Home تجزیہ ہو گئی ہے زبان بھی اولا-صفدرا مام قادری 

ہو گئی ہے زبان بھی اولا-صفدرا مام قادری 

by قندیل
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس ،آرٹس اینڈ سائنس ،پٹنہ
ہندستان کو کثیر تہذیبی اور لسانی ملک تو کہتے ہی ہیں مگر موسم کی رنگا رنگیوں اور جغرافیائی بو قلمونیوں سے یہ ملک کچھ اِ س طرح سے مالا مال ہے کہ دنیا میں ایسے ممالک مٹھّی بھر ہوں گے جہاں یہ تمام نیرنگیاں موجود ہوں۔ مگر کہتے ہیں کہ قدرت کی رحمتوں کے ساتھ ہمارے لیے زحمتوں کے سامان کب میسّر آ جائیں، یہ کہا نہیں جا سکتا۔ یورپ اور امریکا کے بڑے حصّے میں آپ گرمی کا تصوّر نہیں کر سکتے مگر ہندستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ایک وقت میں ایک خطّے میں گرمی اور دوسرے خطّے میں سردی کے مظاہر دستیاب ہیں۔ مئی۔ جون میں شمالی ہندستان کے ایک بڑے حصّے میں جب سورج آگ اگلتا ہے، اُس دَور میں جینے پر آفتیں کھڑی ہوجاتی ہیں مگر اُسی دَور میںجنوبی ہندستان یا پہاڑوں پر خوش گوار احساس کی گنجایشیں قائم رہتی ہیں۔ موسمیات کے ماہرین ہندستان کے موسم بالخصوص شمالی ہندستان کے بارے میں یہ نتیجہ پیش کرتے ہیں کہ یہ پورا علاقہ موسمیاتی شدّت اور حد سے بڑھ کر رہنے کے لیے پہچانا جاتا ہے۔گرمی کا موسم جب آئے گا تو اِس علاقے میں بہت ساری جگہوں پر ۴۴۔۴۳؍ ڈگری درجۂ حرارت سے بڑھا ملے گا اور گرمی کی تیزی قیامت کا منظر پیش کرتی ہوئی نظر آئے گی۔ دوپہر میں دھوپ جیسے سورج آگ اگل رہا ہو۔ اخباروں میں خبریں شائع ہونے لگیں گی کہ لُو کی چپیٹ میں ہر علاقے میں ناحق موتیں ہو رہی ہیں۔
گرمی سے نجات کا ہرجانا شمالی ہندستان میں برسات کی شکل میں ادا کرنا ہوتا ہے۔ اسام اور نورتھ اِیسٹ سے یہ سلسلہ شروع ہو کر بنگال، اڑیسہ، بہار، اتر پردیش سے بڑھتے بڑھتے اب تو کشمیر تک پہنچ گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ راجستھان اور گجرات بھی سیلاب کی زد میں آتے جا رہے ہیں۔ مہاراشٹر کے لیے تو ہمیشہ ریڈ الرٹ رہتا ہے کہ جولائی، اگست اور ستمبر میں کبھی بھی زندگی مفلوج ہو سکتی ہے۔ اِ س دوران ہزاروں افراد موت کے منہ میں سما جا تے ہیں، لاکھوں بے گھر ہوتے ہیں اور اربوں روپے کا وارا نیارا قدرت کے ہاتھوں ہو جاتا ہے اور ہم پہلے سے زیادہ مفلوک الحال ہونے کے لیے مجبور ہیں۔ برسات کے ختم ہوتے ہوتے شمالی ہندستان میں سردیوں کی دھمک شروع ہو جاتی ہے اور پھر پہلی خبریں پہاڑوں سے آنی شروع ہوتی ہے۔ اکتوبر کے بعد جب دلّی جیسے شہر میں اچانک خونکی کا احساس ہو تو آپ سمجھ جائیے کہ ہماچل اور اُتراکھنڈ کے پہاڑوں پر برف باری شروع ہو چکی ہے اور دیکھتے دیکھتے چندہفتوں میں پورا شمالی ہندستان اِس کی چپیٹ میں آ جاتا ہے۔ درجۂ حرارت میںکمی ہوتے ہوتے ۱۰؍ ڈگری سے نیچے کا سلسلہ قائم ہوتا ہے اور دیکھتے دیکھتے سفر اور نقطۂ انجماد سے نیچے پہنچ جاتا ہے۔ اکتوبر۔ نومبر کا خوش گوار موسم کڑاکے کی سردی میں سب کچھ ختم کر دیتا ہے۔ جینے پر مشکلیں کھڑی ہو جاتی ہیں۔
ابھی پورے شمالی ہندستان میں کم ترین درجۂ حرارت ۱۰؍ ڈگری اور اُس سے نیچے ہے۔ دھوپ جب نکلتی ہے تو اٹھارہویں صدی کے معتبر شاعر مرزا محمد رفیع سودا کا مصرعہ یاد آتا ہے: ’’صبح نکلے ہے کانپتا خورشید‘‘ دنیا میں جس شَے کے دم سے تپش اور حرارت پیدا ہوتی ہو، جب اُس کی حالت ایسی ہو جائے تو زندگی بے شک اجیرن ہو جائے گی۔ جب دھوپ نہیں نکلے گی تو کوہاسا اور کہرے کی چادر کی لپیٹ میں پورا معاشرہ سمٹ جائے گا۔ لُو چلنے کے دَور سے زیادہ سڑکیں سنسان ہونے لگتی ہیں۔ سامنے کی چیزیں دھند میں دکھائی نہیں دیںگی تو سڑکوں پر چل رہیں سواریوں کا کیا حال ہوگا۔ اُن کی رفتار اچانک گھٹ جاتی ہے اور سڑک حادثات میں بے طرح اضافہ ہونے لگتا ہے۔ کبھی سامنے کی چیزیں نظر نہ آنے سے دو گاڑیاں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں اور کبھی راستے کی حدیں دھند میں اِس طرح لپٹ جاتی ہیں کہ ہائی وے سے گاڑیاں اپنے سواروں کے ساتھ نشیب میں گر کر جان مال کے نقصان کا سبب بنتی ہیں۔
ہندستان میں اب بھی ریل ہی وہ ذریعہ ہے جس سے سب سے زیادہ تعداد میں افراد ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے ہیں مگر نومبر ختم ہوتے ہی ٹرینوں کے نظام الاوقات میں گڑبڑیاں پیدا ہونے لگتی ہیں اور دو چار گھنٹے سے لے کر تیس اور چالیس گھنٹوں تک ٹرینوں کی دیری کی خبریں ملنے لگتی ہیں۔ ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں ریل وے اسٹیشنوں پر بے حال مسافروں کی بھیڑ جمع ہو جاتی ہے۔ اپنی آنے والی ٹرین کا انتظار اِس بے سرو سامانی میں اُنھیں ایسی بے چارگی سے کرنا ہوتا ہے کہ سفر کی ضرورت لازم نہ ہو تو اِس کھکھیڑ میں کوئی نہ پڑے۔ جو ٹرین میں بیٹھ گئے اُنھیں بھی پتا نہیں کہ وہ اپنی منزل کب اور کس دن پہنچ پائیں گے۔ اِسی طرح ہوائی اڈّوں کا حال ہو جاتا ہے۔ صبح سویرے کی فلائٹ تو یوں ہی منسوخ ہو جاتی ہے۔ دن میں کون سی فلائٹ جائے گی اور اگر اُسے شمالی ہندستان میں ہی جانا ہے تو جہاز کو جہاں اترنا ہے تو وہاں کا موسم اِس لائق ہے کہ وہاں فلائٹ لینڈ کرے۔ ہر موسم میں پچاس سو ایسی خبریں بھی آتی ہیں کہ موسم کے بگاڑ کی وجہ سے فلائٹ چلی تھی کسی اور جگہ کے لیے مگر اُسے کسی اچھی خاصی دوری والے شہر میں ایمرجنسی لینڈگ کرانی پڑی۔ کبھی کبھی پورے دن کسی ہوائی اڈّے پر فلایٹ کے آنے اور جانے کا سلسلہ قائم نہیں ہو پاتا، ایسے حالات میں ایرپورٹ بس اسٹینڈ سے بڑھ کر مچھلی بازار کی صورت میں نظر آتا ہے جہاں کسی کو یہ معلوم نہیں کہ وہ وہاں سے کب جائے گااور جو اپنے اہلِ خاندان کو لینے کے لیے آئے ہوئے ہیں، اُنھیں بھی یہ پتا نہیں ہوتا کہ وہ لوگ کب اُنھیں ملیں گے۔ ایک افرا تفری اور بے یقینی کا ایسا ماحول ہوگا کہ جس میں خوش حالوں کے چہروں پر بھی ہوئیاں اڑتی نظر آتی ہیں۔
سرد راتوں میں سڑکوں پر گزریے تو محنت مزدوری کرنے والوں سے لے کر بھیک مانگنے والوں تک کہیں فٹ پاتھ پر یا کسی میدان اور عمارت کے کنارے کھُلے آسمان کے نیچے ایک چادر یا بہت معمولی کپڑوں میں زندگی بسر کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر بھی آ جاتی ہے کہ ٹھٹھر کر مرنے والوں کی تعداد ہر شہر میں بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ کبھی کبھی رات کی اچانک بڑھتی ہوئی سردی میں اُن کا خون جم گیا اور وہ ہمیشہ کے لیے یہاں سے رُخصت ہو گئے۔ ٹرینوں اور جہازوں کی دیری کے بارے میں بھی معقول اطّلاعات عوام کو بَر وقت نہیں دی جاتی ہیں اور خاص طور سے بے چارگی کے عالَم میں انتظار کرنے والے لوگوں کے تئیںانتظامیہ کا ہم دردانہ اور معقول رویّہ نہیں ہوتا ہے۔ اُنھیں بَر وقت اطّلاعات مل جائیں تو اُن کی پریشانیاں کم ہو سکتی تھیں مگر محکمۂ ریل یا ایر پورٹ اتھورٹی کو اِس سے کیا؟ مصیبت عوام کو جھیلنی ہے۔
سچ یہ ہے کہ پورا معاشرہ قدرتی آفات کی چپیٹ میں رہتا ہے اور انسان کا اُس پر بس نہیں چلتا۔ قدرت سے ہم جیت نہیں سکتے مگر اُس کے اشاروں کو سمجھ کر اپنے نقصانات کو تو کم کر ہی سکتے ہیں۔ حکومت کے پاس محکمۂ تحفّظِ آفات موجود ہے اور صوبوں سے لے کر مرکز تک اُس کا وجود اُس طرح نظر نہیں آتا جیسے آنا چاہیے۔ جب مصیبت بڑھ جائے، اُس وقت تو یہ محکمہ نظر آنے لگتا ہے لیکن ابتدائی مواقع سے اِس کی سرگرمیاں سُست اور کاہل محکمے کی ہوتی ہیں۔ اصل مسئلہ انسانی ہم دردی اور حسّاس ہونے سے تعلق رکھتا ہے۔ انتظامیہ پر ہر جگہ ایسے الزامات عائد ہوتے رہتے ہیں کہ اُس کے ڈھانچے میں ہم دردی اور محبت کے جذبات کم ہیں اور دکھاوا یا لال فیتہ شاہی زیادہ ہے۔ کورونا کے دَور میں تو اِس پر ہر طبقے میں واویلا مچا اور حکومت یا انتظامیہ کی بے حسی اجاگر ہوئی۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ حکومت کی طرف سے ہر شہر میں دو ہفتے سے لے کر چار ہفتوں تک جگہ جگہ الاؤ جلائے جائیں، سڑکوں پر مجبور زندگی جینے والوں کے لیے گرم کپڑے اور کمبل تقسیم کیے جائیں۔ اِسی طرح ہر موسم میں پہلے سے ہی اِس کی تیّاری کر لی جائے۔ جب سیلاب آ جائے یا کہرے میں پوری قومیت لپٹ جائے، اُسی وقت انتظامیہ بے دار ہو، یہ اچھا نہیں ہے بل کہ وقت رہتے پہلے سے تیّاری ہوگی تو جان اور مال کے نقصانات میں کمی آئے گی اور ہمارا انسانی نقطۂ نظر بھی دنیا کے سامنے آئے گا۔ ترقی یافتہ ممالک میں قومی مصائب کے وقت حکومت سے لے کر عوامی سطح تک جو بے داری اور عوامی شراکت نظر آتی ہے، ہندستانی سماج کو اِسے اپنے لیے رہ نما اصول بنانا چاہیے اور ترغیب حاصل کرنی چاہیے۔ انتطامیہ اور حکومت کی وہ حکمتِ عملی ختم ہونی چاہیے کہ جب مصیبت دروازے تک آ جائے، اُس کے بعد ہی اُس کے تدارک کی سَمت میں دو چار قدم بڑھائے جائیں گے۔ یہ طریقۂ کار ہی خطر ناک ہے اور اِس سے ہماری قومی بے حسی اور عوامی بے چارگی سے بے رُخی کا اظہار ہوتا ہے۔ ہندستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے سیکھنا چاہیے اور قدرتی آفات سے مقابلہ کرنے کے لیے نقطۂ نظر میں تبدیلی لانی چاہیے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like