یہ اچھا ہی ہوا کہ مہاراشٹر کے مستعفی آئی پی ایس افسر عبدالرحمٰن کو نایاب حسن مل گیے اور ان کی انگریزی کی معرکتہ الآراء تصنیف Political Exclusion Of Indian Muslims کا لاجواب اردو ترجمہ منظر عام پر آ گیا ۔ نایاب حسن کی بات تو کریں گے ہی ، لیکن پہلے یہ جان لیں کہ عبدالرحمٰن جب تک خاکی وردی زیب تن کیے رہے ، تب تک ملک کی اقلیتوں اور پچھڑوں پر زیادتی کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ۔ اور اب استعفیٰ کے بعد آواز مزید تیز کردی ہے ۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی ، کانپور سے فارغ عبدالرحمٰن تقریباً بائیس سال تک ، آئی پی ایس افسر کی حیثیت سے ، مختلف عہدوں پر مہاراشٹر کے متعدد شہروں میں برسرِ کار رہے ۔ عبدالرحمٰن اقلیتوں اور مسلمانوں کے مسائل کس سنجیدگی سے دیکھتے ہیں ، اور اُن کا ردعمل کس قدر شدید ہوتا ہے ، اِس کا اندازہ اُن کے استعفیٰ سے لگایا جا سکتا ہے ۔ جب مرکزی حکومت نے 2019 میں شہریت ترمیمی قانون بنایا تب ملک بھر میں احتجاج کی شدید لہر اٹھی تھی ، اس موقع پر عبدالرحمٰن نے احتجاجا اپنا استعفیٰ دے دیا تھا ۔
اردو زبان میں یہ عبدالرحمٰن کی پہلی کتاب ہے جو ترجمہ کی مدد سے ہمارے سامنے آئی ہے ۔ انگریزی زبان میں یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی گئی تھی ۔ اِس کتاب سے قبل سچر کمیٹی کی رپورٹ پر اُن کی ایک ہندی کتاب اور ایک انگریزی کتاب شائع ہوئی تھیں ۔ انگریزی کی کتاب کا عنوان ہے Denial And Deprivation یہ سچر کمیٹی اور رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹوں کا تجزیہ اور جائزہ ہے ، اس میں اعداد و شمار اور مختلف حوالوں کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ مذکورہ دونوں رپورٹوں کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی حالت کیسی ہے ۔
زیرِ تعارف کتاب ’ ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی محرومی : حقائق ، دلائل ، شواہد ، اعداد و شمار اور مستقبل کا لائحۂ عمل ‘ جیسا کہ نام سے اندازہ ہوتا ہے ، مسلمانوں کی سیاسی محرومی کا ایک مکمل جائزہ ہے ۔ آج مسلمان ، باوجود اس کے کہ ملک میں جمہوریت کی بقا و استحکام میں ان کا غیر معمولی کردار ہے ، سیاست اور حکومت میں حصہ داری سے محروم ہیں ۔ عبدالرحمٰن نے اس محرومی کی کئی وجوہ بتائی ہیں ، جن میں سے چند ہیں ’ موجودہ قومی صورتِ حال ، دستورِ ہند ، اقلیتوں سے متعلق دستور ساز اسمبلی کی بحثیں ، تجاویز اور ہندوستان کے اوّلین معماروں کا رویہ ‘۔ انہوں نے محرومی سے باہر نکلنے کا نسخہ بھی بتایا ہے ۔ کتاب کے ’ حرفے چند ‘ میں وہ لکھتے ہیں : ’’ اگر مسلمانوں کو سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی محرومیوں سے باہر نکلنا ہے یا مسلمانوں پر جاری ظلم و ستم کو روکنا یا انصاف کو یقینی بنانا ہے ، تو انہیں سیاسی طور پر مستحکم اور بااختیار بنانے کی ضرورت ہے ۔‘‘ وہ ’ پیش لفظ ‘ میں مزید وضاحت کرتے ہیں : ’’ اپنی پچھلی کتاب Denial And Deprivation کی تالیف کے دوران مجھے ہندوستانی مسلمانوں کی غیر معمولی سماجی و اقتصادی پسماندگی اور تعلیمی پَستی کا علم ہوا ۔ زیادہ تر سماجی و اقتصادی شعبوں میں ان کی کارکردگی خراب ہے اور کئی میں تو ان کی حالت انتہائی پسماندہ طبقات سے بھی بدتر ہے ۔ مسلم سماج ، اس کے رہنماؤں اور منتخب نمائندوں کے مسلسل مطالبات کے باوجود ہندوستانی حکومت نے اب تک مسلمانوں کے تحفظ و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایک بھی قانون نہیں بنایا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ افسوس ناک صورتِ حال اس وقت تک برقرار رہے گی ، جب تک مسلمانوں کو مناسب سیاسی حصہ نہیں مل جاتا ۔ اس کتاب کی تالیف کا مقصد مسلمانوں کی نہایت قلیل سیاسی نمایندگی کو عوامی حلقوں میں لانا ، اس کے ممکنہ اسباب و عوامل پر غور کرنا اور ایک سیاسی طاقت بننے کے لیے اقدامات تجویز کرنا ہے ، تبھی ان کی آواز سُنی جائے گی اور ان کے مطالبات پر توجہ دی جائے گی ؛ کیونکہ سیاسی طور پر بااختیار ہونا ہی تمام تر اختیارات کی کلید ہے ۔‘‘
کتاب کو سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ، پہلا باب ’ تعارف ‘ کے عنوان سے ہے ، اس میں موضوع سے متعلق بحث کا آغاز کیا گیا ہے ۔ مصنف نے اس دلیل سے اپنی بات شروع کی ہے کہ محروم اور پسماندہ طبقات مساوات ، وقار اور حکمرانی میں مساوی حصے داری کے لیے جمہوریت چاہتے ہیں ، مگر اشرافیہ اور اونچی ذات والے جمہوریت کو عوام پر حکومت کرنے کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور محروم طبقات کی سماجی انصاف حاصل کرنے کی جدوجہد میں حائل ہوتے ہیں ۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ سیاست کے کھیل میں سب سے زیادہ ہزیمت خوردہ مسلمان اور ہندو پسماندہ طبقات یعنی او بی سی ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ تقسیم کے بعد ابتداً جمہوری عمل میں مسلمانوں کی شرکت سست رہی ، لیکن پھر اس میں کافی تیزی آئی اور تمام سطحوں پر ، چاہے وہ انتخابات میں شرکت ہو یا جمہوری اداروں کے کام کاج پر اعتماد وغیرہ ، مسلمانوں کی حصے داری کا قومی تناسب سب سے اوپر رہا، مگر مسلمان سیاسی اعتبار سے حاشیے پر ہیں ، ’’ تینوں سطحوں یعنی پارلیمنٹ ، ریاستی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں میں ان کی نمائندگی ناقص ہے ۔‘‘ وہ اعداد و شمار کے حوالے دے کر مسلمانوں کی گھٹتی سیاسی نمائندگی کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’ سیاسی پارٹیاں انتخابات میں مسلمانوں کو امیدوار بنانے میں دلچسپی نہیں لیتیں ، سیاسی ماحول میں فرقہ وارانہ زہر کی آمیزش بھی ایک عامل ہے ، اسی طرح بہت سے مسلم اکثریتی یا بااثر مسلم آبادی والے حلقوں کو شیڈولڈ کاسٹ کے لیے ریزرو کر دیا گیا ہے اور اگر کسی حلقے سے مسلم امیدوار کھڑے بھی ہوں ، تو ہندو ووٹرز کا انھیں تعاون نہیں ملتا ۔ 2006 میں سچر کمیٹی رپورٹ نے دستاویزی طور پر ثابت کیا تھا کہ ہندوستانی حکومت میں مسلمانوں کی ناقص نمائندگی نے سماجی ، معاشی اور تعلیمی محاذوں پر اُنہیں زبردست نقصان پہنچایا ہے ، اتنے بڑے پیمانے پر اُنہیں حاشیے پر رکھنا مسلمانوں کی پسماندگی کی بڑی وجہ ہے ، مزید یہ کہ اُنہیں اپنے حق کے مطابق ریزرویشن بھی نہیں ملتا ۔ اس طرح افسوس ناک حد تک ان کی نا کافی نمائندگی حکومت کے طریقہ کار پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔‘‘
دوسرا باب بعنوان ’ مسلم نمائندگی کا تاریخی پس منظر : سیاسی حقوق سے محرومی کا سر آغاز ‘ ہے ۔ اس باب میں مسلم نمائندگی کے تاریخی تناظر پر بحث کی گئی ہے ۔ وہ بتاتے ہیں : ’’ جب ہمارا آئین بنایا جا رہا تھا ، تب مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کا مسٗٔلہ سماجی ، سیاسی ، طبقاتی ، آئینی وغیرہ کئی سطحوں پر زیرِ بحث آیا تھا ۔ کانگریس نے تمام اقلیتوں سے یہ عہد بھی کیا تھا کہ سیاست اور اقتدار میں ان کی منصفانہ نمائندگی ہوگی ۔ اس حوالے سے تشکیل شدہ ایڈوائزری کمیٹی نے آبادی کے تناسب کے مطابق اقلیتوں کے لیے نشستوں کے ریزرویشن کی سفارش کی تھی اور آئین کے مسودے میں اس کا باقاعدہ ذِکر کیا گیا تھا ، مگر بدقسمتی سے نشستوں کے ریزرویشن کی تجویز مسترد کر دی گئی ، البتہ تمام اقلیتوں کو یہ یقین دلایا گیا کہ دس سال بعد اقلیتی نمائندگی کے نقطۂ نظر سے انتخابی نظام کا جائزہ لیا جائے گا ؛ لیکن افسوس کہ ایسا کبھی نہیں ہوا ۔‘‘ جگہ کی قلت کے سبب باقی کے ابواب پر مختصراً بات ہوگی ۔ تیسرے باب میں لوک سبھا اور چوتھے باب میں ریاستی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی گھٹتی تعداد کا جائزہ لے کر اس کے عوامل و اسباب پر بحث کی گئی ہے ۔ یہ دونوں باب آنکھیں کھولنے والے ہیں ۔ پانچویں باب میں ہندوستانی جمہوریت کی غیر جامع نوعیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ، چھٹے باب میں مسلمانوں کی نمائندگی کو متاثر کرنے والے عوامل کی نشاندہی کی گئی اور بتایا گیا ہے کہ ان سے کیسے نمٹا جائے یا ان کا حل کیا ہے ۔ ساتویں باب میں ’ مسلم ووٹ بینک ‘ کے تراشے گیے افسانے پر اور پسماندہ مسلمانوں کی تحریک پر بات کی گئی ہے ۔ ’ پس نوشت ‘ میں اُس حمکت عملی پر بات کی گئی جو مسلمانوں کو اپنانی چاہیے ۔
یہ ایک شاندار کتاب ہے ، جو مسلمانوں کی سیاسی محرومی کے اسباب ، عوامل اور مستقبل کے لائحۂ عمل پر مثبت انداز میں بات کرتی اور روشنی ڈالتی ہے ۔ یہ کتاب لوگوں کو ضرور پڑھنی چاہیے ۔ نایاب حسن کئی کتابوں کے مصنف اور مترجم ہیں ، یہ انگریزی کی کسی مکمل کتاب کا ان کا پہلا ترجمہ ہے ، اور کیا لاجواب ترجمہ ہے ! یہ ترجمہ آسان نہیں تھا کیونکہ کتاب کچھ تکنیکی ہے ، اعداد و شمار ، جداول اور ضمیمہ جات کی بھرمار ہے ، لیکن انہوں نے پوری محنت سے ترجمہ کیا بلکہ ترجمے کا حق ادا کردیا ، انہیں بہت بہت مبارک ۔ کتاب ’ مرکزی پبلیکیشنز ، نئی دہلی ‘ نے خوبصورتی سے شائع کی ہے ، اس کے صفحات 366 ہیں اور قیمت 600 روپیے ہے ۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے 9811794822 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔