Home تجزیہ ہندوستان میں زعفرانی سیاست:ایک تفصیلی جائزہ-پروفیسر محمد سجاد

ہندوستان میں زعفرانی سیاست:ایک تفصیلی جائزہ-پروفیسر محمد سجاد

by قندیل

(پروفیسر محمد سجاد،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)

قسط:14

بابری مسجد کے انہدام (1992) اور گجرات فسادات (2002) کے بعد مسلم نوجوانوں کے ایک حصے کے لئے مشکلیں بڑھتی چلی گئیں۔ اس دوران ایک طرف زعفرانی سیاست کا شدید عروج شمالی اور مغربی ہندوستان سے پھیل کر جنوبی ہند کے کئی علاقوں میں ہوا۔ جنوبی کرناٹک کے ساحلی ضلعوں (منگلور اور اطراف) میں خاص طور پر اس کا عروج ہوا۔ اس عمل کی تفصیل اگلی قسط میں دی جائے گی۔ اس دوران 2004 سے 2014 تک مرکز میں کانگریس کی حکومت رہی۔ یہ وہ عہد تھا جب وزیر اعظم کا تعلق سکھ اقلیت سے تھا، اس سے قبل کی این ڈی اے حکومت نے ایک مسلمان، اے پی جے عبدالکلام کو صدر جمہوریہ بنا یا تھا، حکمراں پارٹی کی سربراہ کا تعلق عیسائی اقلیت سے تھا، ان کے سیاسی مشیر کا تعلق مسلم اقلیت سے تھا، کئی علاقائی اتحادی پارٹیوں پر مسلم نواز ہونے کا ہی تاثر تھا وغیرہ۔ اس کے علاوہ مرکز کی یو پی اے حکومت میں وزیر اعظم کی راجندر سچر کمیٹی رپورٹ (2006) کے ذریعے مسلمانوں کے تعلیمی و اقتصادی میدان میں لگاتار پچھڑتے جانے کی بات کو اب سرکاری دستاویز اور ثبوت کی شکل دے دی گئی اور رنگ ناتھ مشرا کمیٹی رہورٹ کے ذریعے اس کے نفاذ کی تیاری کا اعلان بھی ہونے لگا۔
اس کے بعد وہ حکومت لگاتار کچھ ایسی پبلک پالیسی بنانے کے اعلانات کرتی رہی (مثلا مواقع میں مساوات کے لئے بھی ایک کمیشن بحال کیا گیا اور فرقہ وارانہ فسادات روکنے کے سلسلے میں بھی ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا)، جس سے ہندوؤں کی بڑی آبادی کو یہ لگنے لگا کہ یہ ملک صرف مسلم اقلیتوں کا ہو کر رہ گیا ہے۔

ہندوؤں کی اونچی ذات پہلے ہی منڈل کمیشن کے نافذ ہونے سے پریشان ہو چکی تھی۔ ساتھ ساتھ او بی سی اور دلت فہرست کی نچلی ذاتوں کی بڑی آبادی کو کوئی بڑا فائدہ ملتا دکھائی نہیں دے رہا تھا، خاص طور پر سیاسی اقتدار کے میدان میں اور اقتصادی نج کاری اور عالم گیریت کے نتیجے میں جو بھی نوکریاں اونچی ذاتوں کے نوجوانوں کو مل رہی تھیں وہ 2008 کی اقتصادی مندی کے بعد بہت مشکل ہونے لگی تھی۔ جب بی ٹیک اور ایم بی اے والے نوجوان بھی معمولی سرکاری نوکریوں کی طرف مڑنا چاہے، تو انہیں منڈل ریزرویشن کے نتیجے میں اپنی جگہ بنانا مزید مشکل نظر آنے لگا۔
سیاسی اقتدار میں، مسلمانوں کی مدد سے اقتدار میں بیٹھی علاقائی پارٹیوں کو شکست دینا ان اونچی ذاتوں کے لئے لگاتار مشکل ہو چکا تھا اور ہوتا جا رہا تھا۔ اس سے بھی مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنتا جا رہا تھا۔

جب کہ مسلمانوں میں عرب ممالک کی نوکریوں کی وجہ سے اور مسلمانوں میں ہنر مند دست کار نوجوانوں کی بڑی تعداد ہونے کی وجہ سے اقتصادی کھلے پن کا خوب فائدہ ملا۔ ٹیکسی ڈرائیور، مو ٹر میکانک، بجلی مستری، راج مستری، پینٹر، ویلڈر، پنچر اور ٹائر ٹیوب کی تجارت اور دیگر چھوٹی تجارتوں میں مسلمانوں کا حصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ ان کی تعلیمی ترقی بھی ہو رہی تھی، خاص طور سے آئی ٹی آئی، ڈپلو ما انجنیرنگ، صنعتی حفاظتی شا رٹ ٹرم کورس کے ذریعہ اور ان کو عرب ممالک میں نوکریاں ملتی جا رہی تھیں۔ ان سب کا مظاہرہ محلوں میں مسجدوں کی عمارتوں (اونچے گنبد، اونچے مینار) کے معرفت ہو رہا تھا۔ اور علاقے کے بازاروں میں ان کی قوت خرید میں آئے اضافہ کا بھی مظاہرہ ہو رہا تھا، مذہبی تیوہاروں کے ذریعہ بھی ہو رہا تھا۔ ان کی بڑی آبادی کی نمائندگی بلدیاتی اداروں میں بڑھتی جا رہی تھی۔ ان سب کے رد عمل کے طور پر ہندوؤں کی بڑی آبادی میں اب حسد اور اس سے بڑھ کر نفرت کا عنصر آنے لگا تھا۔ اس حسد اور نفرت کا سب سے واضح مظاہرہ پاپولر میڈیا میں ہونے لگا۔ 2000 کی دہائی میں ہی، پارلیمنٹ پر حملے کے ساتھ، مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑا جانے لگا اور اس کو عالمی طور پر تقویت ملی ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے (ستمبر 2001) میں مسلمانوں کے ملزم ہونے کی وجہ سے ۔

ادھر یو پی اے حکومت اقلیتی فلاح کا صرف اعلان کرتی رہی۔ اس کے نفاذ کے عمل میں یا تو سرکاری اداروں میں بیٹھے با اثر لوگوں نے رکاوٹیں پیدا کیں یا کانگریس خود بھی عمل کے بجائے اعلان میں ہی یقین رکھتی رہی۔ اس پہلو پر اعداد و شمار سے لے کر تجزیاتی تفصیلات کے لئے ملاحظہ فرمائیں بی ون کم کی کتاب ، دی اسٹرگل فار ایکولیٹی: انڈیاز مسلمس اینڈ ری تھنکنگ دی یو پی ایز ایکسپیرئنس (2019)۔

نفاذ کی سطح پر اس کوتاہی اور مبینہ طور پر مسلم نواز علاقا ئی حکومتوں، (خاص طور سے بہار، اتر پردیش، اور مغربی بنگال کی حکومتوں کے خلاف بھی سچر اور دیگر صوبائی رپورٹوں نے ایسا ہی انکشاف کیا کہ کمیونسٹ اور آر جے ڈی، سماج وادی، بہوجن سماج پارٹی، کی حکومتوں نے بھی مسلمانوں کو پیچھے ہی رکھنے کا کام کیا ہے)، کے خلاف مسلمانوں میں بھی ایک ایسا ہی تاثر بنتا گیا۔ لہذا اسی دوران آسام میں بدرالدین اجمل کی اے آئی یو ڈی ایف پارٹی، اتر پردیش میں بھی کئی چھوٹی چھوٹی "مسلم "پارٹیاں وجود میں آئیں۔ (ان میں سے کچھ کا ذکر پچھلی کسی قسط میں ہو چکا ہے)- سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (آیس ڈی پی آئی)، پیوپلس ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی، کیرل)، ویلفئیر پارٹی آف انڈیا (ڈبلیو پی آئی)، ویمین پرسنل لا بورڈ، پسماندہ تحریک وغیرہ بھی وجود میں آئیں اور سر گرم ہیں۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، پچھلی دو دہائیوں میں ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان بھی کچھ تعلیم یافتہ مڈل کلاس میں اضافہ ہوا ہے۔ مسلم ویلفئر، یعنی فلاحی تنظیمیں، سیاسی جماعتیں، سماجی تحریکیں، وغیرہ وجود میں آئی ہیں۔ ان میں علما بھی تعلیمی تحریکیں، بیداری لانے والی اشاعتیں، نوجوانوں اور عورتوں کی تنظیمیں، ترقیاتی کاموں کی تنظیمیں وغیرہ بنانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ دیگر مسلمان بھی ان سے مقابلہ کرتے ہوئے اس طرح کے اقدام کرنے لگے ہیں۔ تاکہ بیروکریسی، پولیس، عدلیہ، بلدیاتی اداروں میں مسلم نمائندگی میں اضافہ ہو۔
ان سب کے علاوہ ایک خاص قسم کا سیاسی نظریہ رکھنے والی کچھ تنظیمیں بھی وجود میں آئیں۔ ان سب میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا، یعنی، پی ایف آئی کا ذکر ضروری ہے۔ اس تنظیم نے خاص طور سے عدالتی لڑائیاں لڑنا اپنی ترجیحات میں شامل کر لیا ہے۔ آکسفورڈ یونی ورسٹی کی آرنڈٹ ایمریچ نے 2019 میں ایک تحقیقی مضمون بھی اس تنظیم پر شائع کیا ہے۔ اس قسط میں اس مضمون سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔

یوں تو اس تنظیم کو ملک گیر پیمانے پر زیادہ توجہ 2017 میں ملی جب کیرل کی لڑکی ہادیہ کی شادی (پی ایف آئی کے ایک مسلمان کارکن سے) اور اس لڑکی کے تبدیلیِ مذہب کا معاملہ سامنے آیا۔ جھارکھنڈ کی بی جے پی حکومت نے بھی پی ایف آئی پر پابندی لگا دیی تھی۔
لیکن جنوبی ہند، بالخصوص کیرل میں یہ تنظیم 1990 کی دہائی میں ہی وجود میں آ چکی تھی۔
پی ایف آئی کی بنیاد کی فوری وجہ تو یہ بتائی جاتی ہے کہ 1980 کی دہائی میں جنوبی ہند میں بڑے پیمانے پر چھوٹے بڑے فسادات ہوئے جن میں مجرموں کے خلاف کو ئی قانونی کارروائیاں نہیں کی گئیں۔ ساحلی کرناٹک اور کیرل میں ہندوتو کی تحریک 1990 کی دہائی کے اخیر سے شدت اختیار کرنے لگی۔ فسادات بھی متواتر ہونے لگے، پولیس کا مسلم مخالف تعصب اور عدلیہ کی کو تاہیاں نمایاں ہونے لگیں، کہا جاتا ہے کہ تب جا کر ان کے رد عمل کےطور پر پی ایف آئی وجود میں آئی ۔

کہا جاتا ہے کہ پی ایف آئی کے تین لاکھ سے زائد ممبر ہیں، دس لاکھ سے زیادہ حمایت کرنے والے لوگ ہیں۔ اس کا انتخابی محاذ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) ہے۔ میسور کے جولائی 2009 کے فسادات کے بعد پی ایف آئی کی سر گرمیوں میں زیادہ تیزی آئی ، جب پی ایف آئی نے یہ سوچا کہ مسلم عوام اور نوجوانوں میں قانونی حق و اختیارات کے تئیں بیداری لا کر قانونی لڑائیاں لڑ کر ہی امتیازی برتاؤ، سماجی مظالم وغیرہ کے خلاف انصاف حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
ان کا صدر دفتر اب دہلی میں ہے۔ بائیس صوبوں میں ان کی سر گرمیاں ہیں۔ ان کے رہنما اور کارکنوں کی بڑی تعداد کا تعلق جدید تعلیم یافتہ طبقے سے ہے۔ ان میں سے بیشتر کا روزگار فارمل سیکٹر میں ہے۔ سافٹویئر پروفیشنل، انجینئر، ٹیچر، ڈاکٹر، اور پڑھے لکھے تاجر وغیرہ ان کے کارکن ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا روزگار عرب ممالک میں ہے۔ کچھ سینئر لیڈروں کا تعلق ایس آئی ایم آئی سے بھی تھا۔ پی ایف آئی نے خود کو سول سوسائٹی، انسانی حقوق کی تنظیموں، ترقیاتی کاموں سے منسلک تنظیموں، آل انڈیا امام کونسل، نیشنل کنفیڈیریشن آف ہیومن رائٹس آرگنائیزیشن، کیمپس فرنٹ آف انڈیا، نیشنل ویمینس فرنٹ، ری ہیب انڈیا فاؤنڈیشن، وغیرہ سے اپنا تعلق بنایا ہوا ہے۔

پی ایف آئی نے آیس آئی ایم آئی کی کئی سرگرمیوں کی تنقید بھی کی ہے، (خاص طور سے ان کی آئین مخالف سر گرمیاں اور اسلامی حکومت قائم کرنے کے منصوبے کو مسترد کیا ہے)- پی ایف آئی کی لیڈرشپ اور کارکن کے برعکس اس کے حمایتیوں میں بیشتر کا تعلق انفارمل سیکٹر کی معیشت سے ہے۔

پولیس اور سرکاری خفیہ ایجینسیوں نے اس تنظیم کو شدید شبہ کی نظر سے دیکھنا شروع کیا ہے اور اسے ایک تیزی سے بڑھنے والی تنظیم قرار دیا ہے۔ ان کے کارکنوں پر شدید الزامات بھی عائد کئے گئے ہیں مثلا سیاسی ہنسا، مخالفین کا قتل، بیرونی ممالک سے فنڈ حاصل کر کے دہشت گردی پھیلانا، نوجوانوں کو تشدد کی طرف مائل کرنا، اور ہندو رائٹ ونگ تنظیموں کی طرز پر ساحلی کرناٹک اور اطراف میں کلچرل پولیسنگ کرنا۔ غیر قانونی ہتھیار رکھنا، اغوا کر کے رقم اینٹھنا، خوف و دہشت کا ماحول بنانا وغیرہ جیسے الزامات بھی ان پر عائد کئے گئے، جن کی تردید بھی ان کی جانب سے ہوئی۔ ویکیپیڈیا پر ان کی تفصیلات اور ان کے حوالے دستیاب ہیں، گرچہ اس کی باضابطہ تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔

ان تمام الزامات کے پیش نظر اس تنظیم نے لگا تار یہ کوشش کی ہے کہ اس کو اینٹی نیشنل اور اسلامی طرز حکومت قائم کرنے والی تنظیم (اسلامسٹ) کے طور پر نہ دیکھا جائے، بلکہ اسے آئینی و قانونی حقوق، اختیارات، اور انصاف کی لڑائی لڑنے والی تنظیم کے طور پر ہی دیکھا اور برتا جائے۔ کاؤنٹر ٹیررزم سے متعلق بنائے گئے قوانین کے مسلم نوجوانوں کے خلاف بیجا اور جارحانہ استعمال کو لے کر بیداری اور پروپیگینڈا کا کام ان کی ترجیحات میں خاص طور سے شامل ہے۔ اس کے لئے پی ایف آئی نے سروے رپورٹوں کی اشاعت ایک بڑی تعداد میں کی ہے۔ رشوت خوری، بد عنوانی، پولیس بربریت، افلاس اور امتیازی برتاؤ سے متعلق ملکی و غیر ملکی تحقیقی اداروں و تنظیموں کی رپورٹوں کو عام کرنا، ان کا اہم کام ہے۔ سوشل میڈیا کا بھی استعمال ان کاموں کے لئے بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔

تنظیم کی پلورلسٹ شبیہ بنانے کی خاطر یوگا، آیور وید، ہندی،سنسکرت، قومی جھنڈا کا استعمال و مظاہرہ پر بھی خاصا زور دیا جاتا ہے۔

جولائی 2009 کے میسور فسادات کے بعد پی ایف آئی نے پولیس کے خلاف مظاہرے اور مظلوموں کے انصاف کے لئے عدالتی لڑائیاں اور چند متعصب پولس افسروں پر مقدمے بھی دائر کئے۔ ان میں پیش پیش رہنے والے رہنماؤں کو جیل بھی کیا گیا لیکن عدالت کی معرفت ، پولیس کی اس کارروائی کے خلاف ان کارکنوں کو ہرجانے بھی حاصل ہوئے۔ اس طرح شہریت مضبوط کرنے کی سیاست، عوامی مظاہرے، حق واختیار کی قانونی و جمہوری لڑائی ان کے کاموں کا طریقہ ہے۔ سوشل ڈیموکریسی، حکومت کا فلاحی کردار بحال کرانا، نیو لبرل معیشت اور اکثریت پرست سیاست کی مخالفت ان کا نصب العین ہے۔ قانون، تاریخ، سیاسیات و سماجیات کے مطالعے، قانون و صحافت کے طلبا کو مالی امداد پہنچانا، اور قدرتی آفات ، مثلا کشمیر زلزلہ (2013) میں امداد رسانی، مظفر نگر فسادات (2013) میں سروے کرنا، عدالتی جنگوں کے لئے ثبوت اکٹھا کرنا، فلاحی کام کرنا، وغیرہ پر ان کی خاص توجہ ہے۔ ان تمام طرح کی سر گرمیوں میں مذہب کو نجی حلقے میں محدود رہنے دینے پر بھی ان کا خاصا زور ہے۔ رنگ ناتھ مشرا رپورٹ کے نفاذ کا مطالبہ یہ اشارہ کرتا ہے کہ پسماندہ محاذ کی تحریک سےشاید ان کا اختلاف یا ان کی دوری ہے؟ بہار میں پی ایف آئی کی باضابطہ شاخ ہے یا نہیں، یہ مجھے معلوم نہ ہو سکا۔

جنوری 2004 میں بنگلور میں اور نومبر 2005 میں حیدرآباد میں انہوں نے سرکاری نوکریوں، پرائیویٹ سیکٹرمیں نوکریوں اور قانون سازیہ میں مسلمانوں کے لئے ریزرویشن کی مانگ کی تھی۔
کرناٹک میں 2001 سے ہی ایک تنظیم، کرناٹک فورم آف ڈگنیٹی کام کر رہی تھی۔ تامل ناڈو میں منی تھا نیتھی پاسارائی گوا میں سیٹیزنس فورم، راجستھان میں کمیونٹی سوشل اینڈ ایجوکیشنل سوسائیٹی، مغربی بنگال میں ناگرک ادھیکار سو رکچھا سمیتی، منی پور میں لیلونگ سوشل فورم اور آندھرا پردیش میں ایسو سی ایشن آف سوشل جسٹس، کے ناموں سے ان کی تنظیمیں کام کرتی ہیں۔ 2009 میں یہ ساری صوبائی تنظیمیں، پی ایف آئی میں ضم ہو گئیں۔ان کا نعرہ ہے نیا کارواں ، نیا ہندوستان۔
شدت پسندی کے الزامات سے قطع نظر، کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم مظلوموں کے حقوق و اختیارات کی جمہوری، قانونی لڑائیاں لڑنے والی اور تعلیمی و اقتصادی فلاح کے لئے اقدام کرنے والی یہ تنظیمیں، مسلمانوں کے درمیان شہریت کی تحریک کو مضبوط کر تے ہوئے، ہندوستان کی جمہوریت کو توانائی بخش رہی ہیں؟ کیا ایسی تنظیمیں مسلم نوجوانوں کو شدت پسندی کی جانب مائل ہونے سے نہیں روک رہی ہیں؟ کیا ان تنظیموں سے مسلمانوں میں بھی دائیں بازو کی شدت پسند سیاسی رحجان پیدا ہو رہی ہیں؟ ایسے کئی اہم سوالات ہیں جن پر تحقیق، غو رو فکر، بحث کی ضرورت ہے۔ جلتین عبدالحلیم کی کتاب، انڈین مسلمس اینڈ سیٹیزن شپ (روٹلیج، 2016)، نے ان سوالات سے کسی حد تک بحث کی ہے۔ ان پر مزید تحقیق اور بحث کی ضرورت ہے۔

اگلی قسط (15) میں جنوبی کرناٹک کے ساحلی علاقوں کے زعفرانیت زدہ ہونے کی تفصیلات پیش کی جائیں گی۔

( جاری)

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment