بیوروکریٹ سجن سنگھ یادو ، جنہوں نے لندن کے عالمی شہرت یافتہ تعلیمی مرکز ’ لندن اسکول آف ہائجین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن ‘ سے ’ پبلک ہیلتھ ‘ میں ڈاکٹریٹ کی ہے ، کی لاجواب انگریزی کتاب کا اردو میں ’ ہندوستانی ویکسین کی ارتقائی داستان ‘ کے عنوان سے ترجمہ کرنے کے لیے ڈاکٹر خالد اختر علیگ کو ، میں تعارف و تبصرے کی ابتدائی سطروں میں ہی خراجِ تحسین پیش کر رہا ہوں ، کیونکہ ایک بہت ہی مشکل کتاب کو ، اُنہوں نے اِس خوبی سے رواں دواں زبان میں ڈھالا ہے ، کہ اسے پڑھنے والا ، دقیق طبّی اصطلاحات کے بوجھ تلے دبے بغیر ، کتاب سے محظوظ بھی ہوتا ہے ، اپنے علم میں اضافہ بھی کرتا ہے ، اور اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو ترغیب بھی دیتا ہے ، کہ وہ اِس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں ۔ میں یہ کہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ بڑے دنوں بعد انگریزی زبان سے میڈیکل کی کسی کتاب کا اردو زبان میں ایک بہترین ترجمہ ہوا ہے ۔ کیا ہے اس کتاب میں؟ اس سوال کا جواب تو کتاب کے نام ہی سے مل جاتا ہے ، لیکن تفصیلی جواب کے لیے ہم کتاب کے ابواب پر نظر ڈالیں گے ، مگر اس سے پہلے ڈاکٹر خالد اختر علیگ کا ایک مختصر تعارف ۔ میری اُن سے فیس بک کی ملاقات ہے ، جس پر میں اُن کے مضامین پڑھتا رہا ہوں ۔ طبّی ، ادبی اور سیاسی نیز دیگر موضوعات پر ، اُن کے کالم ملک بھر کے اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں ۔ لکھنئو میں ڈاکٹری کرتے ہیں ، اور ڈاکٹری کی ڈگری اے ایم یو کے ’ حکیم اجمل خاں طبیہ کالج ‘ سے حاصل کی ہے ۔ اُنہیں زیر تعارف و تبصرہ کتاب کا ترجمہ کرنے کی ذمہ داری ’ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی ‘ کے ڈائریکٹر شعیب اقبال نے سونپی تھی ، جِسے اُنہوں نے ایمانداری سے پوری کیا ۔ ’ عرضِ مترجم ‘ میں ڈاکٹر خالد اختر علیگ لکھتے ہیں : ’’ بہت خوشی اور ذمہ داری کے گہرے احساس کے ساتھ قارئین کی خدمت میں ڈاکٹر سجن سنگھ یادو کی بیسٹ سیلر انگریزی کتاب India’s Vaccine Growth Story کا اردو ترجمہ پیش کر رہا ہوں ۔ موجودہ عالمی تناظر میں یہ انتہائی اہمیت کی حامل کتاب ہے ، کیونکہ ویکسین متعدی بیماریوں سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک اہم ہتھیار ثابت ہوئی ہے اور اس نے بے شمار جانوں کو بچا کر صحت عامہ میں ایک انقلاب برپا کر دیا ہے ۔‘‘
کتاب کی اہمیت کا مزید اندازہ ڈاکٹر ونود کے پال ( رکن نیشنل انسٹیٹیوٹ فار ٹرانسفارمنگ انڈیا NITI ) کے ’ حرفِ آغاز ‘ سے بھی ہوتا ہے ، وہ لکھتے ہیں : ’’ یہ کتاب اپنے قارئین کو ویکسین کے اتار چڑھاؤ والے دلچسپ سفر پر لے جاتی ہے ۔ اس میں ویکسین کے مواد کے لیے دوسرے ممالک پر انحصار سے لے کر عالمی ویکسین کے سپر پاور کے بطور ابھرنے تک ہندستان کی حیران کن داستان کا بیان ہے ۔ یہ کتاب قارئین کو اس بارے میں بھی آگاہ کرتی ہے کہ کس طرح 2-SARS-CoV کا ظہور ہوا ، اور کووڈ ۔ 19 ویکسین کی بے مثال اور تیز رفتار ترقی کا باعث بنا ۔ مصنف نے مستقبل میں ویکسینولوجی کے سامنے آنے والے چیلنجوں اور ہندستان کی ویکسین صنعت کی نشوونما میں نئے امکانات پر بھی بے لاگ انداز میں گفتگو کی ہے ۔‘‘
مذکورہ اقتباس پڑھ کر قارئین شاید یہ سوچنے لگیں کہ یہ کتاب تکنیکی اور میڈیکل و صنعتی اصطلاحات اور بیانیے سے بوجھل ہوگی ، لیکن ایسا قطعی نہیں ہے ، بیانیہ کسی کہانی جیسا سادہ ہے ، مثال مصنف کے ’ دیباچہ ‘ کی لے لیں ، جس کا عنوان ہے ’ چاندی کی گولی ( سلور بلٹ) ‘ اس کی ابتدائی سطریں لوگوں میں تجسس پیدا کرنے کا کام کرتی ہیں : ’’ میرے اور شاید دنیا بھر کے ایک ارب لوگوں کے نقطۂ نظر سے ، سال 2021 کی تعریف صرف ایک لفظ ’ ویکسین ‘ سے کی جا سکتی ہے ۔ یہ تعریف متفقہ طور پر تمام لغات اور سرچ انجنوں میں موجود ہے ۔‘‘ پھر ’ صدی کی سب سے بڑی آفت ‘ یعنی ’ کووڈ ۔ 19 ‘ کا ذکر ہے ۔ ’ دیباچہ ‘ میں متعدی بیماریوں اور ان پر قابو پانے کے لیے ’ ویکسین کی سائنس ‘ پر بات کی گئی ہے ۔ کتاب کے کُل نو ابواب ہیں ۔ پہلے باب کا عنوان ہے ’ کاؤ پاکس سے کووڈ ۔ 19 تک ‘ ، اس باب میں بہت ہی دلچسپ پیرائے میں مختلف متعدی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے ’ ویکسین ‘ کی تیاری کی ایک مختصر مگر جامع تاریخ بیان کی گئی ہے ۔ اس باب سے پتا چلتا ہے کہ لفظ ’ ویکسین ‘ ایک لاطینی لفظ ’ ویکا ‘ سے نکلا ہے ، جس کا مطلب ’ گائے ‘ ہوتا ہے ۔ دراصل 1796 میں پہلی ’ ویکسین ‘ گائے کے اُن آبلوں کے ذریعے بنائی گئی تھی جنہیں ’ کاؤ پاکس ‘ کہا جاتا تھا ۔ جن افراد کو ’ کاؤ پاکس ‘ ہوجاتا تھا ، اُنہیں عام طور پر چیچک کی بیماری نہیں ہوتی تھی ، یہ وہ دلچسپ نقطہ تھا جسے ذہن میں رکھ کر تحقیق کی گئی اور چیچک کی ’ ویکسین ‘ کا جنم ہوا ۔ اُس وقت ’ ٹیکہ ‘ لگتا تھا ، جس نے دنیا کو چیچک کی خوفناک بیماری سے چھٹکارہ دلانے کا کام کیا ۔ ’ ٹیکہ ‘ لگانے کے عمل میں ہندوستان کے کردار پر بھی مصنف نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔ کتاب کا دوسرا باب ’ ویکسین کی تیاری ‘ کے عنوان سے ہے ، اس باب میں لوئس پاسچر کے ’ ریبیز ‘ کے ’ ٹیکے ‘ کی اور جان ہافکن کی ہیٖضہ اور طاعون کے ’ ویکسین کی تیاریوں کی کہانی بیان کی گئی ہے ۔ جان ہافکن کی طاعون کی ویکسین ہندوستان میں تیار کی گئی پہلی ویکسین تھی ، سال 1896 تھا ۔ اس باب میں جان ہافکن کی المناک کہانی بھی ہے ، کہ کیسے اتنے بڑے محقق کے ساتھ ناانصافی کی گئی اور کچھ لوگوں کی موت کے لیے ’ لاپروائی ‘ کا الزام لگا کر اُسے برطرف کرکے رخصت پر بھیج دیا گیا ! حالانکہ بعد میں ایک تحقیقاتی کمیشن نے ہافکن کو تمام الزاامات سے بری کر دیا تھا ، لیکن اُسے مزید تجربات کرنے سے روک دیا گیا تھا ۔ ہافکن دلبرداشتہ ہوکر ہندوستان چھوڑ کر برطانیہ چلا گیا تھا ۔ ممبئی کے پریل علاقہ میں آج بھی ’ ہافکن انسٹی ٹیوٹ ‘ ہے جہاں ویکسین تیار کی جاتی ہیں ۔ اس باب میں ٹائیفائیڈ اور ٹی بی ویکسین کی تیاری کی بھی مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے ۔ یہ ایک دلچسپ باب ہے ۔ کتاب کے باب نمبر تین ’ ہندوستانی ویکسین کی ارتقائی داستان : دنیا کی ویکسین فارمیسی ‘ میں اس صنعت میں ہندوستانی کمپنیوں اور اداروں کے اتار چڑھاؤ کی داستان بیان کی گئی ہے ۔ کووڈ – 19 کی ویکسین بنانے والی کمپنی ’ سیرم انسٹیٹیوٹ آف انڈیا ‘ کے آغاز کی کہانی حیرت میں ڈالنے والی ہے ، اس انسٹیٹیوٹ کی بنیاد میں ایک گھوڑے کی موت نے اہم کردار ادا کیا ہے ! کیسے ، یہ جاننے کے لیے کتاب کے اس باب کا مطالعہ ضروری ہے ۔ باب نمبر چار میں ’ ویکسین کی معیشت ‘ کا ذکر ہے ۔ سجن سنگھ یادو لکھتے ہیں : ’’ ہندوستان عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے پہلے سے منظور شدہ ویکسین تیار کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے ۔ یہ ملک خود ہی ان ویکسین کا ایک بڑا خریدار بھی ہے ۔‘‘ اس باب میں ایک اقتباس کافی اہم ہے : ’’ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے شائع کردہ اعداد و شمار اور گرافکس کے مطابق ، چار دہائیوں سے زیادہ پُرانے حفاظتی ٹیکوں کے قومی پروگرام کے حامل ہندوستان میں ، صرف 65 فیصد بچے ہی وقت پر ویکسین حاصل کر پاتے ہیں ۔ ملک میں اب بھی تقریباً دس لاکھ بچے ہر سال ویکسین سے بچاؤ والی بیماریوں سے مر جاتے ہیں ، عالمی سطح پر خسرہ کے 44 فیصد ، خناق کے 60 فیصد ، جاپانی انسیفلائٹس کے 44 فیصد ، کزاز کے 40 فیصد اور کالی کھانسی کے 18 فیصد معاملات میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی ہونے والی اموات میں ہندوستان کا 44 فیصد حصہ ہے ۔‘‘ یہ اعداد و شمار تشویش ناک ہیں ، لیکن اہم بات یہ ہے کہ سجن سنگھ یادو نے انہیں کتاب میں شامل کیا ہے ! کتاب میں سابقہ حکومتوں پر تنقید ہے اور مودی حکومت کی ویکسینولوجی کے میدان میں خدمات کو سراہا گیا ہے ، لیکن مصنف نے حقائق کو مسخ نہیں کیا ہے ۔ آگے کے دو ابواب ’ ویکسین کی سرعت سے تیاری ‘ اور ’ دنیا کی سب سے بڑی ویکسین کی مہم ‘ میں کووڈ – 19 سے بچاؤ کے لیے حکومت اور کمپنیوں کے ذریعے کی گئی جلد از جلد ویکسین کی تیاری ، اور ہندوستان بھر کے لوگوں میں انہیں لگانے کی مہم کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہے ۔ باب نمبر سات میں لوگوں کی ویکسین سے ہچکچاہٹ پر بات کی گئی ہے ، اور باب نمبر اٹھٓ میں ہندوستان کی ویکسین سفارت کاری پر روشنی ڈالی گئی ہے ، اُسی کو ’ ویکسین میتری ‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ آخری باب میں ویکسین کے فروغ میں مختلف قیادتوں کے کردار کا جائزہ لیا گیا ہے ، مصنف کا کہنا ہے : ’’ انسانیت کے لیے بہت سی خطرناک متعدی بیماریوں کی شکست ویکسین کی وجہ سے ہی ممکن ہو پائی ہے ۔ مگر ، خطرناک بیماریوں پر فتح حاصل کرنے کے لیے ویکسین کی دریافت کے علاوہ ، اجتماعی ویکسی نیشن ( Mass vaccination ) کو فعال کرنے کے لیے مضبوط قیادت کی ضرورت ہوتی ہے ۔‘‘ آختتامیہ ’ نئے ہتھیار ، نئے چیلنجیز ‘ کے عنوان سے ہے ، جس میں ویکسین کی صنعت کے فروغ کے لیے کچھ مؤثر مشورے دیے گیے ہیں ۔ کتاب کے آٹھ صفحات میں ’ مخففات ‘ دیے گیے ہیں ، فرہنگ ہے اور مصنف اور مترجم کے تعارف ۔ کتاب 331 صفحات پر مشتمل ہے ، قیمت 215 روپیے ہے ۔ یہ شاندار کتاب ’ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، وزارت تعلیم ، حکومت ہند ، نئی دہلی ‘ سے حاصل کی جا سکتی ہے ۔