Home تجزیہ ہندوستان میں زعفرانی سیاست:ایک تفصیلی جائزہ-پروفیسر محمد سجاد

ہندوستان میں زعفرانی سیاست:ایک تفصیلی جائزہ-پروفیسر محمد سجاد

by قندیل

پروفیسر محمد سجاد(علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ)

دسویں قسط
یہ قسط وار گفتگو اب اس نہج پر پہنچ رہی ہے جہاں سے ہمیں اب یہ غور (اور بحث بھی) کرنا ہے کہ اکثریت پرستی کی بڑھتی شدت کے پیش نظر اور دیگر اعتبار سے بھی، انتخابی سیاست زیادہ کارآمد اور مؤثر ہے یا تعلیمی و اقتصادی طور پر مضبوطی حاصل کرنے کی حکمت عملی کو فوقیت دی جائے یا دونوں طریقۂ کار کا ایک مدبرانہ امتزاج؟
اس قسط کی یہ گفتگو ہم مسلم مجلس مشاورت کے تجربے سے شروع کرتے ہیں۔ دسمبر 1968 میں ظہیر مسعود قریشی صاحب (استاد شعبہ سیاسیات، دہلی یونی ورسٹی اور کشمیر یونیورسٹی ) نے ایک طویل تحقیقی مضمون شائع کیا تھااس عنوان سے اور اسی مضمون سے یہاں خاطر خواہ استفادہ کیا جاتا ہے۔
اگست 9، 1964 میں مسلم مجلس مشاورت کی تشکیل ہوئی۔ یوں تو اس کی تشکیل ہوئی تھی فروری 1961 کے جبل پور فسادات اور 1964 کے جمشید پور، راورکیلا وغیرہ کے فسادات کے پیش نظر۔ لیکن 1967 میں جو انتخاب ہونا تھا وہ بھی پیش نظر تھا۔ (قابل غور بات یہ ہے کہ ایسی کوئی تنظیم فسادیوں کے خلاف مقدمہ کرنے کے لئے نہیں قائم کی گئی)۔
اس تنظیم یعنی مجلس مشاورت کا بنیادی سروکار مسلمانوں کے سیاسی قوت کے حصول اور اختیارات کے تحفظ سے تھا، لیکن اس کے لئے لائحہ عمل میں یہ پیش نظر تھا کہ مختلف پارٹیوں کے مخصوص امیدواروں کو، ان کی نظریاتی و دیگر بنیادوں (بہ شمول کار کردگی بالخصوص مسلم اقلیتی معاملات میں) پر1967 کے انتخابات میں ان کی حمایت کی جائے۔
اس تنظیم میں تین نظریاتی دھارے شامل تھے۔ پہلا دھارا شمالی ہندوستان کے ان مسلم لیگ لیڈروں کا تھا جو پاکستان نہیں گئے تھے، دوسرا دھارا جماعت اسلامی کا تھا، جنہوں نے پاکستان کی مخالفت بعض شرعی عذر کی وجہ سے کی تھی اور جن کا نصب العین شرعی نظام قائم کرنا تھا۔ تیسرا دھارا نیشنلسٹ مسلمان، کانگریسی اور جمیعت علمائے ہند والوں کا تھا۔ یہ دھارا ہی زیادہ مقبول تھا لیکن اس کے کئی اہم لیڈر اس دار فانی سے رخصت ہو چکے تھے۔ ان مرحومین میں مولانا آزاد، رفیع احمد قدوائی، مولانا حفظ الرحمان سیو ہاروی وغیرہ تھے۔
کل ملا کر ان تین مختلف نظریاتی دھاراؤں کا ایک پلیٹ فارم پر رہ پانا اور نظریاتی ہم آہنگی کا وجود میں لا پانا شروع سے ہی سے مشکوک تھا۔ گرچہ اس تنظیم نے یہ واضح کر دیا کہ مسلمانوں کا اعتماد آئین، آئینی اقدار اور سیاسی جماعتوں میں تھا۔ ملک کی وحدت (نیشنل انٹیگریشن) و سالمیت کے لئے قرارداد پاس کی گئی اور ایک 9 نکاتی عوامی مینی فیسٹو بھی تیار کیاگیا۔ جس میں سیاسی و معاشرتی علیحدگی کی بو بالکل نہیں تھی۔
دسمبر 9، 1966 کو دہلی میں یہ قرارداد پاس کی گئی کہ مشاورت کے کوئی بھی رکن انتخاب میں حصہ نہیں لیں گے اور عام مسلم رائے دہندگان سے اپیل کی گئی کہ ووٹ دینے کے لئے امیدواروں کے سلسلے میں مندرجہ ذیل تین اصولوں کا خاص خیال رکھنے کی کوشش کی جائے:
اوّل، امیدواروں میں مذہبی تعصب، فرقہ پرستی، صوبائی اور لسانی تعصب نہ ہو ـ
دوئم، امن پسند، جمہوریت پسند اور سیکولرزم سے وابستگی رکھتے ہوں ـ
سوئم، وہ سبھی شہریوں کو مساوات اور بھائی چارے کی نظر سے دیکھتے ہوں اور ان میں ذات پات کا تعصب نہ ہو۔
پھر مشاورت نے صوبائی کمیٹیاں بنائیں۔ آندھرا، بہار، مہاراشٹر (ودربھ کے لئے الگ کمیٹی بنائی گئی)، مدھیہ پردیش، میسور، راجستھان، اتر پردیش، اور مغربی بنگال۔
کیرل اور مدراس کا معاملہ مسلم لیگ کے اوپر چھوڑ دیا گیا، جب کہ ہر یانہ کے لئے اے جی دار کو اختیار دے دیا گیا۔ پنجاب اور ہماچل کو چھوڑ دیا گیا کہ وہاں مسلم آبادی قلیل تر تھی۔ گجرات کے مسلمانوں نے مشاورت کی مخالفت کی اور اس لئے وہاں کوئی کمیٹی وجود میں نہیں آ پائی۔ جموں و کشمیر کو بھی چھوڑ دیا گیا اور دہلی میں کانگریس بہ نام جن سنگھ مقابلے میں مسلمانوں کے لئے کوئی تیسری راہ تھی ہی نہیں۔ ایک چار ممبروں کی سنٹرل کمیٹی بنائی گئی لیکن صوبائی کمیٹیوں کا کوئی خاص کو آرڈینیشن سنٹرل کمیٹی سے نہیں تھا۔ صوبائی کمیٹیوں نے ضلع کمیٹیاں بنائی تھیں جن کا کام تھا اس ضلع کے انتخابی حلقوں میں مختلف امیدواروں کی فہرست تیار کرنا کہ ان میں سے کن کو ووٹ دیا جائے۔ پھر ان امیدواروں سے مشاورت کے 9 نکاتی منشور پر مقننہ یعنی قانون سازیہ (اسمبلی اور لوک سبھا) میں کام کرنے کا عہد لیا جاتا تھا۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس، سی پی آئی اور پی ایس پی کے امیدوار تقریباً برابر تعداد میں ترجیح دیے گئے تھے، مشاورت کی فہرست میں مہاراشٹر اور ودربھ میں زیادہ ترجیح ریپبلکن پارٹی اور کسان مزدور پارٹی کے امیدواروں کو دی گئی تھی۔ میسور میں کسی بھی کانگریس امیدوار کو recommend نہیں کیا گیا۔ آندھرا، بہار، راجستھان میں کانگریس امیدوار ہی زیادہ تعداد میں recommend کئے گئے تھے۔
اتر پردیش میں ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی (1913-1974) واضح طور پر کانگریس مخالف تھے۔ جب کہ یہاں جن سنگھ ایک اہم مخالف پارٹی تھی اور اس لئے فریدی کا کام بہت مشکل تھا۔ انہوں نے صوبے کے مختلف اضلاع میں مختلف جماعتوں کی حمایت کی فہرست تیار کی۔
مغربی بنگال میں پروفیسر ہمایوں کبیر نے بائیں بازو کی جماعتوں کے امیدواروں کی حمایت کی بات کی۔
بہ حیثیت مجموعی انتخابات کے نتائج مشاورت کے لئے مایوس کن ثابت ہوئے۔ لوک سبھا کے معاملے میں تو زیادہ ہی مایوس کن۔ کل 135 امیدواروں کی حمایت کی تھی جن میں سے 37 امیدوار sitting ایم پی تھے، اور ان میں سے محض 18 امیدوار ہی دوبارہ منتخب ہو پائے۔
کل ملا کر صرف یہ ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے مطالبات واضح طور پر ڈرا فٹ کئے اور پرچار کیا اور حکمراں پارٹی سے ناراضگی کا ایک واضح اور مضبوط اظہار کیا گیا۔
لیکن مشاورت کے نو نکاتی منشور پر مسلمانوں میں کو ئی اتفاق رائے نہیں ہو پا یا تھا۔ ان 9 نکات میں بھی ترجیحات کی فہرست سازی پر بھی خاصی بحث ہوئی تھی۔نئی نسل کے کئی سوالات کے تشفی بخش جوابات ان کے پاس نہیں تھے۔ دہلی کی چاندنی چوک سیٹ سے تو مشاورت کے خلاف ایک انجمن نوجوانان ملت قائم کر کے ایک آزاد مسلم امیدوار کو کھڑاکردیا گیا۔ یو پی میں بھی بلرام پور میں یہی ہوا۔ مشاورت کی recommended امیدوار سوبھدرا جوشی کو جن سنگھ کے اٹل بہاری باجپائی نے ہرا دیا، کیوں کہ مبینہ طور پر باجپائی نے ایک آزاد مسلم امیدوار کھڑا کر دیا تھا،جسے تقریباً تیس ہزار ووٹ ملے۔
کانگریس مخالف پارٹیوں نے ایک طرح سے مشاورت کا فائدہ اٹھایا۔ اور مسلمانوں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا یہ منصوبہ ناکام ہی رہا۔
(لیکن کامیاب مسلم امیدواروں کا تناسب 1967 کے لوک سبھا میں ضرور بڑھا، یہ تعداد غیر کانگریس جماعتوں میں نسبتا اور زیادہ رہی، حالاں کہ مشاورت کے منشور میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے مقصد کا ذکر نہیں تھا۔ بنگال اور راجستھان اسمبلی میں بھی مسلم امیدواروں کی تعداد میں اضافہ ہوا، جب کہ دیگر اسمبلیوں میں ان کا تناسب یا تو کم ہوا یا کم و بیش پہلے جیسا ہی رہا)۔
جن سنگھ نے بھی اس کا اپنے طور پر استعمال کیا اور مسلمانو ں کو قومی دھارا سے الگ کرنے کا پرچار کرتی رہی۔ کانگریس نے بھی ان کی خوب مخالفت کی۔
صرف سوتنتر پارٹی اور پنڈت سندر لال جیسے لوگو ں نے مشاورت کی تائید کی۔ ایس ایس پی اور ریپبلکن پارٹی نے بھی مشاورت کی تائید کی۔
مشاورت کی اس انتخابی سیاست نے اتنا ضرور کیا کہ مسلمانوں کو غیر کانگریس جماعتوں اور امیدواروں کی سیاست کی طرف بھی مائل کروایا اور کانگریس کے لئے اب مسلمان ووٹ کی اجارہ داری سمجھنا مشکل ہونے لگا۔ مسلمانوں میں سیاسی بیداری کا بھی اضافہ ہوا۔ مسائل و مطالبات کو articulate بھی کیا گیا۔
مشاورت کی کل ہند ورکنگ کمیٹی نے 2-3 اپریل 1967 کی قرارداد میں کانگریس مخالف پارٹیوں سے بھی مایوسی ہی کا اظہار کیا، گو کہ الیکشن کے ریز لٹ سے قدرے satisfaction کا اظہار بھی کیا۔
کیا اس تجربے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں ہوتا ہے کہ :
اوّل، سیاسی پریشر گروپ محض انتخابی مہم کی سر گرمیوں کے ذریعہ کچھ بھی حاصل نہیں کر پاتا، خواہ ان کی حمایت سے امیدواروں نے جیت بھی حاصل کی ہو۔ ایسے گروپ کو مسلسل اپنے مطالبات کے لئے مہم جاری رکھنا ہوتا ہے تاکہ منتخب امیدوار اسمبلی اور پارلیمنٹ میں ان کی آوازوں کو اٹھانے کا دباؤ محسوس کرتے رہیں۔ ایسے دباؤ کے لئے تحقیق، پروپیگنڈہ (ایڈوکیسی) کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کے لئے مادی و انسانی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔
دوئم، مسلم اقلیت کے سیاسی محاذ بنانےسے نا گزیر طور پر ہندو اکثریت پرست ہی نہیں لبرل سیکولر ہندو بھی کئی طرح کے شک کرنے لگتے ہیں۔
مشاورت کے بعض اہل کاروں نے خود بھی بعد کو یہ محسوس کیا کہ جماعت اسلامی سے اتحاد نے انہیں نقصان پہنچایا۔ ان میں سے کئی یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ انتخابی سیاست کے بجائے مسلمانوں کو متاثر کرنے والی سرکاری پالیسیوں پر نظر رکھنے کی سیاست کی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔
سوئم، صرف قانون سازی ہی نہیں، ظلم اور تشدد کے خلاف قانونی و عدالتی لڑائیاں بھی لڑنی ہوتی ہیں، اور ان جنگوں کو لڑنے کے لئے انتخابی سیاست کے بجائے دیگر وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لئے تعلیمی و اقتصادی قوت کی طرف توجہ مبذول ہونی چاہیے۔

(جاری)

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment