Home تجزیہ ہندوستان میں زعفرانی سیاست:ایک تفصیلی جائزہ-پروفیسر محمد سجاد

ہندوستان میں زعفرانی سیاست:ایک تفصیلی جائزہ-پروفیسر محمد سجاد

by قندیل


پروفیسر محمد سجاد(علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)

تیسری قسط

تیسری قسط میں ہم گورکھ پور کی بات کریں گے۔ بہ وجوہ دانشوروں اور صحافیوں میں گورکھ پور کی سیاست کے تئیں دلچسپی بڑھی ہے۔ اکچھے مکل نے 2015 میں ایک عمدہ کتاب شائع کی، گیتا پریس اینڈ دی میکنگ آف ہندو انڈیا۔ اس کتاب اور اس موضوع پر بھی بات کی جائے گی۔ فی الوقت ہمارا سروکار ہندو یووا واہینی سے ہوگا۔ دھیریندر کمار جھا نے 2017 میں ایک کتاب شائع کی شیڈو آرمیز: فرنج آرگنائیزیشنس اینڈ فٹ سولڈرس آف ہندوتو۔ اس میں ایک مختصر باب ہے ہندو یوا واہینی پر۔ ششانک چترویدی، ڈیوڈ گلنر اور سنجے کمار پانڈے نے ایک تحقیقی مضمون (2019) شائع کیا ہے،جس میں گورکھ پور کی سیاست ، 1920 تا حال کا بالتفصیل جائزہ لیا گیا ہے۔
گورکھ پور سے لگے ہوئے بہار کے اضلاع سیوان، گوپال گنج، اور شاہ آباد (بھوج پور) میں راجپوت آبادی والی بستیوں میں واہینی کا اثر بڑھنے لگا ہے۔ کرنی سینا کے نام سے بھی بہار کی دور افتادہ بستیوں تک میں فلم پدماوت (2018)کے تعلق سے مسلم مخالف باتیں مقبول کرائی گئیں اور 13-14ویں صدی کے سلطان علاؤالدین خلجی کے عہد کی غیر مصدق اور مفروضہ سیاسی باتوں کے لئے آج کے مسلمانوں کو ذمے دار ٹھہرانے والی سیاست کے ذریعے مسلم مخالف ماحول بنا کر ہندوتو کی سیاست کو تقویت پہنچانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایسا سمجھا جانا چاہیے کہ بہار اسمبلی کے آئندہ انتخابات میں بھی ان زعفرانی کاوشوں سے استفادہ کرنے کی کوشش کی جائےگی۔
اس تعلق سے واہینی اور گورکھ پور کی سیاست کے تئیں مذکورہ تحقیقات کا خلاصہ اردو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
یوں تو بودھ، جین اور سنت کبیر تحریک کی آماجگاہ بھی اسی خطے میں ہےاور فروری 1922 میں چوری چورا ہنسا کی وجہ سے گورکھ پور نے تحریک آزادی میں خاص مقام بنالیا۔ آزادی کے بعد سماجواد ی تحریک کا اثر بھی خاصا رہا۔ گورکھ ناتھ مندر اور مٹھ کی بھی ایک مخصوص تاریخ رہی ہے، جو وقت کے ساتھ بہت بڑی "تبدیلی کا شکار” ہو گئی۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ اودھ کے نواب آصف الدولہ (1775-1797) نے بابا روشن علی شاہ اور ان کے دوست بابا گورکھ ناتھ کو گورکھ پور کا علاقہ نصف نصف حصے میں عطا کر دیا تھا۔
ٹھا کر اجے موہن سنگھ بشٹ عرف مہنت یوگی آدتیہ ناتھ نے 1998 کے لوک سبھا الیکشن میں 26ہزار ووٹوں سے اپنے مخالف کو شکست دی، 1999 میں محض سات ہزار ووٹوں سے اپنے مخالف کو شکست دے پائے۔ حالاں کہ الیکشن سے عین قبل فروری 1999 میں ہی انہوں نے پولرائیزیشن کی سیاست کو تیز کر دیا تھا۔ پچ رکھیا (مہاراج گنج ضلع، اتر پردیش) میں ایک خوں ریز ٹکراؤ ہو گیا تھا جس میں سماج وادی پارٹی کی طلعت عزیز کے محافظ ستیہ پرکاش یادو کا قتل ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود یوگی تک قانون کے لمبے ہاتھ پہنچنے سے قاصر رہے- ملائم سنگھ کی سرکار (2002-2007) کے دوران، یوگی تک قانون کے لمبے ہاتھ کی کوئ رسائی نہ ہو سکی-
(جب 2007 کا اسمبلی الیکشن قریب آیا، تو جنوری 2007 میں یوگی کی گرفتاری ہوئی اور گیارہ دنوں تک وہ حراست میں رہے، اس کے بعد لوک سبھا میں اپنا درد آنسوؤں کے ساتھ بیان کیا۔ تنازعہ محرم کے تعزیہ کے جلوس کو لے کر تھا،ان معاملات پر ایک اردو صحافی پرویز پرواز بہادری کے ساتھ مقدمے لڑ رہے ہیں۔ اب ساٹھ برس سے زیادہ عمر اور علالت کے باوجود ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا ہے۔ )
اس کے بعد کے اتر پردیش کے اسمبلی الیکشن 2002 میں زعفرانی پارٹی کی ہار ہو گئی تھی، گرچہ گورکھ پور لوک سبھا کے پانچ میں سے ایک اسمبلی حلقے سے یوگی کے امیدوار رادھا موہن اگروال نے جیت درج کرا لی تھی۔ لیکن اس پر یوگی خود اپنے لئے مطمئن نہیں ہو سکتے تھے۔
لہذا مارچ 2002 میں انہوں نے اپنی ایک تنظیم بنائی جس میں انہون نے گو رکچھا منچ کو ہندو یوا واہینی کا نام دے دیا۔ فروری 2002 میں گجرات فساد کے تحت ملک میں ایک فرقہ وارانہ کشیدگی کا ماحول یوں بھی بنا ہوا تھا۔ اس تنظیم کے قیام کے بعد ہی گورکھپور اور پڑوس کے اضلاع میں، ایک برس کے اندرکم از کم چھ فسادات ہوئے اور 2007 تک فسادات کی تعداد 22 تک پہنچ گئی۔
2004 لوک سبھا الیکشن میں انہوں نے اپنی جیت کا فرق بڑھا کر 142000 ووٹ کر لیا اور 2009 میں یہ فرق مزید بڑھ کر تین لاکھ پر جا پہنچااور تقریباً ایسی ہی مضبوط جیت 2014 میں بھی درج کرائی ۔ 2017 میں یہ اتر پردیش کے وزیر اعلی بن گئے۔
مٹھ کا انتخابی سیاست سے تعلق زیادہ نیا نہیں ہے۔ ٹھا کر ننھو سنگھ عرف دگ وجے ناتھ ( 1894-1969) گورکھ ناتھ 1935 سے 1969 تک مندر کے مہنت رہے ۔ انہوں نے 1939 میں ہندو مہاسبھا کی ممبرشپ اختیار کی۔ ان پر مہاتما گاندھی کے قتل کی سازش کا الزام بھی لگایا گیا تھا۔ کرشنا جھا اور دھیریندر جھا کی تحقیقی تصنیف (2012)ایودھیا، دی ڈارک نائٹ کے مطابق 1949 میں ایودھیا کی بابری مسجد میں رام للا کی مورتی رکھنے میں بھی ان کا اہم کردار رہا ہے۔ تب یہ ہندو مہاسبھا کے قومی صدر بھی تھے۔ جون 1950 میں "اسٹیٹس مین ” اخبار میں دگ وجے ناتھ نے بیان دیا کہ مہاسبھا کی حکومت قائم ہونے پر کم از کم دس برسوں تک مسلمانوں سے حق رائے دہندگی چھین لی جائے گی اور اس درمیان مسلمانوں کو حب الوطنی کے امتحان سے گذرنا ہوگا۔ 1952 میں مہنت دگ وجے ناتھ نے ہی آر ایس ایس کے اسکول سر سوتی شیشو مندر کی پہلی یونٹ قائم کیا، اور وہ گورکھ پور ہی سے شروع ہوئی ۔ ان اسکولوں کی تعداد اب ملک بھر میں پھیل کر کئی ہزار ہو چکی ہے۔
سنہ 1962 میں یہ ایم ایل اے منتخب ہوئے اور 1967 میں ہندو مہاسبھا ہی کے ٹکٹ سے گورکھ پور کے ایم پی بھی منتخب ہوئے۔
ان کے جانشیں ، مہنت اویدیہ ناتھ (1921-2014) بھی الیکشن میں حصہ لیتے رہے۔
جنوری 31، 1989 میں وی ایچ پی نے ، الہ آباد کے کمبھ میلہ میں دھرم سنسد کیا اور اس میں اویدیہ ناتھ نے بھی رام مندر کے تعلق سے تقریر کیں اور ہندو مہا سبھا سے گورکھ پور کے ایم پی منتخب ہوئے۔ 1991 اور 1996 میں بی جے پی کے ٹکٹ سے منتخب ہوئے۔ ستمبر 2014 میں ان کے انتقال کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ اس مٹھ کے مہنت ہو گئے۔
یوگی کی ہندو یوا واہینی کا ایک خاص طریقۂ کار ہے۔ جنوری سے فروری کے درمیان یہ دلتوں اور آدیباسیوں کے لئے "سہبھو ج ” کرتے ہیں ، جس میں اجتماعی طور پر ان کے ساتھ کھانا کھایا جاتا ہے، فروری سے مارچ کے درمیان ممبرشپ مہم چلائی جاتی ہے، مارچ سے مئی کے دوران ریلیاں وغیرہ کرائی جاتی ہیں۔ اویدیہ ناتھ نے 1983 سے ہی سمرہتا بھوج شروع کیا تھا اور اس کا مقصد ذات پات کے احساس و عمل کو کم کرنا تھا۔
واہینی کی توسیع اب اتر پردیش کے مشرقی اضلاع اور ان کی بستیوں میں بڑے پیمانے پر ہو چکی ہے۔ پنچایتوں میں کم از کم 250 ممبران کی شرط ہے، اس سے قبل یونٹ کے قیام کا اعلان نہیں کیا جاتا ہے۔ 2005 سے واہینی کا ایک اخبارہندوی بھی چل رہا ہے، جو 2007 میں بند ہو گیا تھا۔ تنظیم پر لیڈرشپ کی سطح پر ٹھاکروں کا ہی غلبہ ہے۔راگھویندر سنگھ اور سنیل سنگھ ان میں اہم نام ہیں۔ حالاں کہ اوم پرکاش پاسوان نام کے دلت لیڈر کو بھی ایم ایل اے منتخب کروا کر واہینی کا سماجی آدھار بڑھا یا گیا تھا، لیکن دو برس کے اندر ہی اس کا قتل ہو گیا۔
مٹھ کے فنڈ سے سڑک، صحت و علاج کے لئے امدادوغیرہ کا فلاحی کام بھی کیا جاتا ہے، تاکہ وکاس پروش والی امیج بنی رہے۔ ساتھ ہی ساتھ گینگسٹر سیاست سے ایک خاص قسم کا تعلق رکھا جاتا ہے۔ مٹھ کے احاطے میں ون واسی کلیان چھاتراواس بھی قائم ہےٹھاکر ویریندر پرتاپ شاہی اور ہری شنکر تیواری کے درمیان گینگ وار چلتا رہا تھا۔ تیواری 1985 سے لگا تار چھ بار ایم ایل اے منتخب ہوا تھا۔ 1997 میں ٹھاکروں کے غلبہ کو ایک دھچکہ لگا جب شری پرکاش شکلا گینگ نے ٹھاکر ویریندر کا قتل کر دیا تھا۔ (اس گینگ وار اور ذات پات کی جنگ میں گورکھ پور یونیورسٹی اور اس کے طالب علم نیتاؤں کا مافیا ورلڈ سے تعلق بھی ایک اہم اور دلچسپ پہلو ہے۔ )
بہر کیف، یوگی نے ٹھاکروں کے اس غلبہ کو پھر سے قائم کرنے کا کام کیا ہے۔ اب وہاں کا نعرہ ہے "گورکھ پور میں رہنا ہے تو یوگی یوگی کہنا ہوگا”۔ یہ نعرہ اب یوں بھی ہو گیا ہے "پوروانچل میں رہنا ہے تو یوگی یوگی کہنا ہوگا”۔
آنے والے بہار اسمبلی انتخابات میں واہینی کے رول پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ 2013 کے بعد سے بہار میں فرقہ وارانہ تناؤ اور فساد میں اچانک اضافہ ہونے لگا ہے۔ گورول (ویشالی، بہار) میں اسی سال پروین توگڑیا نے وہاں ‘گؤ پشٹی کرن سنگٹھن’ قائم کیا۔ یوگی بھی وہاں پبلک میٹنگ کر چکے ہیں۔ ان پہلوؤں پر راقم نے کئی کالم لکھ کرقارئین کو آگاہ کیا تھا۔

( جاری)

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment