین حج کی ٹریننگ کا انتظام ہے۔ انڈونیشیا، ملیشیا، ایران، پاکستان اور بعض دیگر مسلم ملکوں میں بھی سرکاری سطح پر ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ہندوستان میں یہ فرض رضاکارانہ طور پر انجام دیا جاتا ہے۔ ٹریننگ کے دوران فضائل پر بھی گفتگو ہوتی ہے اور مسائل پر بھی۔ اس کے علاوہ سفر حج کی تیاری، دوران حج ضروری اشیا کی فہرست سازی، سامان کیسے اور کتنا لے جایا جائے، کیا کیا احتیاط برتی جائے، مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ میں اپنے شب و روز کیسے گزارے جائیں اور فریضہ حج کی ادائیگی کیسے کی جائے وغیرہ امور سمجھائے جاتے ہیں۔ اگر ٹریننگ کے عمل کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک حصہ بلندی کردار یا تزکیہ نفس سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا ارکان حج کی ادائیگی سے۔ لیکن یہ دونوں حصے غیر منظم انداز میں ہوتے ہیں اس لیے دونوں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ اگر چہ تربیت دہندہ حضرات اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عازمین کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر نرمی و خوش خلقی، محبت و مروت، اخوت و مودت اور ایک دوسرے کے ساتھ ہم رشتگی اور تحمل و برداشت کا جذبہ پیدا کریں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عازمین پر ان نصیحتوں کا اثر بھی ہو رہا ہے، لیکن ہم نے نہ تو مکہ میں حجاج پر ان نصیحتوں کا کوئی اثر دیکھا اور نہ ہی مدینہ میں۔ یہ ہمارا ذاتی تجربہ ہے اور دوسرے ساتھیوں سے بھی بار بار سننے کو ملا کہ ارے بھائی حاجیوں سے ذرا سنبھل سنبھل کر بات کریں۔ کوئی پتہ نہیں کہ کون سا حاجی کس بات پر کب ہتھے سے اکھڑ جائے۔ سارے حاجی بڑے زعم میں ہیں۔ وہ کسی کو بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

ہم ایک ذاتی تجربے سے حجاج کو واقف کرانا چاہتے ہیں۔ ایک بار حج شروع ہونے سے چند روز قبل ہمارے مکتب کے معلم کی جانب سے مکتب کے تمام حاجیوں کے لیے بعد نماز مغرب ایک اطلاعاتی کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔ معلم کی جانب سے ایک عالم دین نے مسائل بتانے شروع کیے۔ لوگ بہت خوش تھے اور معلم کی مہمان نوازی کو بنظر تحسین دیکھ رہے تھے۔ اسی دوران ایک مسئلے پر حجاج سے اختلاف ہو گیا۔ بس ہنگامہ ہو گیا۔ لہٰذا منتظمین نے یہ کہتے ہوئے مجلس برخاست کر دی کہ آپ لوگوں کے لیے کھانا آیا ہوا ہے وہ لے لیجیے۔ باقی گفتگو بعد میں ہوگی۔ حالانکہ حجاج کو بحث میں الجھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ منتظمین کی جانب سے کولڈ ڈرنکس اور بسکٹ وغیرہ بھی تقسیم کیے جا رہے تھے اور حاجیوں کی ایک بڑی تعداد ان اشیا کو ”لوٹنے“ میں مصروف ہو گئی۔ ہم نے منیٰ کے خیموں میں بھی جب حاجیوں کی بے صبری اور جنگجویانہ خو دیکھی تو انتہائی افسوس ہوا۔

حجاج کرام اس بات پر بہت خوش ہوتے ہیں اور خود کو خوش نصیب تصور کرنے لگتے ہیں کہ حج کرنے والا ایسا ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ ماں کے شکم سے ابھی پیدا ہوا ہے۔ لیکن وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ یہ خوش خبری کن حاجیوں کو سنائی گئی ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو حج کے دوران فحاشی اور لڑائی جھگڑے سے دور رہے گا اس کا حج ”حج مبرور“ ہوگا۔ اب ان حجاج صاحبان کو کون سمجھائے کہ تم نے تو حج کے دوران لڑائی جھگڑا کرکے اپنے اعمال پر پانی پھیرنے اور اپنی نیکیوں کو غارت کرنے کی عمداً کوشش کی ہے۔ تمھارا حج ”حج مبرور“ کیسے ہوگا۔ جنگجویانہ مزاج کا مظاہرہ عموماً ہر جگہ ہوتا ہے اور چند ملکوں کو چھوڑ کر بیشتر ممالک کے حاجی صاحبان کرتے ہیں۔ مسجدوں میں بھی وہ تحمل سے کام نہیں لیتے۔ وہاں بیٹھنے کی جگہوں کے لیے ایک دوسرے سے تکرار کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ طواف کے دوران بھی وہ اپنی خصلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسا ہم نے بہت کم دیکھا کہ اگر طواف کے دوران کسی سے کسی کو دھکا لگ گیا ہو تو اس نے خندہ پیشانی سے اسے برداشت کر لیا ہو۔ عام طور پر لوگ جوابِ آں غزل کے لیے آمادہ رہتے ہیں۔ کیا یہی بلندی کردار ہے۔ کیا یہی تزکیہ نفس ہے۔ کیا یہی خوش خلقی اور احترام آدمیت ہے۔ کیا یہی شان حجاج ہے۔ کیا اسی عمل کے بل بوتے پر خود کو ماں کے شکم سے پیدا ہونے والا بچہ سمجھ رہے ہیں۔ کیا یہی اعمال آپ کے حج کو ”حج مبرور“ کی منزل پر لے جائیں گے۔

ہم جس طیارے سے مدینہ جا رہے تھے اس میں دہلی سے بمشکل پچاس ساٹھ حاجی رہے ہوں گے ورنہ اکثریت مغربی یو پی کے حاجیوں پر مشتمل تھی۔ طیارہ کے پرواز بھرنے کے کچھ دیر کے بعد ناشتہ اور پھر کھانا دیا گیا۔ ہمارے برابر والی نشست پر دو ایسے بزرگ حاجی بیٹھے تھے جو شاید پہلی بار بذریعہ جہاز سفر کر رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کسی پسماندہ گاوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کھانا آیا تو کھانے کے بعد انہی میں سے ایک حاجی صاحب نے کھانے کے بعد چائے پی اور پھر پلاسٹک کے اس کپ کو پانی ڈال کر دھویا اور پانی وہیں سیٹ کے نیچے گرا دیا۔ عام طور پر حج کمیٹی کی جانب سے جو لٹریچر دیا جاتا ہے اس میں بہت سی ہدایتیں درج ہوتی ہیں۔ اگر ان پر عمل کیا جائے تو بہت سی دشواریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان ہدایات کو پڑھا ہی نہیں جاتا۔ یا اگر پڑھا جاتا ہے تو اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ ان ہدایات میں ایک ہدایت یہ بھی ہوتی ہے کہ عازمین مغربی طرز کے کموڈ کو استعمال کرنے کا طریقہ سیکھ لیں۔ کیونکہ سعودی عرب میں عام طور پر اسی اسٹائل کے کموڈ استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن اس میں حجاج کی کوئی خطا نہیں۔ اب بتائیے جو حاجی صاحبان دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہوں وہ کیسے اور کہاں جا کر سیکھیں۔ خود دہلی کے وہ حاجی صاحبان جن کے گھروں میں دیسی کموڈ ہو وہ کس کس سے پوچھتے پھریں کہ تمھارے ٹوائلٹ میں انگریزی طرز کا کموڈ ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو ذرا مجھے موقع دو کہ میں اس کو استعمال کرنے کا طریقہ سیکھ لوں۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں کہ کوئی حاجی صاحب مغربی کموڈ پر اکڑوں بیٹھے اور وہ پھٹ گیا۔ ان کو چوٹیں بھی آئیں اور نقصان بھی ہوا۔ حج کی تربیت دینے والوں کو چاہیے کہ وہ اس بارے میں حج کمیٹی کے ذمہ داروں سے بات کریں اور کوئی درمیان کی راہ نکالیں۔ مکہ اور مدینہ میں مخیر حضرات کی جانب سے روزانہ بڑی مقدار میں کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ لیکن جہاں کوئی گاڑی کھانا لے کر آئی حاجی ٹوٹ پڑتے ہیں۔ گاڑی والے لائن لگانے کی درخواست کرتے رہ جاتے ہیں۔ بہت سے حاجی گاڑی کے اندر سے ہی کھانا نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض اوقات بانٹنے والے پریشان ہو کر گاڑی ہی واپس لے کر چلے گئے۔ کھانا تو کھانا ایک ایک بوتل پانی کے لیے بھی حاجی لوگ ماراماری کرتے ہیں۔

عازمین کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ وہ اس فریضے کی ادائیگی کے لیے جا رہے ہیں جو صاحب استطاعت پر زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے۔ اس لیے آپ لوگ مسائل تو سیکھیں ہی آداب سفر، آداب قیام و سکون، آداب خورد و نوش، آداب گفتگو، آداب معاملات اور آداب بود و باش بھی سیکھ لیں تو زیادہ بہتر ہے۔ حج ایک ایسی عبادت ہے جو ایثار ہی ایثار چاہتی ہے جو قربانی چاہتی ہے۔ اگر آپ حج کرنے جا رہے ہیں تو آپ کے اندر خاکساری و انکساری کا بھرپور جذبہ پیدا ہونا چاہیے۔ ایک دوسرے کی مدد اور خیر خواہی کی ذہنیت پنپنی چاہیے نہ کہ ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑے کی۔ حجاج کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی لائیں۔ جانے سے پہلے بھی اور آنے کے بعد بھی۔ اگر کردار میں مثبت اور انقلابی تبدیلی نہیں آئی تو اس کا مطلب ہوا کہ آپ نے حج سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like