شعبۂ تاریخ، علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی
اٹلی کے کارلو گنز برگ (پ 1938) ابھی باحیات تاریخ دانوں میں دنیا کے واحد تاریخ نویس ہیں جن کی تحقیقات سب سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ کی گئی ہیں اور جنہیں سب سے زیادہ quote کیا گیا ہے۔ پچھلے برسوں میں ان کے متعدد انٹرویوز شائع ہوئے ہیں۔ ان کی چند تصنیفات کے مطالعہ اور ان کے انٹرویوز سے استفادہ کرتے ہوئے اردو قارئین کو ان سے متعارف کرانے کی کوشش اس مضمون میں کی جا رہی ہے۔
تاریخ نویسی کے پیشہ اور تاریخ نویسی کے طریقہ کاراورمعیار کا تعین کارلو گنزبرگ مسلسل کرتے چلے جارہے ہیں۔ انہیں تاریخ نگاری کی نئی شاخ مائکرو ہسٹری کے موجدوں میں شمار کیا جاتا ہے اور ابھی اس مخصوص شاخ میں سب سے معتبر نام انہیں کا مانا جاتا ہے ( گرچہ وہ خود کو اس کا موجد نہیں مانتے ہیں)۔ اس کے یعنی مائکرو ہسٹری کے تحت عوام اور طبقات کو تجزیہ کے مرکز میں رکھنے کے بجائے کسی مظلوم فرد کو تجزیہ کے مرکز میں رکھ کر تاریخ لکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حقیقت تک پہنچنے کے لیے شواہد کی تلاش اور تجزیہ کے نئے پیمانے وہ مسلسل قائم کرتے رہے ہیں۔
تاریخ دانوں اور سماجی علوم کے ماہرین میں گنزبرگ کا حوالہ دینا اب ایک معمول سا ہو چلا ہے، بالخصوص تین موضوعات پر:
مذہبی اینتھروپولوجی، جادو ٹونا، بدعت، وغیرہ۔ ان موضوعات پر ان کی کئی تصنیفات ہیں۔ ان کا پہلا اہم تحقیقی مضمون سنہ 1961ء میں شائع ہوا تھا، جو جادو ٹونا، اوہام پرستی اور تقوی کی سیاست پر تھا؛ اور سنہ 1966ء میں و چ کرافٹ پر ان کی کتاب دی نائٹ بیٹیلس، شائع ہوئی تھی۔ سنہ 1976ء میں ان کی کتابدی چیز اینڈ دی ورمس شائع ہوئی جس کا ترجمہ بیس سے زائد زبانوں میں ہو چکا ہے۔ ان کی تمام تصنیفات میں یہ کتاب سب سے زیادہ مقبول ہے۔ پھر سنہ 1989ء میں اسی موضوع پر ان کی کتاب Ecstasies شائع ہوئی۔ اس کتاب میں حاشیہ پر دھکیل دئے گئے کمزور لوگوں پر کئے جانے والے مظالم کی تاریخ لکھی گئی ہے، مثلا، عورتیں، کوڑھ کے مریض، یہودی، مسلمان، سائیبیریا کے شمن وغیرہ۔
اس سے فورا قبل کلکتہ میں کارلو گنزبرگ کی ملاقات کئی یوروپین تاریخ دانوں سے ہوئی تھی۔ انہیں یہ احساس ہوا کہ ان پر زیادہ اثر اٹلی کے مارکسی دانشور گرامشی کا ہے اور جرمنی کے کارل مارکس کا اثر نسبتا کم ہے۔
فوٹو (امیج) اور ویڈیو کو تاریخ کے اہم مآخذ کے طور پر ٹریٹ اور استعمال کرنے کے طریقہ کار پر بھی ان کی ایک کتاب ہے، بہ عنوان خوف، احترام، دہشت (Fear, Reverence, Terror)۔ اور سنہ 1981ء میں پینٹنگ، فلم، آرٹ، کلوز آپ فوٹو اور ویڈیو کی سیاست، وغیرہ، کو بحث کے مرکز میں رکھتے ہوئے ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان ہے The Enigma of Piero۔
اس کے علاوہ تاریخ کے سیاسی اور عوامی استعمال کی سیاست پر بھی ان کی توجہ ہے۔ اس مخصوص موضوع پر ان کی توجہ تب مبذول ہوئی جب امریکی تاریخ داں ہیڈن وہائٹ کے موقف پر ان کے سخت اعتراضات سامنے آئے۔ تب انہیں محسوس ہوا کہ ہالوکاسٹ (holocaust) سے انکار کی گنجائش بنانے کی بھی اکادمک سیاست چل رہی ہے، جس کے تحت ارباب اقتدار اور ان کی مزاحمت کرنے والوں کی جانب سے متبادل حقائق، فیک نیوز، وغیرہ جیسے مسائل کھڑے کر دئے گئے۔
ایک نیوز اور جھوٹ پر مبنی من گڑھت تاریخ نویسی اور پروپیگینڈے کے مسئلے کو کچھ یوں واضح کرتے ہیں:
نیپولین تھا، لیکن کوئی آ کر یہ کہہ دے کہ نیپولین نہیں تھا، تو بھی بحث ہونی چاہیے، لیکن ایسے مسلم الثبوت تاریخی حقیقت کو متنازعہ بنا دینے کے بعد اس کی صداقت ثابت کرنے کی ذمہ داری (burden of proof) کس فریق پر ڈالی جاتی ہے، اس سیاست کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ٹھیک اسی طرح، جیسے نفرتی ٹولہ، اقتدار کی حمایت سے فیک نیوز پھیلا دیتا ہے، اور اسے فیک ثابت کرنے کی ذمہ داری ان پر ڈال دی جاتی ہے جو بر سر اقتدار حکومت کی مزاحمت کر رہے ہیں۔
در اصل کارلو گنزبرگ کی تاریخ نویسی کے مخصوص موضوعات کی ترجیحات کا براہ راست تعلق ان کی ذاتی زندگی سے بھی ہے۔
(1)- کارلو گنزبرگ جب محض پانچ برس کے تھے تب ان کے والد ، لیئون گنزبرگ (1909-1944) کو فاشسٹ حکومت نے فروری 1944ء میں قتل کر دیا تھا۔ ان کے والد روسی ادب میں دلچسپی رکھتے تھے، اور فاشسٹ مخالف اشاعتی ادارہ چلاتے تھے۔ ان کی والدہ، نتالیا گنزبرگ (1916-1991) ایک معروف ناول نگار اور مترجم تھیں اور بچپن میں انہیں نظمیں بہت سنایا کرتی تھیں۔ ان کی والدہ، فیملی ہسٹری جیسے موضوع پر بھی ایک کتاب ، “فیملی لیکسی کون”، لکھ چکی ہیں۔
سنہ 2016 ء کے الیکشن میں میں ٹرمپ کی جیت اور سنہ 2022 ء میں اٹلی میں نو فاشسٹ جماعت کے عروج نے انہیں پھر سے خوف زدہ کر دیا ہے۔ ویسے وہ کسی جماعت یا فرد کو فاشسٹ قرار دینے میں خاصے محتاط رہا کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ کے عہد میں جھوٹ کو جس قدر تیزی سے پھیلا دیا جاتا ہے، ایسے میں تاریخ دانوں کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ پر فیک نیوز سے لڑنے کے لیے تاریخ دانوں کو نئے علم اللسان کی وضع کرنی ہوگی۔
(2)۔ سنہ 1972ء میں اٹلی میں ایک پولس کمشنر کا قتل ہوا۔ اس قتل میں تین لوگوں کو ملزم بنا کر عدالت نے قید کی سزا دے دی۔ ان میں سے ایک ان کے دوست تھے۔ گنزبرگ کا ماننا تھا کہ اٹلی کی حکومت اور عدالت نے بہت بڑی نا انصافی کی ہے، جن ثبوتوں کو ملزم کے خلاف مانا گیا ہے، اس میں متعصبانہ غلطیاں سر زد ہوئیں ہیں ججوں کی جانب سے، اور یہ مسکیریج آف جسٹس ہے۔ اس سے متاثر ہو کر انہوں نے عدالتی فیصلے کی خامیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے سنہ 1991ء میں ایک کتاب لکھ ڈالی، اور تاریخ نویسی اور عدالت کی ججی کے پیشوں کے درمیان ثبوت کو ڈھونڈنے اور اس کا تجزیہ کرنے، اور میڈیکل سائنس میں مرض کی تشخیص کرنے کے عمل اور طریقۂ کار میں، اور تاریخ نویسی کے درمیان جو مماثلتیں اور فرق پائ جا سکتی ہیں، ان کو واضح کیا۔ کتاب کا عنوان ہے، دی جج اینڈ دی ہسٹوریئن۔ اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنے والے مترجم نے ، عدالت میں اس مقدمے کی سماعت کو ، ایک رپورٹر یعنی نامہ نگار کی حیثیت سے، فالو بھی کیا تھا۔ سنہ 1997ء میں اس کتاب کا updated ایڈیشن شائع ہوا، اور فرنچ اور انگریزی میں ترجمہ بھی شائع ہوا۔
اٹلی میں 1969ء سے 1972ء کے درمیان ہوئے ایسے سیاسی قتل کے موضوع پر ہی، داریو فو کا مشہور ڈرامہ، ایک انارکسٹ کی اتفاقیہ موت، بھی لکھا گیا تھا۔
تازہ دہائیوں میں دنیا بھر میں مذہبی شدت میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ کارلو گنزبرگ کی توجہ سیکولرائزیشن کو سمجھنے کی جانب مبذول ہوئ۔ اس ضمن میں انہوں نے میکیاؤلی کی کتاب، دی پرنس، کو پھر سے پڑھنا شروع کیا۔ انہیں لگا کہ ایک لفظ، nevertheless ، اس کتاب میں بار بار آ رہا ہے۔ اور یہ کہ عہد وسطی کی دنیا میں شاطرانہ اور مکارانہ اجتہاد و بدعت (casuistry) کو دیکھتے ہوئے میکیاؤلی نے قائدہ یعنی اصول (norm) اور مستثنی (exception) دونوں پر گہرائ اور باریکی سے غور کیا۔ اور مستثنی ہی کو تاریخ کے لئے قائدہ اور اصول کے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ در اصل سماج اپنے قائدہ ہی کو مستثنی کا نام دے کر اپنے جبروظلم اور اپنی کالی کرتوتوں پر پردہ ڈالتا ہے، اور اس کے لئے مذہب کا استعمال کرتا ہے۔ اس طرح کارلو گنز برگ کے لیے مذہب اور سیاست کے کھیل کو سمجھنا آسان ہوگیا، اور گنزبرگ کی نئ کتاب، Nevertheless ، کے عنوان سے آئ۔ اسی تعلق سے، کارلو گنزبرگ، اس اقتدار و حکومت پر بھی سوال کھڑے کرتے ہیں جو محض شہریوں کے consensus کے نام پر حاصل کر لی جاتی ہے۔ یعنی اکثریت پرستانہ جمہوریت سے وہ خاصے خائف دکھائ دیتے ہیں۔ اور جمہوریت کی اس شکل پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
یوں تو، کارلو گنزبرگ خدا کے وجود سے انکار کرتے ہیں، لیکن ان کا ماننا ہے کہ دنیا کو سمجھنا مشکل ہے، اگر انسانوں کے مذاہب اور ان کے شاطرانہ استعمال کو سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے۔ وچ ٹرائل میں محتسب یا مفتی (inquisitors ) کی جانب سے، مذہب کی شاطرانہ تشریحات (casuistry) کی معرفت جو کرتوتیں کی جا رہی تھیں، اس جارحانہ و قاتلانہ سماجی عمل کے خلاف بلند ترین آواز، کارلو گنزبرگ ہی کی ہے۔
اٹلی کے ایک گاؤں میں سولہویں صدی کے اخیر میں ایک شخص کو پھانسی کی سزا دی گئ تھی۔ اس ملزم کے مقدمہ کے ٹرائل کے دو سو صفحات پر مبنی دستاویز حاصل کر کے کارلو گنزبرگ نے مذہب کے نام پر کئے جانے والے جبر کو بے نقاب کر کے رکھ دیا، اور وہ کتاب، جیسا کہ عرض کیا گیا، بیس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو کر کئ ایڈیشن شائع کی جا چکیں۔
ان کا ماننا ہے کہ، تاریخ لکھتے وقت، مظلوموں کی آوازوں اور دلیلوں کو زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے، اور شواہد اور ثبوت کی تلاش اور تجزیہ میں بھی اسی رخ پر زیادہ توجہ ہونی چاہیے ۔ مثلا، سولہویں صدی کے اٹلی کے ایک گاؤں میں مذہب کے اجارہ داروں نے ایک مل مزدور مینوشیؤ (1532-1599) کو پھانسی کی موت دی، اس میں کارلو گنزبرگ نے (مینوشیؤ نے اپنی دفاع میں جو دلیلیں دیں تھیں اور ثبوت پیش کیے تھے)، ان کی پڑتال ہی زیادہ کی۔ کتاب کا عنوان بھی مینوشیؤ کی دلیل سے ہی لیا گیا ہے۔ اسی لیے تحریری اور زبانی، دونوں قسم کے دستاویزوں اور مآخذات کی صداقت کو پرکھنے پر زور ڈالتے ہیں۔
سنہ 1988ء میں کارلو گنزبرگ امریکہ کی کیلیفور نیا یونی ورسٹی میں استاد بن کر گئے۔ وہاں ان کا انکاؤنٹر ہیڈن وہائٹ نامی تاریخ داں سے ہوا۔ ہیڈن وہائٹ کا ماننا ہے کہ ادبی تخلیق اور تاریخی تحقیقات میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ شواہد و ثبوت کی اہمیت کو خارج کرنے کی اس اکادمک سیاست سے گنزبرگ بہت زیادہ نالاں ہوئے۔ تب انہیں سمجھ آئ کہ ہیڈن وہائٹ نے سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے ہالوکاسٹ کی مخالفت تو کی ہے، لیکن ثبوت کے تئیں ایسی casual اور غیر سنجیدہ اپروچ کی وجہ سے ان کے پاس ہالوکاسٹ جیسے مظالم کی مزاحمت کرنے کی اکادمک جراءت اور وقعت نہیں ہو سکتی۔ فرانس کے اکادمک حلقوں میں ہیڈن وہائٹ کی سخت تنقیدیں ہوئیں ہیں، لیکن پھر بھی کارلو گنزبرگ اس سے مطمئن نہیں ہیں۔
گفتگو میں ، بالخصوص اکادمک موضوع پر باہمی مذاکروں میں، کارلو گنزبرگ کا انداز بیان اکثر سخت، اور متنازعہ ہوا کرتا ہے، لیکن ثبوت اور شواہد کی مرکزیت ان کی تجزیاتی تحریروں میں (اور گفتگو میں بھی) ہوتی ہے۔ ان کے مطالعہ کی رفتار بہت دھیمی ہوتی ہے، اور متن کو دھیمی رفتار سے، باریکی سے، اور بار بار پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ شواہد کی authenticity اور ان پر تجزیہ کرنے کے بعد تاریخ کو دلچسپ کہانی بنا کر لکھنے میں ان کا یقین ہے۔
کارلو گنزبرگ کی نانی (غیر یہودی) نے بچپن میں ان سے یہ کہا کہ اپنا نام کارلو تا نزی بتایا کرو، تاکہ فاشسٹ لوگ تمہاری یہودی پہچان کو نہ جان سکیں۔ ان کی نانی غیر یہودی تھیں۔ گنزبرگ کا ماننا ہے کہ اس زمانے میں مجھے یہودی مخالف مظالم کی وجہ دے میرا یہودی ہونے سے زیادہ اہم تھا میرا یہودی بن جانا۔ یعنی شناخت اور پہچان کی بنیاد پر ظلم ہو، تو، اس پہچان کو assert کرنا سیاسی اعتبار سے ضروری ہو جاتا ہے۔ لہذا اپنی اس پہچان کو، اس بچپن کے زمانے میں چھپانے کا یہ عمل کافی تکلیف دہ تھا۔ لیکن، اسی کے برعکس، اب، امریکہ میں، میری پہچان “اٹلی کا یہودی” کا ہونا ایک مختلف مفہوم دیتا ہے۔ کیا مجھے اس پہچان کی بنا پر، اٹلی کی فاشزم کی وجہ سے احساس جرم ہونا چاہئے؟ یا احساس شرمندگی؟ میں امریکہ میں رہتا تھا، وہیں نوکری بھی کرتا تھا، تو کیا، گوانتانامو کے ظلم کی تاریخ کی بنا پر مجھے شرمندہ ہونا چاہئے؟ نہیں۔ ہم صرف اپنے ملک کے گندے کاموں پر شرمندہ ہوتے ہیں۔ اس لئے کارلو گنزبرگ، پہچان کی سیاست کے مختلف پہلوؤں پر بھی خاصے uncomfortable دکھائ پڑتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پہچان کی سیاست ظلم کی سیاست کی مزاحمت کے بجائے، اس کی معاونت ہی کرتی ہے۔
کارلو گنزبرگ تاریخ اور یادداشت میں فرق کو واضح کرنے کے قائل ہیں، گرچہ دونوں میں گہرا رشتہ ہے۔ حافظہ یا اجتماعی حافظہ سے ہسٹوریکل انکوائری تو شروع کی جا سکتی ہے، لیکن حافظہ کو بھی تاریخ کی کسوٹی پر پرکھنا بہت اہم ہے، یعنی ثبوت اور شواہد کی مرکزی اہمیت پر خاصہ زور ڈالتے ہیں۔
اکادمک دانشور کا پبلک دانشور بن کر جلد بازی میں لکھنے کے عمل سے انہیں سخت نفرت ہے، اور اقتدار پرست اور عہدوں کی لالچ پانے والے دانشوروں کو سماج کے لیے بہت ہی مضر مانتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس طرح کی سطحیت کے نتائج نہایت خطرناک ہوتے ہیں۔ ان کا جملہ کچھ یوں ہے:
Uninformed opinion pieces coming out of superficiality and quick fire analysis are absolutely dangerous.
یہی بات وہ ججوں کے سلسلے میں کہتے ہیں۔ ججوں کو چاہئے کہ ٹرائل ریکارڈس کو باریکی سے مطالعہ کر کے ہی فیصلے سنایا کریں۔ یہ بات آج کے ہندوستان میں زیادہ معنویت اور اہمیت رکھتی ہے۔ آج کل اقتدار کی حمایت میں متعصب ججوں سے زیادہ خطرناک وہ جج ہیں جو دانشورانہ اعتبار سے تساہل اور نا اہلی کے شکار ہیں۔ اس سے بھی زیادہ نا اہل اور عجلت پسند ہیں کچھ قانونی مبصرین اور کالم نگار۔ یہ معاشرے کے لیے موذی اور مضر ہیں۔
کارلو کی رائے میں گوگل ایک احمق عالم (idiot savant ) ہے۔ لہذا گوگل اور ویکیپیڈیا کے استعمال میں بہت محتاط رہنے کی تلقین کرتے ہیںاور کہتے ہیں کہ ان کا استعمال بھی محتاط عالم ہی بہتر ڈھنگ سے کر سکتا ہے۔