Home خاص کالم عربی زبان ایسے سیکھیے جیسے مادری زبان ـ محمد طلحہ بلال احمد منیار

عربی زبان ایسے سیکھیے جیسے مادری زبان ـ محمد طلحہ بلال احمد منیار

by قندیل

مادری زبان کیوں ہم آسانی سے سیکھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ، جبکہ مدارس کی چہار دیواری میں کئی سالوں کی جد وجہد ومحنت کے باوجود عربی زبان پر معتد بہ قدرت حاصل نہیں ہوتی ؟ اس کے لیے ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ہم مادری زبان سیکھنے کے لیے کیسا ماحول بناتے ہیں ،اُس ماحول میں وہ کونسی چیزیں ہیں جو زبان سیکھنے میں معین و مددگار بنتی ہیں ، جن سے مدرسہ یکسر خالی ہوتا ہے یا کافی حد تک ہمارے مدرسوں میں ان معاون چیزوں کی کمی پائی جاتی ہے ۔

میں نے اس سلسلے میں غور وخوض کرنے کے بعد چند پوائنٹس/نکات نوٹ کیے ہیں ، امید ہے کہ ان کا پیش کرنا فائدے سے خالی نہیں ہوگا :

(1) بولنے(تکلم) کی طبعی عمر سے پہلے بچہ ایک طویل مدت تک صرف سننے ( سماعت) کے ماحول میں جیتا ہے ۔

آج کل انگریزی زبان سکھانے والے اس پر پورا زور دیتے ہیں کہ : پہلے آپ ایک مدت تک روزانہ چند گھنٹے صرف انگریزی سنیں ، چاہے آپ کو مطلب سمجھ میں نہ آئے ، سننے کے لیے کسی مواد کا کوئی متعینہ انتخاب بھی ضروری نہیں ہے ۔

سنتے سنتے الفاظ سے جب انسیت بڑھے گی تو رفتہ رفتہ خود بخود سیاق وسباق سے عام مفہوم سمجھنے کی صلاحیت بڑھتی رہے گی۔

مدارس میں عربی سنانے کا ماحول کہاں ہے ؟ وہاں تو بلا وجہ بھی ہر چیز کا اردو ترجمہ سنانے کا ماحول بنا ہوا ہے ۔

خارج درس بھی عربی کون بولتا ہے ؟ رہ گئی "النادی العربی” میں رٹی رٹائی تقریروں کا سلسلہ ، تو ان کا فائدہ بھی محدود بلکہ محدود تر ہوتا ہے ۔

(2) مادری زبان کا ماحول صرف چند گھنٹے یا چند پیریڈ کے لئے نہیں ہوتا بلکہ چوبیس گھنٹے کے لیے بنا ہوا ہوتا ہے ۔

یعنی (وجود بیئۃ التکلم باستمرار) کی وجہ سے سیکھنے کا لمبا وقت ملتا ہے۔

(3) ایک ہی بات بکثرت اور مختلف پیرایوں میں روزانہ کان میں پڑتی ہے ، ایسا نہیں ہوتا کہ آج کا سبق جملہ خبریہ ، کل کا جملہ فعلیہ ، پرسوں مرفوعات ، منصوبات … کثرتِ تکرار سیکھنے کے کام کو آسان بنادیتی ہے ۔

(4) مفرد الفاظ کے بجائے ہر بات پورے پورے جملوں میں بولی جاتی ہے ، اور جملوں کے بار بار سننے سے مشکل الفاظ خود بخود سمجھ میں آنے لگتے ہیں ۔ اگرچہ بچہ سوالات بھی کثرت سے کرتا ہے ، لیکن ہر مشکل لفظ کے بارے میں استفسار نہیں کرتا۔

(5) مواقع استعمال کا تنوع بھی مادری زبان کے سیکھنے میں اہم رول ادا کرتا ہے ، صبح سے لیکر رات تک ہر قسم کا ماحول ملتا ہے : سونا جاگنا ، اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا ، آنا جانا ، کھیلنا کودنا ، نہانا دھونا ، چیخنا چلانا ، رونا دھونا ، مارنا پیٹنا ، مانگنا دینا ، ملنا جلنا ۔ ہر طرح کی پوزیشن کے ضروری ضروری الفاظ کے استعمال کا ماحول وموقع ملتا رہتا ہے۔

لفظ جب اس کے طبعی ایکشن میں استعمال ہوتا ہے تو وہ سیکھنے میں زید وعمرو کی مثالوں سے زیادہ بہتر معاون بنتا ہے۔

(6) اسی سے جڑا ہوا ایک اور اہم پوئنٹ یہ بھی ہے کہ جملوں کا استعمال ان کے طبعی ایکشنوں کے ذریعے ہوتا ہے ، خوشی غمی ، دکھ درد ، بھوک پیاس ، ڈر گھبراہٹ ، خوشنودی ناراضگی ، سردی گرمی ، یہ سب حقیقی شکلوں میں ہوتا ہے ۔ مزید یہ بھی ہے کہ بہت سی مرتبہ خود بچہ ان سب ایکشنوں کا ہیرو ہوتا ہے۔

(7) بات چیت زیادہ تر محادثہ وتخاطب کی شکل میں ہوتی ہے ، ماں باپ ، بھائی بہن ، دیگر اہل خانہ ، اقرباء ورشتے دار ، میزبان مہمان ، نوکر چاکر وغیرہ سب ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہوئے مادری زبان بولتے ہیں۔

گاؤ تکیے پر ٹیک لگاکر کسی چیز کا رٹا نہیں لگایا جاتا اور نہ فرضی قصے سنائے جاتے ہیں۔

(8) فرضی مثالوں سے نہیں بلکہ سیکھنے کا پورا ماحول محسوسات کی شکل میں موجود ہوتا ہے ، ہر چیز کے بارے میں جو بھی بات ہوتی ہے تو وہ دائرہ حس میں ہوتی ہے ، دیکھی جاتی ہے ، پکڑی جاتی ہے ، چکھی جاتی ہے ، سنی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ مادری زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔

کھانے کی بات دسترخوان پر کھانا تناول کرتے ہوئے ، لینے دینے کی بات بازار میں خرید وفروخت کرتے ہوئے ، ملنے جلنے کی بات مہمان خانے میں میزبان ومہمان کے درمیان ، کھیلنے کودنے کی بات اس کے میدان میں۔الغرض یہ کہ ہر چیز متحرک وجاندار ، اور طبعی جذبات سے بھر پور محسوس کی جاتی ہے۔صرف بے جان الفاظ وجملے نہیں بولے جاتے۔

(9) جملے فطری طور پر بلا تصنع وتکلف برجستہ بولے جاتے ہیں ، اور وہ جملے اس ایکشن وماحول کے مناسب روز مرہ کے مستعمل الفاظ میں سے ہوتے ہیں ، قوامیس سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر ، اور گرامر کے اصولوں کو سوچ سوچ کر باقاعدہ بنائے نہیں جاتے ۔

بچہ بھی کوئی باقاعدہ گرامر نہیں سیکھتا ہے ، بلکہ فطری ماحول میں رہنے کی وجہ سے اس میں اتنا شعور پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ مفرد جمع ، مذکر مؤنث ، متکلم حاضر ، فاعل مفعول ، جملہ خبریہ فعلیہ سب کی تمیز کرنے لگتا ہے۔

(10) بولنے میں کسی قسم کی غلطی کے وقوع یا اس پر گرفت کا خوف یا بوجھ ذہن پر سوار نہیں ہوتا ہے ، بلکہ بچے کو غلط بولنے پر بھی شاباشی سے اور حوصلہ افزائی سے نوزا جاتا ہے ، جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ کھل کر پوری حریت سے بولتا ہے ۔

(11) مادری زبان بولنے والوں سے انسیت ہوتی ہے ، ماں باپ ، بھائی بہن ، دادا دادی ، نانا نانی ، چچا چچانی ، ماموں خالوں ، ہم عمر بچے ، وغیرہ سب سے انسیت ہوتی ہے ۔ اور ماحول بھی فری ہوتا ہے ، تعلیم وتعلم یا استاذ وشاگرد کے رشتے کا کوئی تصور نہیں ہوتا ہے۔

(12) ایک آخری پوائنٹ یہ ہے کہ سیکھنے کی زبان کا دوسری زبان میں ترجمہ نہیں کیا جاتا ، بلکہ مسلسل ایک ہی زبان بولی جاتی ہے ، اور بولتے بولتے سنتے سنتے خود بخود وہ زبان آ جاتی ہے۔

یہ چند امور وہ ہیں جن سے ہر بچہ بہت جلدی اپنی مادری زبان فرفر بولنے پر قدرت حاصل کرلیتا ہے ، جب کہ مدارس میں ان سب امور کا پایا جانا یا مہیا کرنا دشوار ہوتا ہے ، اس لئے زبان سیکھنے کا کام اثر نہیں دکھلاتا۔

مدارس میں اگر مذکورہ بالا امور میں سے صرف چند امور کے عملی اجراء کا بسہولت ماحول بنایا جائے ، تو امید ہے کہ عربی زبان کے سیکھنے کا کام بہت مفید مؤثر اور آسان ہو جائے۔

عاجز نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں مافی الضمیر بیان کرنے کی کوشش کی ہے ، اگر کوئی مذکورہ پوائنٹس پر قلمِ اصلاح پھیر کر ، عمدہ پیرایۂ بیان میں ڈھال دے ، تو یہ مضمون زیادہ قابلِ استفادہ بن سکتا ہے ۔

You may also like

Leave a Comment